کچھ لوگوں کا اب بھی اصرار ہے کہ برصغیر سے انگریز سامراج بظاہر گیا ہے لیکن حقیقتاً کسی نہ کسی طور اب بھی اپنی پوری گرفت کے ساتھ موجود ہے۔ اب آ کے ہمیں بھی یہ احساس پہلے سے زیادہ شدت سے ہونے لگا ہے کہ کوئی نہ کوئی شیطانی پنجہ پاکستان کے گرد ایسا اب بھی موجود ہے جو نادیدہ قوتوں کی مرضی سے ہم پر تنگ اور ڈھیلا ہوتا رہتا ہے۔
پچھلے 76 سال گواہ ہیں کہ پاکستان جب بھی کسی مخلص سیاسی حکومت حتیٰ کہ مخلص آمریت کے باعث بھی ترقی کی راہ پر گامزن ہونے لگتا ہے تو کوئی نادیدہ قوت اس کے پیروں کے نیچے سے زمین کھینچ لیتی ہے اور ہم ایک دوسرے پر الزام لگاتے آپس میں لڑتے مرتے رہتے ہیں۔ ایک اور بھی گھمبیر صورتحال کا مطالعہ و مشاہد کیا جاسکتا ہے اور وہ یہ ہے کہ دنیا میں جس جس ملک اور خطے میں قدرتی وسائل تھے اور ہیں ان پر ہمیشہ طاقتور ممالک کی حریص نظریں بھی رہیں اور کان ک±ن کمپنیوں نے بھی وہاں کسی کو کبھی چین کا سانس لینے نہیں دیا۔ اب ایک اور عفریت جس نے تمام دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے وہ ہے ملٹی نیشنل کمپنیاں۔ پوری دنیا کے ہر منافع بخش کاروبار پر انہی کا قبضہ ہے۔
اپنے کاروبار کے پھیلاﺅ کے لیے اور لامحدود منافعوں کے حصول کے لیے یہ کمپنیاں چھوٹی موٹی واردات سے لے کر بڑے بڑے بحرانوں تک پیدا کرنے میں اپنا ثانی نہیں رکھتیں۔ ٹھیکوں کے حصول اور وسائل پر قبضے کے لیے ان کو اگر حکومتیں تک تبدیل کرنا پڑیں اور اپنی مرضی کے لوگوں کو حکومت میں لانے کے لیے راستہ ہموار کرنا پڑے تو بلا تاخیر کرتی ہیں۔ چینی انجینئرز کی ہلاکتیں اور لاپتہ افراد کا مسئلہ کہیں نہ کہیں آپس میں جڑتا ضرور ہے۔ چینیوں کو زیادہ تر ان مقامات پر قتل کیا جاتا رہا جہاں ان کے پراجیکٹس تھے اور لاپتہ افراد کا مسئلہ سب سے زیادہ بلوچستان سے تعلق رکھتا ہے۔ بلوچستان عرصہ دراز سے دہشت گردی کا شکار ہے۔ معصوم اور مظلوم بلوچ نوجوان ایک طرف وڈیروں کے تسلط کا شکار ہیں تو دوسری طرف صوبے کو بدامنی کا شکار کرکے مار رکھنے والی ان دہشت گرد قوتوں کے جبر کا لقمہ بنے ہوئے ہیں جو انہیں کبھی آزادی کے نام پر تو کبھی حقوق کے نام پر اکسا کر ملک دشمن مجرمانہ سرگرمیوں میں اس طرح ملوث کیے ہوئے ہیں کہ ان بیچاروں کو شعور تک نہیں کہ دشمن ان کے ساتھ کیا کھلواڑ کر رہا ہے۔ میری طالب علمانہ اپروچ کے مطابق بلوچستان میں ہونے والی دہشت گردی ، قتل و غارت گری اور اغوا کرکے مارنے جیسی وارداتوں کو بلوچستان میں موجود قدرتی وسائل پر قبضے کی جنگ کے مفروضے کو نظر انداز کرکے دیکھا نہیں جا سکتا۔ پاکستان کے علاوہ بھی اگر قدرتی وسائل رکھنے والے ممالک کا جائزہ لیا جائے خصوصاً مسلمان ممالک کا تو صاف نظر آتا ہے کہ ان پر تو گویا مسلسل قہر توڑا جا رہا ہے۔
