9سال قبل قطر سے کئے گئے معاہدوں کی دستاویزات گم ہو گئیں
ایسا کون سا عجوبہ ہے جو ہمارے ملک میں نہیں۔ ایک سے بڑھ کر ایک نیا عجوبہ ہمارے ہاں پایا جاتا ہے۔ ان عجوبوں کی وجہ سے ہمارے سامنے ہر روز ایک نیا عجوبہ روزگار پروگرام آتاہے اب دیکھ لیں ہماری وفاقی انتظامیہ میں کیسے کیسے نمونے بیٹھے ہیں وہ کیا کیا کارنامے سرانجام دے رہے ہیں۔
2015ءمیں امیر قطر پاکستان کے دورے پر آئے یہاں کئی معاہدوں پر دونوں حکومتوں نے دستخط کئے۔ اس کے بعد یہ دستاویزات امیر قطر ساتھ لے گئے قطر میں تمام لوازمات پورے کر کے یہ دستاویزات پاکستان کے حوالے کر دی گئیں۔ اب مزے کی بات یہ ہے کہ پتہ چلا ہے کہ یہ دستاویزات مل نہیں رہیں۔ کیا چوہے کھا گئے یا انہیں دیمک چاٹ گئی۔ اتنے اہم معاہدوں کی دستاویزات غائب ہیں کسی کو خبر تک نہیں ہوئی۔ یہ ہے ہماری سابق انقلابی تبدیلی سرکار کی گڈگورننس، ابھی تک ہم سائفر کہاں ہے والے ڈرامے کی اگلی قسط کا بے چینی سے انتظار کرتے ہوئے مرے جا رہے تھے کہ اب یہ نیا ڈرامہ شروع ہو گیا ہے۔ یہاں بھی وہی دستاویزات یعنی کاغذوں کا غائب ہونے کی کہانی سامنے آئی ہے۔
کیا ہمارے ہاں حکومتوں کا اپنے اداروں پر کوئی کنٹرول باقی نہیں رہا۔ سب بے لگام ہو چکے ہیں۔ ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ وزارت سے دستاویزات وہ بھی اہم ہمارے اپنے فائدے والی غائب ہوں۔ خدا جانے کس نااہل نے انہیں متروکہ فائلوں تلے دبا دیا ہو گا کہ ہمارے بعد کی حکومت اس سے فائدہ نہ اٹھائے۔ اب ایسے غیر ذمہ دارانہ حرکت کرنے والوں کو ڈھونڈ نکالنے کے لیے دیکھیں کیا ہوتا ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے تو اس معاملے کا دستاویزات کی گمشدگی کا سخت نوٹس لیا ہے تو اسے انجام تک پہنچانے کی ذمہ داری بھی ان پر عائد ہوتی ہے جو جلد از جلد پوری کی جائے۔ قطر والے بھی کیا سوچتے ہوں گے، عجب بے فکر ے فقرا سے پالا پڑا ہے۔
٭٭٭٭٭
گھوٹکی میں تھانے پر ڈاکوﺅں کا حملہ ایک پولیس والا ہلاک دو کو ڈاکو اسلحہ سمیت اغوا کر کے لے گئے
اب جتنی چاہے کچے کے ڈاکوﺅں کے خلاف آپریشن کی کہانیاں سن لیں سب عمرو عیار کے قصے معلوم ہوتی ہیں یا ہزار داستان کی کہانیاں۔ پولیس رینجرز سے لے کر دو صوبوں کی مشترکہ کارروائی کے باوجود چور، سپاہی کی کہانی ختم نہیں ہو رہی۔ ڈاکوﺅں کے حوصلے بلند ہیں جبکہ سیاسی مداخلت کی وجہ سے بااثر افراد کے دباﺅ کی وجہ سے پولیس اور رینجرز کے حوصلے پست لگتے ہیں۔ اگر ان کو کھل کر کام کا موقع ملے تو شاید ڈاکو راج کا خاتمہ ممکن ہو سکے۔ مگر ایسا ہونے نہیں دیا جائے گا وزیر اور مشیر جب ڈاکوﺅں کے سرپرست ہوں گے تو پھر پولیس تھانوں پر یونہی ڈاکو حملے کرتے رہیں گے۔ ڈاکو تھانے لوٹتے رہیں گے۔ عوام اس پر غم و غصے کا اظہار کریں تو آئی جی سندھ اور سندھ حکومت کے وزیروں اور مشیروں کو تب لرزہ طاری ہو جاتا ہے۔ وہ عالم ہذیان میں جو بولتے ہیں اس پر لوگوں کا ہاسہ نکل جاتا ہے۔ ان کی کامیابی کے دعوﺅں پر کسی کو یقین نہیں آتا۔ آئے روز لوگ اغوا ہو رہے ہیں۔ اب تو معاملہ صوبائیت تک پہنچ گیا ہے۔ پٹھانوں نے اپنے بندے اغوا ہونے پر دھمکی دی ہے کہ وہ کسی سندھی کو بلوچستان یا سرحد میں داخل ہونے نہیں دیں گے۔
کئی قبائل نے تو کچے کے علاقے میں لشکر کشی کے لیے فورس بھی بنا لی ہے۔ شاید اس طرح ان ڈاکوﺅں کا سدباب ہو اور ان سے نجات ملے یوں ڈاکوﺅں کے زیر حراست درجنوں مغویوں کو بھی خلاصی مل سکے جو بے چارے ابھی تک تاوان ادا نہ کرنے کی وجہ سے ان کی قید میں ظلم و ستم سہہ رہے ہیں۔ جب پولیس سے کچھ نہیں ہوتا تو پھر ایسا ہی کرنا پڑے گا کیونکہ ان قبائلی لشکروں پر کوئی سیاسی پریشر یا بااثر افراد کا دباﺅنہیں ہو گا اور وہ کھل کر ان ڈاکوﺅں کو چن چن کر چوہوں کی طرح ان کے بلوں میں گھس کر ماریں گے جس طرح اورنگ زیب عالمگیر نے مرہٹہ باغیوں کو پہاڑیوں کے دامن میں ان کے بلوں میں گھس کر مار بھگایا تھا۔
٭٭٭٭٭
پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی کی چیئرمینی پر پی ٹی آئی میں دھڑے بندی سامنے آ گئی
جب ایک انار اور سو بیمار ہوں تو یہ بات سامنے آتی ہی ہے۔ اب پارٹی کے پارلیمانی رہنما عمر ایوب کہتے ہیں کہ شیرافضل پی اے سی کے چیئرمین ہونگے۔ اس کے جواب میں لطیف کھوسہ کہتے ہیں کہ سنی اتحاد کے رہنما حامد رضا چیئرمین بنیں گے۔ پی ٹی آئی کے رہنما شیر افضل مروت کہتے ہیں اڈیالہ میں قید کپتان کا مکمل حمایت اور اعتماد انہیں حاصل ہے۔ اس لیے پارٹی رہنما فضول باتیں نہ کریں۔ پارٹی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر کہتے ہیں کہ پارٹی کی کسی کی اجارہ داری نہیں ہے اس لیے بیان بازی نہ کریں۔ اب اس نقار خانے میں کسی کی بات بھی سمجھ میں نہیں آ رہی۔ پی ٹی آئی والوں کا کہنا ہے کہ یہ عہدہ اپوزیشن کو ملتا ہے۔ اب اس کھیر کے پیالے پر سب کی نظریں ہیں اور یہ عہدہ حاصل کرنے کے لیے ان کی بے چینی دیدنی ہے۔ مگر بظاہر بے نیازی دکھائی جا رہی جبکہ اندر خانے تو من ہی من میں سب کے لڈو پھوٹ رہے ہیں۔ مگر سب کی پسند اپنی اپنی نصیب اپنا اپنا ہوتا ہے۔ دیکھنا ہے کون یہ عہدہ پاتا ہے۔ حکومتی ارکان کی طرف سے اپوزیشن والوں کی بے قراری دیکھ کر بیان آیا ہے کہ آئین میں ایسی کوئی پابندی نہیں کہ یہ عہدہ اپوزیشن کو ہی دیا جائے۔ اب اسے ہم جلتی پر تیل چھڑکنا کہیں یا کچھ اور سب کی اپنی اپنی مرضی ہے، مگر یہ بیان آسانی سے ہضم نہیں ہو گا جو لوگ آس لگائے بیٹھے ہیں وہ بھلا قانونی موشگافیوں کو کب تسلیم کریں گے۔ اس پر تو اب دونوں طرف سے زور دار گولہ باری سے سیاسی جنگ کا ایک نیا منظرنامہ سامنے آئے گا کیا معلوم بات پھر عدالتوں تک جا پہنچے اور معاملہ طول پکڑے۔ آخر صبر اور برداشت کی بھی حد ہوتی ہے۔ سامنے خوان ہو تو انتظار مشکل ہوتا ہے اور پھر جب چھینا جھپٹی والا ماحول ہو تو مزہ آ ہی جاتا ہے۔
٭٭٭٭٭
عزیز بھٹی شہید ہسپتال گجرات میں سرجیکل وارڈ کی چھت گرنے سے خاتون سمیت3 افراد ہلاک۔
کم از کم ہمیں اپنے شہیدوں کی حرمت کا ہی خیال رکھتے ہوئے ان کے نام پر قائم یادگاروں اور عمارتوں کی تعمیر کرتے وقت پائیداری کا خیال رکھنا چاہیے۔ مگر لگتا ہے ہم وہ لوگ ہیں جو ہر قسم کی لعن طعن اور تادیب سے بے نیاز ہو چکے ہیں۔ اس کے برعکس اگر ہم اپنے اردگرد غور کریں تو سو یا ڈیڑھ سو سال قبل انگریز سامراج نے برصغیر میں جو تعمیراتی کام کئے وہ ابھی تک مستحکم اور پائیدار ہیں۔ ان کے بنا ئےپل، ڈاک بنگلے، ریلوے سٹیشن ، ہسپتال، ڈیم اور دیگر عمارتیں آج بھی قائم ہیں۔ کیا انہوں نے اس دور میں جب یہ جدید تعمیرات کی سہولتیں بھی نہیں تھیں مریخ سے کوئی ٹیکنالوجی لا کر استعمال کی تھی۔ اس کے برعکس ہم نے قیام پاکستان کے بعد جو کچھ بنایا اس کا حال ہمارے سامنے ہے۔ ذرا سی بارش ہوئی پل بہہ گئے سڑکیں مٹ گئیں ڈیم غائب ہو گئے۔ عمارتوں کی چھتیں ٹپکنے لگیں اور درودیوار ڈھے گئے۔ محکمہ تعمیرات یا کسی حکومت نے اس پر ایکشن نہیں لیا۔ اگر لیا ہوتا بہنے والے ڈیموں کے گارے میں ٹوٹے پلوں اور عمارتوں کے ملبے تلے ان کو تعمیر کرنے والے ٹھیکیداروں اور ان کو ٹھیکہ دینے والے کمیشن خور ادارے کے کرتا دھرتا?ں کو زندہ دفنا دیا جاتا تو آج یہ نوبت نہیں آتی مگر ہر جگہ کمیشن مافیا چھایا ہوا ہے یہ وہ بھلا کیا خاک ایکشن لے گا اسی پاکستان میں مغل اور ان سے قبل کے دور کی یادگاریں موجود ہیں بارش طوفان حتیٰ کے زلزلہ بھی ان کو نقصان نہیں پہنچا سکتا اور ہماری تعمیرات دھڑام سے زمین بوس ہو کر ہمارے بے ایمانی کا منہ چڑھا رہی ہوتی ہیں۔ اب شروعات ہو جانی چاہیے۔ عزیز بھٹی شہید ہسپتال کےسرجیکل وارڈ کی تعمیر کرنے والے ٹھیکہ کی منظوری دینے والوں کو اس جگہ زندہ گاڑھ کر نئی عمارت تعمیر کی جائے تاکہ سب کو عبرت کی مثال بنانے کا مطلب اچھی طرح سمجھ میں آ جائے۔
٭٭٭٭٭