یہ دن بھی پاکستان کی پارلیمانی سیاست یادگار دن کے طور پر یاد رکھا جائے گا جس دن پاکستان کی قومی اسمبلی میں حلف اٹھاتے ہی آصفہ بھٹو کی پارلیمانی سیاست کے آغاز کے ساتھ ساتھ انہیں خاتون اول کا درجہ بھی حاصل ہو گیا تھا۔ ان کی پارلیمنٹ ہاﺅس میں آمد ان کی اسی حیثیت میں پروٹوکول کے ساتھ ہوئی۔ گو کہ آئین میں اس سٹیٹس خاتون اول کے حوالے سے کوئی مراعات یا حوالہ موجود نہیں ہے اور نہ ہی کوئی ذمہ داری اور یہ درجہ ایک سفارتی روایات کے طور پر رکھا جاتا ہے۔ تاہم اب پاکستان میں یا بیرون ممالک بین الاقوامی کانفرنسوں غیر ملکی مہمانوں کی آمد کے موقع پر آصفہ بھٹو کو ان کے استقبال اور بیرون ممالک ہونے والی اہم تقریبات میں دیکھا جا سکے گا۔ اگر ہم ماضی میں پاکستان کی سیاسی تاریخ کو اس حوالے سے دیکھیں تواس سے قبل صدر ایوب خان کے دور میں ان کی بیٹی نسیم اورنگزیب خاتون اول کا کردار نبھاتی رہی ہیں۔ نسیم اورنگزیب سوات کے شہزادے میاں گل اورنگزیب کی اہلیہ تھیں اور صدر ایوب نے انہیں خاتون اول کا درجہ دیا تھا کیونکہ ایوب خان کی اہلیہ ایک گھریلو خاتون تھیں اور سرکاری تقریبات میں نہیں جاتی تھیں۔ خود آصفہ بھٹو کی والدہ بے نظیر بھٹو شہید بھی کم سنی میں اپنے والد شہید ذولفقار علی بھٹو کے ساتھ سرکاری دوروں پر جاتی رہی ہیں اور سرکاری اجلاسوں اور تقریبات کا حصہ بنتی تھیں۔ان کی پاکستان اور انڈیا کے درمیان شملہ مذاکرات کے موقع پر موجودگی کے بارے میں کئی کتب اور دستاویزات میں حوالے دیے گئے ہیں۔اس سے قبل بانی پاکستان اور ملک کے پہلے گورنر جنرل قائداعظم محمد علی جناح کی بہن فاطمہ جناح بھی ان کے ساتھ کئی اہم مواقع کا حصہ رہیں۔ سرگرم خواتین اول میں بیگم رعنا لیاقت علی خان، ناہید سکندر مرزا، وقار النسا نون، نصرت بھٹو، جنرل پرویز مشرف کی اہلیہ صہبا مشرف، کلثوم نواز، فوزیہ گیلانی اور حالیہ دنوں میں ڈاکٹر عارف علوی کی اہلیہ بیگم ثمینہ علوی کے نام سامنے آتے ہیں۔نواز شریف نے بھی اپنے دوسرے دور حکومت میں مریم نواز کو بیشتر سرکاری مصروفیات میں اپنے ساتھ رکھا اور ان کی سیاسی تربیت کی۔۔تاہم، بین الاقوامی سطح پر خاتون اوّل کا درجہ پانے والی بیٹیوں کی بھی کچھ مثالیں موجود ہیں امریکہ میں اب تک کئی ایسی خواتین خاتون اول کا رتبہ حاصل کر چکی ہیں جو صدر کی اہلیہ نہیں تھیں۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جب صدر شادی شدہ نہیں ہوتا یا اس کی زوجہ خاتون اول کی ذمہ داریاں ادا کرنے سے قاصر ہوتی ہے۔ اب تک ایسی امریکی خواتین اول میں تھامس جیفرسن کی بیٹی مارتھا جیفرسن ریڈولف، اینڈریو جیکسن کی بہو سارہ یارک جیکسن اور ان کی بیوی کی بھتیجی ایملی ڈونلسن، زاچارے ٹیلر کی بیٹی ایلزبتھ بلس، بنجمن ہیریسن کی بیٹی میری ہیریسن میکی، جیمز بکانن کی بھتیجی ہیریٹ لین اور گروور کلیولینڈ کی بہن روز کلیولینڈ شامل ہیں۔
