فیض عالم
قاضی عبدالرﺅف معی
براد ر اسلامی ملک ایرا کا وفد ملک عزیز کے دورہ پر ہے۔اللہ پاک کا فضل خاص ہے کہ مملکت خدادا پاکستا میں ام و اما کی صورت حال بہتر ہوئی اور مختلف ممالک کے سربراہا کی آمد کا سلسہ جاری ہے۔یہ یک شگو ہے۔قوی امید ہے کہ ملک اب ترقی کی شاہراہ پر رواں دواں ہوگا۔ معاشی حالات بہتر ہوں گے۔ام و اما کی صورت حال میں بہتری سیاحت کے فروغ کا سبب ب ے گی۔اقوام عالم میں پاکستا کا ام گو جے گا۔معزز مہما ا گرامی آج کے د لاہور کے دورہ پر تھے۔ا تظا یہ کی” پھرتیاں “ قابل دید ہیں۔فوری طور پرمقامی چھٹی کا اعلا کیا گیا۔بہت سے لوگوں کوبروقت اطلاع ہ ہوسکی اور وہ در بدراور خجل خوار ہوتے رہے۔یقی ا سیکورٹی خدشات کی وجہ سے یہ سب کچھ کر ا مجبوری تھا۔کاش ایسے حالات ہو جائیں کہ سربراہا مملکت آئیں اور وہ عوام میں گھل مل جائیں، عوام سڑکوں کے دو وں طرف کھڑے ہو کر ا کا استقبال بھی کریں اور وہ عوام سے مخاطب بھی ہوں۔مال روڈ پراستقبالیہ بی روں کی بہار آئی ہوئی ہے۔مضحکہ خیز صورت حال ہے کہ تمام بی روں پر عبارت فارسی اور ا گریزی زبا میں لکھی ہوئی ہے۔ما لیتے ہیں اور حقیقت بھی ہے کہ مہما ا گرامی کی زبا فارسی ہے اس لیے فارسی عبارت تو ا کے لیے ہوگئی لیک بھائی اس راز کو فاش کرو کہ ا گریزی عبارت کس مخلوق کے لیے ہے۔ایک بی ر بھی ایسا ہیں دیکھاجس میں استقبالیہ جملے اردو زبا میں لکھے ہوں۔ا گریزی زبا بھی ات ی ثقیل اور مشکل کہ میرے جیسے وکیل کو” محترم گوگل صاحب “کی مدد لی ی پڑی۔حاکما وقت سے درخواست ہے کہ اس اشتہاری مہم کو ڈیزاء کر ے والے تمام بزرجمہروں کو اعلیٰ سول اعزازت سے وازا جائے۔افسوس صد افسوس یہ حضرات کسی ہ کسی طرح اعلیٰ عہدوں تک تو پہ چ گئے لیک عقل سلیم سے محرومی کی وجہ سے زمی ی حقائق سے اواقف ہیں یا جا بوجھ کر یہ سب کچھ کرتے ہیں۔زمی ی حقائق یہ ہیں کہ ملک عزیز کی کثیر آبادی پڑھ ے لکھ ے سے ابھی کوسوں دور ہے۔ ا گریزی زبا پڑھ ے ،لکھ ے اور سمجھ ے والے قلیل تعداد میں ہیں اور جو ا گریزی کے دعویدار ہیں وہ بھی ڈکش ری کی بیساکھی کے محتاج ہیں۔ دوسری حقیقت یہ ہے کہ آئی پاکستا کے مطابق پاکستا کی سرکاری زبا اردو ہے۔ذرا سوچیں کہ معزز مہما ا گرامی یہ سب کچھ دیکھ کر کیاکہتے ہوں گے۔ راقم السطور کو کئی ممالک میں جا ے کا اتفاق ہواکہیں بھی ا گریزی زبا کی زلفوں کے ایسے اسیر ہیں دیکھے۔ہر باوقار قوم اپ ی قومی زبا اورقومی لباس کو ترجیح دیتی ہے۔یہ واحد قوم ہے جو ابھی تک ذہ ی غلام ہے۔بدیسی لباس ، بدیسی کلچر، بدیسی لٹریچر اور بدیسی زبا سے مرعوب ظر آتی ہے۔اپ ے ہی ماحول میں اپ ے ہی لوگوں کے ساتھ بدیسی زباں میں بات کر اذہ ی غلامی کی ا تہا ہیں تو اور کیا ہے۔غالبا ایسی صورت حال کے لیے ہی شاعر ے کہا ہوگا کہ
