تم گالی دو، ہم تو دوستی کرینگے

امیر محمد خان 

جب جب ہندوستان میں انتخابات آتے ہیں ہندو قیادت ووٹ حاصل کرنے کیلئے پاکستان اور ہندوستان میں رہائش پذیر مسلمانوں کو نشانہ بناتی ہے ، انتہاء پسند ہندوﺅں کے ووٹ حاصل کرنے کیلئے انکے ذہنوں میں پاکستان اور مسلمانوں کے خلاف نفرت میں اضافہ کرتا ہے ، حالیہ انتخابات میں تومودی نے تمام حدود پار کردی ہیں ، وہ ہندوستان کے مسلمانوں کو ”گھس بیٹھیا “ (زبردستی گھر میں گھسنے والے) کہہ رہا ہے ، پاکستان کو ایک دیوالیہ ملک ، آٹے کو ترسنے والا ملک قرار دے رہا ہے ، ”اکھنڈبھارت “ کا نعرہ لگا رہا ہے ، اکھنڈ بھارت کے نعرہ کی تشہیر کررہا ہے جس میں صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ سری لنکاءافغانستان ،برما ، بنگلہ دیش وغیرہ کو شامل کربیٹھا ہے جو سراسر بین الا قوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ جب میں انسانی حقوق کے معاملے پر بین الا قوامی قوانین کا ذکر کرتا ہوں تو اپنے آپ کو دنیا کا بے وقوف ترین شخص تصور کرتا ہوں چونکہ کونسا بین الا قوامی قانون؟؟؟؟ جو صرف مسلمانوں کو تباہ کرنے کیلئے سرگرم ہوتا ہے، مسلمانوں پر آنے والی آفات پر اندھا ، اور بہرہ ہوجاتا ہے۔انتخابات میں ہندوستانی کو موجودہ قیادت جو شائد دوبارہ حکومت میں آجائے مگر انکے ذہنوں کا اندازہ ، انکے بیانات کا نوٹس لینے کی اشد ضرورت ہے ،اگر دوستوں کی کار فرمائی پر اپنے معاملات ہندوستان سے ٹھیک بھی کرلیں،بھارتی ہندو بے ایمانی کی حد تک مکر و فریب سے بھرپور ہے علاقے میں امن کی خاطر پاکستان ہمیشہ اس پر پہل کرنے کو تیار ہے مگر بھارت اپنی روش پر قائم ہے اسے کون روکے گا ؟؟ مودی اور بھارتی ہندو قیادت کی ہرزہ سرائی پر ہماری ہماری وزار ت خارجہ کیوں گونگی، بہری ہے ؟؟؟
بھارتی وزیر اعظم نے عربوں کو للکارہ ہے انہیں ساتھ ملا لے اور عالمی اداروں کے دروازے پر بیٹھ جائے مگر ہمارا مسئلہ ہے اگر مودی کی طرح پاکستان کسی موقع پر بھارت سرکار کی طرح ہرزہ سرائی کررہا ہوتا ہے تو یہ نام نہاد امن اور اظہار رائے کے علمبردار پاکستان پر بے شمار پابندیاں لگا چکے ہوتے ہمارا مسئلہ سنگین ہے ہم سے ایک قرض ملنے کی اقساط مکمل نہیں ہوتیں ہم دوسرے قرض کیلئے درخواست بنا چکے ہوتے ہیں آئندہ کے قرضے پر بات چیت شروع کرنے کے خواہش مند ہوجاتے ہیں یہ حقیقت ہے کہ اور قرض دینے والے کا حق ہے کہ وہ اپنے احکامات بھی صادر کرے اور یہی پاکستان کے ساتھ ہورہا ہے ، معیشت درست کرنے کے خواہش مند ہیں مگر قرض پر ہی معیشت کا دارومدار ہوگا تو شرائط تو ہونگیں یہ ہی پاکستان کے ساتھ ہورہا ہے حکومت ہاتھ باندھے کام کررہی ہے یہ سلسلہ جب تک چلے گا جب تک اربوں روپیہ ٹیکس کا ہڑپ کرنے والے ٹیکس نہیں دینگے ، ٹیکس کی عدم موجودگی میں مہنگائی کا بوجھ عوام پر ہی ہوگا۔ ہمارا یہ عالم ہے کہ ’ہائے اللہ ہم تو کچھ کہہ بھی نہیں سکتے “ہمارے اندرونی مسائل ہم حل کرنا نہیں چاہتے ایسا لگتا ہے عدالتیں اظہار آزادی ، اظہار خیال کے ان نعروں کی وجہ سے جوہمارے لئے اور ہماری سرحدوں کیلئے نقصان دہ ہوچکے ہیں اور سنگین مقدمات میں ملوث افراد کو بھی سزا نہیں بلکہ جزاءمل رہی ہے سنگین معروف جرائم پیشہ افراد بھی اسمبلیوں میں بیٹھ جاتے ہیں اور اپنے مسائل و بیرونی ایجنڈے کے تحت اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔ مودی کی زہریلی سوچ پر ہم خاموش ہیں بھارت کی حزب اختلاف چاہے مودی سے سیاسی مخالفت کی بناء پر ہی سہی مگر آواز اٹھار ہی ہے بھارت کی سب سے بڑی اپوزیشن جماعت کانگریس نے پیر کو الیکشن کمیشن میں شکایت درج کرائی ہے جس میں ہندو قوم پرست وزیر اعظم نریندر مودی پر انتخابی مہم میں اقلیتی مسلمانوں کو ''شدید طور پر نشانہ'' بنانے کا الزام لگایا گیا ہے۔