آواز خلق
فاطمہ ردا غوری
محترم اظہا ر الحق صاحب سے باضابطہ ملاقات کا شرف تو حاصل نہیں لیکن ان کی تحریروں سے مضبوط تعلق کے سبب غائبانہ تعارف ایک عرصہ پرمحیط ہے گذشتہ دنوں ان کی کتاب " ٹِکلوکے کارنامے " کے مطالعہ کا شرف حاصل ہوا تو ایک لمحہ کو چونک سے گئے کہ آخر یہ ٹکلو کے کارنامے کس نہج پر پہنچنے والے ہیں یہ تو خدا کا شکر ہے کہ اردو زبان پر تھوڑی بہت گرفت حاصل ہے جس کے سبب آنکھ نے فورا ٹکلو کے نیچے موجود ”زیر “کو بھانپ لیا اور معلوم ہوا کہ یہ ٹکلو کے کارنامے بچوں کی دلچسپی کے حامل ایک معلومات افزاءمزیدار کتاب ہے اور” زیر“ سے ہٹ کر” زَبر“ کے حامل”ٹَکلو“ کے وہ کارنامے ہر گز نہیں جو ہم خدانخواستہ پہلی نظر میں سمجھ بیٹھے تھے
خیر اس کتاب کو دیکھ کر یک گونہ مسرت ہوئی کہ ہم جو چند سال قبل ہی اللہ کے کرم سے ماں کے درجہ پر فائز ہوئے ہیں آج کل اسی کشمکش میں مبتلا تھے کہ بچوں کو آخر کس طرح مطالعہ کی طرف راغب کیا جائے تذبذب کا شکار تھے کہ بچوں کے لئے کیا وہ معیاری نونہال ادب میسر ہے؟ جو ان کی تربیت کے راستے میں رکاوٹ کے خوف سے بالا تر ہو کر ان کو تھمایا جا سکے بھلا ہو اظہار الحق صاحب کا کہ انہوں نے ہماری اور اس ملٹی میڈیا دور میں ہم جیسی کئی ماﺅں کی کم از کم یہ پریشانی تو کم کر دی
اظہار الحق صاحب کو اللہ تعالی نے قلم کی جس طاقت سے نوازا ہے بلا شبہ ودیعت خداوندی ہی ہے ان کی ہر قسم کے حالات کی بہترین عکاسی تجزیہ نگاری پرگرفت اور اس سب کچھ سے مبرا ہو کر لکھی گئیںروح پرور تحریریں اس بات کی غماز ہےں کہ اگر وہ چاہتے تو خود کو فلسفہ دان بھی کہلوا سکتے تھے سیاسی مباحث کا بہترین حصہ بن کر " ٹوہرٹپہ " بھی دکھا سکتے تھے اپنے اس ناول کے کردار ٹکلو کی مانند کسی پرندے کو کندھے پر بٹھا کر سیاست میں دور کی کوڑیاں بھی لا سکتے تھے لیکن انہوں نے ہمیشہ اپنے قلم کو مثبت طریقے سے استعمال کیانوجوانوں اور بوڑھوں کے من پسند لکھاری تو وہ ہیں ہی لیکن بچوں کے لئے یہ ناول تحریر کرنے کے بعد وہ یقینا بچوں کی دنیا میں بھی چھا چکے ہونگے جو کہ ایک خوش آئند امر ہے!