حیرا ہوں کہ دل کو روﺅں کہ پیٹوں جگر کو میں
مقدور ہو تو ساتھ رکھوں وحہ گر کو میں
عرصہ ہو ایک مغربی مفکر کی کتاب کے مطالعہ کے دورا ایک جملہ پڑھا جو آج بھی ذہ میں گو ج رہا ہے۔اس ے لکھا کہ کہ ہم برصغیر سے جا تو رہے ہیں لیک ایک ذہ ی طور پرایک غلام سل چھوڑ کر جا رہے ہیں۔یہ ذہ ی غلام سل مسلسل اس قوم پر مسلط ہے۔ جب ہم دائیں بائیں دیکھتے ہیں تو ہر طرف مسٹر براﺅ ظر آتے ہیں۔سرکاری دفاتر ، محکمے ، جی اداروں، تعلیمی اداروں میں براﺅ ،کالے اور کاٹھے ا گریز عوام کو خجل خوار، ذلیل و رسوا کر رہے ہیں۔قومی زبا اور قومی لباس کی توہی کی جا رہی ہے۔ تیجہ یہ ہے کہ اس قوم کی ملکی اور غیر ملکی سطح پر ش اخت ختم ہو چکی ہے۔اب یہ قوم ہ چیل ہے ہ مرغ۔کوا چلا ہ س کی چال اپ ی بھی بھول گیا۔بد قسمتی یہ ہے کہ ا گریزی زبا کو ترقی اور کامیابی کی علامت سمجھ لیا گیاہے۔یہ تاثر بالکل غلط ہے اور مب ی بر جہالت ہے۔ د یا کے بڑے بڑے ترقی یا فتہ ممالک کی زبا ا گریزی ہیں اس کے باوجود وہ ممالک ترقی کی م ازل طے کر رہے ہیں۔چی میں چی ی زبا ،جاپا میں جاپا ی زبا سے ہی ترقی ہو رہی ہے۔ برصغیر میں ا گریزوں کی آمد سے پہلے یہاں ا گریزی زبا ہیں تھی تو کیا یہاں پر کاروبار حیات ہیں تھا۔ مسلما ے ایک ہزار سال د یا پر راج کیا اور علوم و ف و کے میدا وں میں جوجھ ڈے گاڑے کیا وہ ا گریزی زبا کی وجہ سے تھا۔ تی براعظموں میں کئی صدیوں تک خلافت عثما یہ کا قیام اور وجود کیا ا گریزی زباں کا مرہو م ت تھا۔مختلف زبا وں می مہارت حاصل کر ا قابل اعتراض ہیںلیک کسی دوسری زبا سے ات ی زیادہ مرعوبیت اور قومی زبا کی توہی یقی ا قابل اعتراض ہے۔روا ی سے ا گریزی بول ا ایک صلاحیت ضرور ہے لیک اس کا ہر گز یہ مطلب ہیں کہ ہ بول ے والا الائق ہے۔ اردو پیاری اور میٹھی زبا ہے اس کو لکھتے ، پڑھتے اور بولتے وقت احساس کمتری کا شکار ہ ہوں۔اس کو فروغ دیں کیو کہ یہ ہماری پہچا ہے، ش اخت ہے،قومی زبا ہے اور مادری زبا بھی ہے۔جسما ی غلامی کی ز جیریں تو ہم ے پو صدی پہلے توڑ دیں تھیں وقت ہو اچاہتا ہے کہ اب ذہ ی غلامی سے بھی جات کے اسباب ہوں۔اس کے بغیر ملک عزیز کی ترقی ایک خواب کے سوا کچھ ہیں۔ کیو کہن
غلامی کیا ہے ؟ ذوق حس و زیبائی سے محرومی
جسے زیبا کہیں آزاد ب دے ہے وہی زیبا
بھروسا کر ہیں سکتے غلاموں کی بصیرت پر
کہ د یا میں فقط مردا حر کی آ کھ ہے بی ا