آصف علی زرداری صدر مملکت کا عہدہ سنبھال چکے ہیں، اگر بینظیر بھٹو حیات ہوتیں تو انہیں خاتونِ اول کا درجہ ملتا، لیکن صدر کی اہلیہ کے نہ ہونے پر اب یہ عہدہ ممکنہ طور پر ان کی بیٹی آصفہ بھٹو زرداری کو مل چکا ہے۔یادرہے صدارتی منصب کا حلف اٹھانے کے بعد صدر آصف علی زرداری نے اپنی صاحبزادی آصفہ بھٹو کو خاتون اول بنانے کا عندیہ دیا تھا لیکن بختاور بھٹو نے اسی روز ”ایکس“پر ایک پوسٹ میں آصف زرداری کے ساتھ آصفہ بھٹو کی تصویر لگا کر یہ لکھا تھا کہ صدر زرداری کے ساتھ عدالت میں پیشیوں سے لیکر ان کے جیل سے رہائی تک ساتھ رہنے والی آصفہ بھٹو صدر پاکستان کے ہمراہ بطور خاتون اول۔
آصفہ بھٹو جنہوں نے قومی اسمبلی کی رکنیت کا حلف اٹھا کر باقاعدہ پارلیمانی سیاست کا آغاز اپنی بہترین پہلی تقریر سے کیا تھا یہ دن بھٹو خاندان کیلئے ایک یادگار دن تھا اپنے بھائی بلاول بھٹو کے ہمراہ سفید دوپٹہ اوڑھے بازو پر امام ضامن باندھے جب انہوں نے حلف کی عبارت پڑھنی شروع کی تو آواز میں اپنی والدہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی ہو بہو تصویر نظر آئیں بلکہ ایوان میں اس ضمن میں چہ مگوئیاں بھی ہوئیں کہ آصفہ نے محترمہ بی بی شہید کی یادیں تازہ کر دی ہے، پیپلزپارٹی ارکان نم آنکھوں سے اس حوالے سے دیر تک اپنی یادیں تازہ کرتے رہے صدر آصف علی زرداری اپنی لاڈلی صاحبزادی کے حلف برداری کے مناظر براہ راست ٹی وی پر دیکھ رہے تھے۔
ایک طرف ان تاریخ ساز لمحوں کو تاریخ اپنے دامن میں سمیٹ رہی تھی تو دوسری جانب بہنوں بیٹیوں کی عزت نہ کرنے کے حوالے میں معروف نیم سیاسی و مذہبی جماعت کے کارکن اپنی اپوزیشنی دکھاتے ہوئے ہنگامہ آرائی اور شدید نعرے بازی میں مصروف تھے اس ہلے گلے نے ایوان کی فضا کو درہم برہم کئے رکھا جس پر بلاول بھٹو کی برہمی دیدنی تھی اور تمام وقت ان کے چہرے پر غصہ اور ناگواری کے اثرات دیکھے جا سکتے تھے۔ اجلاس کے ختم ہونے پر انہوں نے اپنے رفقا سے گفتگو کرتے ہوئے سخت لفظوں میں ردعمل کا اظہار بھی کیا تھا۔ چونکہ اس مرتبہ پی ٹی آئی کے اراکین کی جانب سے ہنگامہ آرائی متوقع تھی اس لئے آصفہ بھٹو کے لئے خصوصی طور پر ہیڈفون کا انتظام کیا گیا تھا اور انہوں نے حلف کی عبارت ہیڈ فون لگا کر پڑھی۔ آصفہ بھٹو جو ہمیشہ ایوان کے سپیکر بکس میں بیٹھ کر خاص مواقع پر کارروائی دیکھا کرتی تھی پہلی مرتبہ ایوان میں رکن کی حیثیت سے آئی تھیں لیکن وہ انتہائی پراعتماد دکھائی دے رہی تھیں جس سے دیکھنے والے ششدر رہ گئے کہ ایک چھوٹی بچی اتنی خود اعتماد کیسے ہو سکتی ہے، لیکن وہ شائد بھٹو خاندان کی جانب سے اپنے بچوں کے سیاسی وسفارتی تربیت سے واقف نہیں کہ یہ خاندان پالنے سے ہی اپنے بچوں کی تربیت اس انداز سے کرتا ہے کہ وہ سیاسی سفارتی اور حکومتی اسرار رموز سے آگاہ ہوتے چلے جائیں۔