افغانستان جس پر طویل عرصہ سے سامراجی طاقتیں یلغار کرتی آرہی ہیں بالکل بلوچستان کی طرح معدنیات سے مالا مال ملک ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کیمطابق افغانستان کے پہاڑوں میں ایک لاکھ ٹن سونا ہے۔ ایٹمی ہتھیاروں بالخصوص ہائیڈروجن بم بنانے کے لیے میتھٹم کی ضرورت پڑتی ہے۔ افغانستان مستقبل میں دنیا کا واحد ملک ہوگا جس کے سوا کسی اور کے پاس میتھٹم نہیں ہوگا۔ اس طرح افغانستان میں ٹائی ٹینیم کی بھی وافر مقدار پائی جاتی ہے جو میزائل بنانے میں استعمال ہوتا ہے۔ افغانستان کے کل چھ لاکھ مربع میل رقبہ میں ایک لاکھ مربع میل سے زائد زرعی زمین ہے جس میں پھل، خشک میوہ جات ، انار، انگور، سیب اور خوردنی تیل کی کاشت ہوتی ہے۔ کاپر کے ذخائر دنیا بھر میں سب سے زیادہ افغانستان میں ہیں۔ افغانستان میں کئی مقامات ایسے ہیں جہاں لوہے کے دس ارب ٹن سے زائد ذخائر ہیں۔ گیس بھی وافر مقدار میں ہے۔ روس نے افغانستان پر اپنے قبضہ کے دوران اربوں ڈالر کی گیس نکالی تھی اسکے باوجود قدرتی گیس کے ذخائر اس قدر زیادہ ہیں کہ سیکڑوں سال استعمال کے باوجود ختم نہیں ہوں گے۔
صومالیہ ایک چھوٹا سا غریب ملک ہے لیکن وہاں بھی یورینیم، آئرن، ٹن اور جپسم کے ذخائر ہیں۔ الجزائر بھی قدرتی ذخائر سے مالا مال ملک ہے۔ لوہا، تیل، گیس، زنک وغیرہ کی بھرمار ہے۔ سوڈان میں کیلشیم، تانبہ، پیٹرولیم اور دیگر مصنوعات کافی مقدار میں نکلتی ہیں۔ اسی طرح انڈونیشیا میں تیل، تانبہ، گیس اور خام تیل کے ذخائر وافر مقدار میں ہیں۔ پھر عام معدنیات سے ہٹ کر اللہ تعالیٰ نے مسلم ممالک کو سیال سونے (پیٹرولیم) سے مالا مال کیا۔ اس وقت صنعتی ترقی کا سارا انحصار پٹرول پر ہے جس سے عرب ممالک لبالب بھرے ہیں۔انڈونیشیا سے لیکر شام ، عراق ، لیبیا تک پر بھی یلغار کے پیچھے خام تیل اور دیگر قدرتی خزانوں کی کہانی ہی نظر آتی ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ کچھ برس قبل امریکی تھنک ٹینکس کی طرف سے اعلان کر دیا گیا تھا اور نقشے بھی جاری کردیے گئے تھے کہ بلوچستان فلاں سال تک پاکستان سے علیحدہ ہوجائیگا۔
ہم اگر کبھی بغور جائزہ لیں کہ پاکستان میں سیاسی بحران پیدا کیے جانے کے بعد ایک طرف تو نئی آنے والی حکومت کی طرف سے پرائیویٹائزیشن کی اصطلاح کی آڑ میں ملکی اثاثوں کی فروخت کا عمل شروع ہوجانے کے ساتھ ساتھ قدرتی وسائل کے ٹھیکے لینے والی کمپنیوں کے ساتھ میٹنگز اور معاملات طے کیے جانے کی خبریں آنا شروع ہو جاتی ہیں اور دوسرا ملکی و غیر ملکی میڈیا میں افواج پاکستان پر الزام تراشی اور دہشت گردانہ حملوں کی کارروائیوں میں اضافہ ہونے لگتا ہے۔
