سید احسان احمد گیلانی
معاشرتی اصلاح اور فکری تربیت کے لیے صوفیاء کرام اور علماء حق نے ہمیشہ ہی اپنی بہترین صلاحیتوں کو صرف کیا ہے اور اس خدمت عظیم کے لیے اْنہوں نے اپنی دنیاوی حیثیت کو پس پشت ڈالا اور اعلیٰ مقاصد کے حصول کے لیے سرد و گرم حالات کی پروا نہ کی۔ ان صالحین نے پوری دیانت اور اخلاق سے دینی پیغام اورتربیت کے نظام کو اگلی نسلوں تک منتقل کیا۔ روایتی معاشرت میں نہایت ہی حکیمانہ انداز سے دینی اقدار کو متعارف کروانے والے یہ پاکبازان ِ اْمت عوام و خواص کے لیے داعی بن کر اصلاح معاشرہ اور دعوت دین کا فریضہ سر انجام دیتے رہے۔ حکومت اور سلطنت تو اپنے محدودمفادات ہی رکھتی ہے لیکن دین داروں کے اخلاص نیت کے بغیر کوئی بھی معاشرہ حقیقی اسلامی معاشرہ نہیں بن سکتا۔ برصغیر پاک ہند میںعلماء حق اور صوفیا ِ کرام نے سادہ لوح عوام میں دین کی محبت اتارنے کے لیے مسلسل اور بے لوث جدو جہد کی ہے۔ قیام پاکستان کی جدو جہد میں ان کی بے پایاں خدمات رہی ہیںجس کا بنیادی تقاضہ یہ تھا کہ ہر دور میں قوت عشق یعنی محبت رسولؐ اور نظامِ مصطفی کا چرچا ہو ۔ نظامِ مصطفی اور مقامِ مصطفی کی تحریک کے ایک ان تھک مجاہد اور بے لوث کارکْن پیکر اخلاص و محبت حضرت علامہ پیر سید طالب حسین شاہ گردیزی کی ان خدمات کا ایک عالم گواہ ہے۔انہوں نے اپنے عنفوانِ شباب سے لیکر عالم پیری تک اپنا کل سرمایہ حیات دینِ مصطفی کی سر بلندی کیلئے صرف کیا۔ اسلام کا یہ عظیم مبلغ فخر السادات پیر سید محمد اکرم شاہ کے گھر ساگرہ تحصیل منڈھیر ضلع پونچھ (کشمیر )میں مارچ 1938کوپیدا ہوا ۔آپ کا خاندان علمی اور روحانی تھا۔ نسباً آپ کا تعلق شمس العارفین سید یوسف شاہ گردیزی جو کہ افغانستان کے صوبہ گردیز سے ملتان تشریف لائے تھے سے ہے جس کی بنا پر آپ کو گردیزی لکھا جاتا ہے۔اسطرح آپ کا سلسلہ نسب حضرت امام جعفر صادق بن حضرت امام محمد باقر بن امام زین العابدین بن حضرت امام حسین ؓ سے ملتا ہے۔ پیر سید طالب حسین گردیزی اپنے والد گرامی اور اپنے خاندان کے دیگر بزرگوں کے ساتھ ہندو پاک کی تقسیم کے وقت کشمیر سے ہجرت کر کے پاکستان آگئے اور شروع میں چک جمال ضلع جہلم اور پھر سید کسراں تحصیل گجر خان قیام پذیر رہے۔
حصول علم کی تڑپ نے آپ کو چین سے نہ بیٹھنے دیا۔ آپ جامعہ محمدیہ رضویہ بھکھی شریف (منڈی بہاؤالدین) کا رخ کیا اور یہاں حضرت حافظ الحدیث استاذالعلماء شیخ طریقت حضرت پیر سید جلال الدین شاہ مشہدی موسوی کے سامنے زانوائے تلمذ طے کیے اور پھر لاہور میں شیخ المحدثین عالم ربانی استاذ المحدثین حضرت سید ابو البرکات سے جون 1957میں دورِ حدیث مکمل کیا اور سند فراغت حاصل کی۔روحانی تسکین کے لیے کیلیانوالا شریف میں آفتاب ولایت حضرت پیر سید نور الحسن شاہ بخاری کے ہاتھوں پر بیعت ہو کر خلافت حاصل کی۔ تحریک ناموسِ رسالت کے مسئلے میں آپ کا کردار نمایاں نظر آتا ہے۔ تحریک ختم نبوت میں قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کی آپ کا شمار قائد ملت اسلامیہ علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا ہے عمر بھر مذہبی اعتبار سے مرکزی جماعت اہلسنت اور سیاسی اعتبار سے جمیعت علماء پاکستان سے وابستہ رہے۔
آپ نے مبلغ اسلام ہونے کی حیثیت سے برطانیہ ،مصر ، سعودی عرب ، ہالینڈاور دیگر کئی ممالک کے تبلیغی دورے کیے آپ کی طبیعت میں سادگی اور ملنساری حد درجہ پائی جاتی۔ اپنے مسلک کے تمام علماء سے عقیدت اور محبت کرتے تھے۔ آپ ایک بلند پایہ خطیب اور عالم دین تھے وعظ وتبلیغ میں محبت رسول و آلِ رسول کا درس نمائیاں نظر آتا اور اسی کو سرمایہ حیات قرار دیتے تھے۔ 1984سے لیکر 2008تک مسلسل حرمین شریفین حاضری دیتے رہے۔ دینی و تعلیمی خدمات سر انجام دینے میں بھی کسی سے پیچھے نہ رہے اس مقصد کے لیے آپ نے بچے اور بچیوں کے لیے کئی دینی ادارے قائم کیے جن میں جامعہ برکات العلوم، جامعہ فاطمیہ للبنات ، جامعہ فاطمیہ تعلیم القرآن اور برطانیہ میں فروغ اسلام سوسائٹی اور مسجد حیات النبی کی تعمیر آپ کی دین سے محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ّپ نے تاحیات ان اداروں کی سرپرستی فرماتے ہوئے رشد و ہدایت کا پیغام اجاگر کیا ۔ تحریر کے میدان میں بھی آپ پیچھے نہ رہے۔آپ نے متعدد کتابیں تصنیف کیں جن میں نکاح ، زولیخا ، ننگے سر نماز، پیاری نماز، رہنمائے سلوک اور انگریزی زبان میں ترجمہ گفٹ آف معراج شریف شامل ہے۔ دین اسلام کا یہ عظیم مبلغ حق کی دعوت دیتے دیتے 2009 میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔ آپ کے چھوڑے ہوئے دینی و علمی ورثے کو آپ کے جانشین مجاہد اہل سنت عالمی مبلغ امیر پنجاب مرکزی جماعت اہل سنت پیر سیدارشد حسین گردیزی نے نا صرف سنبھال رکھا ہے بلکہ دورِ جدید کے مطابق ان میں اور وسعت پیدا کر دی ہے۔دینی و عصری تعلیم کے ساتھ جدید کمپیوٹر لیب اور وسیع لائبریری ان کی صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے جہاں ان تعلیمی اداروں میں بچے اور بچیوں کی کثیر تعداد دینی تعلیم سے بہرور ہو رہی ہے ۔