بچوں کے لئے لکھنا ان کے ذہنوں میں ابھرتے " ون سونے" پیچیدہ سوالات کو تسکین پہنچانا ان کے لئے لکھی گئی تحریر میں الفاظ کا چناﺅ بلا شبہ ایک مشکل امر ہے جس میں اظہار الحق صاحب کامیاب و کامران ٹھہرے ہیں
ہم بھی بچپن میں عمروعیار اور اس کی زنبیل افراسیاب اور سامری جادوگر ¾ کوہ قاف کی پریاں مظہر کلیم کی عمران سیریز ) جاسوسی کہانیاں (اور بالخصوص ایم شریف کی بچوں کے لئے لکھی گئیںسبق آموز کہانیاں اللہ دیکھ رہا ہے ¾ نیکی کا صلہ اور کئی دیگر پڑھا کرتے تھے تو کچھ وقت کے لئے کھو سے جاتے تھے اور اپنے آپکو اسی دنیا میں محسوس کرنے لگتے تھے اس وقت بچوں کے لئے ہفت روزہ اور ماہنامہ رسائل
تعلیم و تربیت ،بچوں کی دنیا، بزم پیغام اور نونہال بھی شائع ہوا کرتے تھے جن میں ہمارے جیسے کئی بچے اپنی تحریر کردہ کہانیاں اور تصاویر کے لئے مخصوص صفحات پر چھپنے کے لئے اپنی تصویریں بھی بھیجا کرتے تھے جس کے بعد پورا مہینہ اشاعت کے انتظار میں بھی ایک الگ لذت ہوا کرتی تھی ۔
یاد آ رہا ہے کہ ہماری والدہ محترمہ ہمیں بچپن میں شاہ بہرام کی کہانی اور ایک پنجابی کہانی " پنج پھلاں رانی " سنایا کرتی تھیں جسے سنتے سنتے ہم سب بہن بھائی بناءکسی موبائل فون، ٹک ٹاک کے سکون کی نیند سو جایا کرتے تھے آج بھی جب کبھی دل اداس ہو تو جی چاہتا ہے کہ وہی کہانیاں پھر سے سنیں اور جب امی سے کہوں کہ آپ سے کہانی سننے کا دل کر رہا ہے تو وہ مسکراتے ہوئے اپنے مخصوص انداز میں کہتی ہیں " رد
روﺅ ہن او گلاں کتھے رہیا ںنیں ہن اپنے بچیاں نوں سنا"
یاد آ رہا ہے کہ سکول کے زمانے میں علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کی نظم” ماں کی دعا“ کئی مرتبہ پروگراموں میں اسٹیج پر خوب گرمجوشی سے سنائی اور یہ نظم سناتے ہوئے ہمارے اساتذہ چند طلبہ کو ہاتھوں میں موم بتیاں تھما کر ایک قطار میں ہمارے پیچھے کھڑا کر دیا کر تے تھے جس سے ایک خوبصورت سماں باندھ جایا کرتا تھا اور یوں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے اس کارکردگی کے دوران ہم نے کائنات کا سارا سکون سمیٹ لیا ہو!
قومی شاعر علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے بچوں کے لئے اپنی شاعری کی صورت میں جو خزانہ بخشا ہے وہ تو کسی تعارف کا محتاج ہی نہیں۔۔۔
ہمارے زمانے میںنظمیں بلبل کا بچہ ¾ ابو لائے موٹر کار ¾ ٹوٹ بٹوٹ ¾ ایک تھا تتر ایک بٹیر ¾ بندر اور بندریا کی لڑائی ¾ گھر آئے مہمانوں کو سنانے کے لئے " ہٹ" نظمیں سمجھی جاتی تھیں چچا چھکن کی کہانیوں کا بھی اپنا ہی مزہ تھا جس دن نہ پڑھتے یوں محسوس ہوتا جیسے کوئی چیز کھو گئی ہو !
بچپن میں مجھے یاد ہے کہ جب ہم کسی سفر سے واپس آتے تو ابو جی کی طرف سے حکم ملتا کہ اس سفر کی روداد لکھ کر ان کے کمرے میں بجھوا دی جائے سفر کی تھکاوٹ کے پیش نظر کبھی کبھی لاکھ حیلے بہانے سے کام لینے کی کوشش کرتے کہ ہم حرف بہ حرف پاس بیٹھ کر سنا دیتے ہیں لیکن وہ لکھ کر لانے پر ہی مضر رہتے اب محسوس ہوتا ہے کہ اس وقت ان کا زبردستی لکھوانا ہماری ٹریننگ کا ایک حصہ تھا جس ٹریننگ سے ہم آج تک فائدہ اٹھا رہے ہیں کہ اب جب تک لکھ نہیں لیتے تب تک روح تسکین ہی نہیں پاتی