کونسا الزام ہے جو افواج پاکستان پر نہیں لگایا جاتا اور دوسری طرف شہادتیں بھی سب سے زیادہ فرزندان پاکستان کی ہونے لگتی ہیں۔ ایک طرف معصوم پاکستانیوں کی جانوں سے کھیلا جاتا ہے تو دوسری طرف سکیورٹی فورسز کے جوانوں کی لاشیں گھروں میں لوٹتی ہیں۔ پاکستان پر مسلط کی گئی دہشت گردی میں جتنی قربانیاں افواج پاکستان کے جانثاروں نے دی ہیں اسکی مثال پوری دنیا میں نہیں ملتی۔ آج کل پھر ایک بار پاکستانی اثاثوں کی خرید و فروخت شروع ہوچکی ہے ، ریکو ڈک میں موجود قدرتی وسائل کو پراسس میں لانے کے لیے متعلقہ کمپنی سے میٹنگز جاری ہیں اور ادھر لاپتہ افراد کا ایشو اٹھا کر سارے کا سارا الزام پاکستانی فوج اور دیگر سکیورٹی اداروں کے سر دھرا جا رہا ہے۔ پاکستان کے سکیورٹی اداروں ، عدالتوں اور خود عوام خاص طور پر وہ خاندان جن کے افراد لاپتہ ہوے ہیں ان سب کو مل کے ملک اور عوام کو اس دلدل سے نکالنا ہوگا۔ بلوچستان میں ہونےوالی مسلسل دہشتگردی جو انسانیت دشمن دولت پرستوں کا ہمیشہ سے کار آمد ٹول رہی ہے اسکے ذریعے ایک طرف معصوم پاکستانی شہریوں کا قتل دوسری طرف سکیورٹی اداروں کے جوانوں کی شہادتوں کا سلسلہ زوروں پر ہے اور ان میں ملوث افراد کو پکڑو تو سارا ملبہ اداروں پر تاکہ اداروں کا مورال اتنا ڈاون چلا جائے کہ وہ بحران سے نکل ہی نہ سکیں۔ اگر تھوڑی دیر کے لیے غور کیا جائے تو بڑی سہولت سے سمجھا جا سکتا ہے کہ بین الاقوامی خبر رساں ایجنسیاں پاکستانی اداروں کے خلاف لاپتہ افراد کے رشتہ داروں کے رقت آمیز انٹرویو تو چلاتی ہیں لیکن ہمارے شہداءکے گھروں میں جا کر انکے ماں باپ کے دلوں کے حالات جاننے کی زحمت کبھی نہیں کرتیں ۔ ہم نے پاکستان میں فرقہ وارانہ فسادات کے دوران باقاعدہ مشاہدہ کیا کہ پہلے مخالف فرقوں کو مختلف ممالک سے کمک پہنچائی گئی اور ان کو مسلح کیا گیا پھر کسی ایک کی مسجد میں بم پھینکا گیا۔ پھر دوسرے کی امام بارگاہ پر گولیاں برسائی گئیں اور اس کے بعد دونوں کو ایک دوسرے کے پیچھے لگا کے دہشت گردی کا بازار گرم کیا گیا اور چڑھائی ریاست پاکستان پر کردی گئی کہ ملک میں تو امن نہیں ہے لہٰذا مزید انویسٹمینٹ نہیں کی جاسکتی نہ آسان شرائط پر قرضے دیے جا سکتے ہیں۔
ہمیشہ سے یہی صورتحال ہے ، کسی اکا دکا واقعہ کے علاوہ۔ مار کوئی جاتا ہے ، اغوا کوئی کرتا ہے لیکن پریشر قانون نافظ کرنے والے اداروں پر بڑھا دیا جاتا ہے اور ہم بھی اتنے ہی عاقبت نااندیش ہیں کہ عدالتیں اداروں پر اور ادارے عدالتوں پر الزام تراشی شروع کر کے دشمنوں کے مقاصد کو عین اسی طرح پورا کرنا شروع کر دیتے ہیں جس طرح انہوں نے ڈیزائن کیا ہوتا ہے۔
حالانکہ لاپتہ افراد کے حوالے سے عدالتوں اور اداروں دونوں کی پیش رفت کو دیکھا جائے تو وہ بہت مثبت اور حوصلہ افزا ہے۔ جتنے کیسز سکیورٹی اداروں کے پاس تھے ان میں سے ساٹھ فیصد سے زیادہ نمٹائے جا چکے ہیں اور باقی پراسس میں ہیں۔