مجھے یاد ہے چند سال قبل جدہ میں حریت کانفرنس کے اسوقت کے سربراہ میر واعظ نے ایک ملاقات میں انکشاف کیا تھا بھارت علاقے کا ”غنڈہ بننا چاہتاہے “ اور عالمی غنڈے اپنی برانچ بھارت کی شکل میں پیدا کررہے ہیں بھارت اسوقت اسی سوچ اور ایجنڈے پر گامزن ہے ، ہمار ا کم از کم یہ فرض تو ہے اور ہم کرسکتے ہیں کہ پاکستانی میڈیاکوپابند کریں کہ اپنے فروعی قسم کے ٹاک شو ز میں دوست ملک کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے کے بجائے بھارت کی سوچ سے کم از کم پاکستان کے عوام کوہی آگاہ کریں۔ مگر کیا کیاجائے موجودہ پاکستانی حکومت میں وزارت اطلاعات نہ جانے کہاں مصروف ہے وہاں مسلم لیگ ن کی حکومت کے اندرونی خلفشار میڈیا کے حوالے سے دست و گریبان لگتی ہے ، معروف صحافی مسلم لیگ ن کے عرفان صدیقی نے حکومتی ترجمان ( جو وزیر اطلاعات ہوتاہے ) کی کارکردگی کو ناقص قرار دیا ہے۔ وزارت اطلاعات نے محب وطن افسران کو نہ جانے کیوں کھڈے لائن لگا رکھا ہے نہ جانے کیا پالیسی ہے ؟ آئی ایم ایف سے جب ہمیں قرضہ ملتاہے تو اسکی پشت پر امریکہ ہوتاہے اور قرض دیکر وہ پاکستان کے ہاتھ پیر باندھتا ہے امریکہ جس نے چالیس ہزار سے زائد نہتے فلسطینی بچوں، عورتوں، جوانوں اور بوڑھوں کے خون سے ہاتھ رنگنے میں اسرائیل کی تباہ کن ہتھیاروں، جنگی جہازوں اور ڈالروں کی بارش کے علاوہ اقوام متحدہ میں ویٹو کے بے محابا استعمال سے عملی مدد کرنے کے بعد دنیا کے خودساختہ خدائی فوجدار امریکہ نے پاکستان پر وار کیا ہے اور اس کے بیلسٹک میزائل پروگرام کیلئے سامان فراہم کرنے کے الزامات میں چین کی تین اور بیلا روس کی ایک کمپنی پر پابندیاں عائد کر دی ہیں۔ پاکستان نے ایکسپورٹ کنٹرول پالیسی کے اس سیاسی استعمال کو مسترد کر دیا ہے اور کہا ہے کہ ایسی پابندیاں ماضی میں بھی بغیر کسی ثبوت کے لگائی جاتی رہی ہیں جبکہ خود پابندیاں لگانے والے کئی پسندیدہ ممالک کو بڑی ٹیکنالوجی کی فراہمی میں استثنا دیتے رہے ہیں۔ دفتر خارجہ کی ترجمان نے اس دوغلے پن کو آشکار کرتے ہوئے ایک پریس بریفنگ میں کہا ہے کہ سماجی و اقتصادی ترقی کے حصول کیلئے ٹیکنالوجی تک رسائی کو یقینی بنانے کیلئے ایک معروضی میکانزم کی غرض سے متعلقہ فریقوں کے مابین تبادلہ خیال ضروری ہے۔ امریکی بیان کے مطابق بیلاروس کے ٹریکٹر پلانٹ پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ وہ پاکستانی میزائل پروگرام کیلئے ٹرکوں کے چیسز فراہم کرتا ہے اور یہ چیسز ان ٹرکوں میں استعمال ہوتے ہیں جنہیں بیلسٹک میزائل پروگرام کے سپورٹ سسٹم میں استعمال کیا جاتا ہے۔ ایک اور کمپنی کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ وہ فلامنٹ کی وائنڈنگ مشین دیتی ہے جو راکٹ موٹر میں استعمال ہو سکتی ہے۔ پاکستان کے دفتر خارجہ کی ترجمان کا کہنا ہے کہ پاکستان ہمیشہ ویری فکیشن میکانزم پر بات چیت کیلئے تیار رہتا ہے تاکہ ایکسپورٹ کنٹرول کے امتیازی اطلاق سے جائز کمرشل صارفین کو نقصان نہ پہنچے۔ یہاں تک کہ ان میں شامل اشیا کنٹرول لسٹ میں شامل بھی نہیں تھیں۔ ہم نے کئی بار نشاندہی کی کہ اشیا قانونی اور تجارتی استعمال کیلئے ہیں جن پر برآمدی کنٹرول کا اطلاق نہیں ہوتا۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ جوہری عدم پھیلا? پر سخت کنٹرول کا دعویٰ کرنے والوں نے بعض ممالک کیلئے جدید فوجی ٹیکنالوجی کیلئے لائسنسنگ کی شرط ختم کر دی ہے۔ اس کی وجہ سے علاقائی عدم مساوات میں اضافہ کے ساتھ جوہری عدم پھیلا? اور علاقائی امن و سلامتی کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔ ہماری معیشت اسی طرح کمزور اور قرضوںپررہی تو کل امریکہ کھانا کھانے پابندی لگا دیگا کہ یہ سائینس دان یاانجینئرکھانا کھاکر ایٹمی یا میزائل ٹکنالوجی پر کام کرے گا۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...