محترم اظہار الحق صاحب نے اس ناول میں جو کردار ٹکلو تخلیق کیا ہے وہ نہایت خوبصورت اور دلچسپ کردار ہے یہ ایک پرندہ ہے جس کی چونچ چاندی کی طرح سفید ہے ،دم سرخ ہے ،پر سیاہ ریشم کی مانند ہیں جب کہ پنجے پیتل کے ہیں یہ ہوا سے بھی زیادہ تیز اڑنے کی صلاحیت رکھتا ہے اسے اپنے وطن سے بہت پیار ہے اور اپنے وطن سے محبت میں یہ آرام دہ زندگی اور کئی آسائشوں کو بھی ٹھکرانے سے گریز نہیں کرتا ٹکلو کی شخصیت نگاری پڑھ کر مجھے جدید فارسی شاعری کے بانی نیما یوشیج کی ایک نظم” ققنوس“ یاد آ گئی ققنوس دیومالائی قصے کہانیوں کا ایک خوبصورت پرندہ ہوا کرتا تھا یہ اپنی قسم کا ایک ایسا خاص پرندہ تھا جو پانچ سو یا چھ سو سال تک زندہ رہنے کے بعد اپنے آپکو جلا کر خاک کر دیا کرتا تھا اور جب اس کی راکھ پر بارش برستی تھی تو اسی راکھ سے ایک نیا انڈہ بنتا تھا جس میں سے ایک نیا ققنوس جنم لیتا تھا اس پرندے کی چونچ میں تین سو ساٹھ سوراخ ہوتے ہیں اور اردو زبان میں اس پرندے کے لئے عنقا کا لفظاستعمال کیا جاتا ہے
اظہار الحق صاحب نے اپنے اس ناول میںخوبصورت ،دلچسپ،محب وطن دیومالائی پرندہ تو تخلیق کیا ہی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ بچوں کے لئے بیش بہا ءمعلومات اور مقصدیت کا پہلو بھی اجاگر کیا ہے اس ناول میں بہت سے ملکوں شہروں اور مقامات سے متعلق معلومات موجود ہیں پڑھنے والے بچوں کو
حب الوطنی کی اہمیت سے بھی آگاہ کیا گیا ہے اور وطن کی مٹی سے انسیت کا اظہار بھی جا بہ جا دکھائی دیتا ہے اسی محبت کا اظہار " اظہار الحق صاحب" اپنے ایک شعر میں بہت پہلے کر چکے ہیں
اولاد میری ساتھ سمندر کے اس طرف
اجداد میرے خاک کے نیچے پڑے ہوئے
یہ کتاب محض ایک ناول نہیں ایک ایسا خزانہ ہے جو آج کے دور کے ملٹی میڈیا بچوں کو روشنی کی ایک کرن کی صورت تحفتا بخشا گیا ہے جو انہیں مطالعے کی جانب راغب کرنے کے لئے مستحسن قدم ہے بذات خود اظہار صاحب نے اس ناول کے لئے نہایت خوبصورت جملہ کہا ہے کہ دس سال سے لیکر اسی سال کے بچے ٹکلو کے کارنامے کی صورت ان کے اس کارنامے سے لطف اندوز ہو سکیں گے مرحلہ خوشی ہے کہ نونہال ادب کی دنیا میں یہ خوبصورت اضافہ رنگ برنگی روشنیاں پھیلانے میں کامیاب ہونے والا ہے اور دنیائے نونہال ادب میں جو اندھیرا چھانے کو تھا وہ یقینا اب چھٹنے کو ہے
آخر میں ایک گذارش کر کے اجازت چاہوں گی کہ جس طرح کئی سال پہلے محترم اے حمید کے لکھے گئے کردار عینک والا جن کو بچوں کے ڈرامے کی صورت مقبولیت حاصل ہوئی جس مقبولیت کو آج تک محترم حسیب پاشا صاحب ہامون جادوگر کا کردار آئے دن الحمراءہال میں نبھا کر قائم رکھے ہوئے ہیں اسی طرح جو خوبصورت کہانی محترم اظہار الحق صاحب نے تحریر کی ہے اسے مین اسٹریم لائن میڈیا کے توسط سے آج کل کی ماڈرن زبان میں " انیمیٹڈ مووی " کی شکل دیدی جائے تو یہ کہانی نہ صرف پاکستان میں بلکہ دنیا بھر کے بچوں کے لئے بلا شبہ دلچسپی کی حامل رہے گی اور اینیمیٹڈ مووی کی صورت یہ اچھوتی کہانی بلاشبہ ہر اوڑھ سے پذیرائی حاصل کر پائے گی جسکی یہ حقدار بھی ہے ) وما علینا الاالبلاغ(