دو تین روز سے سابق آرمی چیف قمر باجوہ کی طرف سے بے تحاشا اٹھائی گئی قسموں کا بہت چرچا ہے۔ انہوں نے قرآن مجید اٹھا کر قسم کھائی کہ عمران کیخلاف تحریک عدم اعتماد میں ان کا کوئی ہاتھ نہیں تھا۔
خیر، تحریک عدم اعتماد تو اپوزیشن نے اپنے بل بوتے پر پیش کی اور کامیاب کرائی لیکن یہ تب ہوا جب باجوہ صاحب نے ’’غیر سیاسی‘‘ ہونے اور عمران کے سر سے پدرانہ شفقت والا ہاتھ اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ اس ماجرے میں مزے کی بات یہ ہے کہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی میں ان ارکان کا کردار صفر فیصد تھا جو مولانا طارق جمیل کے بقول اربوں روپے دے کر خریدے گئے تھے۔ اس لئے کہ اس دوران عمران خان کی عدالت سے یہ فیصلہ صادر ہو چکا تھا کہ جو بھی پی ٹی آئی رکن تحریک عدم اعتماد کے دن میں ووٹ دے گا تو نہ صرف یہ کہ اس کا ووٹ گنا ہی نہیں جائے گا بلکہ اس کی سیٹ بھی ختم کر دی جائے گی۔ معاف کیجئے گا، اوپر غلطی سے لکھ دیا کہ عمران خان کی عدالت نے یہ فیصلہ سنایا۔ دراصل یہ فیصلہ عمر عطا بندیال کی عدالت نے سنایا تھا۔ چنانچہ ’’اربوں روپے میں خریدے گئے‘‘ کسی بھی شخص نے ووٹ نہیں دیا۔ تحریک عدم اعتماد ان اتحادی جماعتوں کی وجہ سے کامیاب ہوئی جنہوں نے عمر عطا بندیال کا ساتھ چھوڑ دیا تھا۔ معاف کیجئے، پھر غلطی ہو گئی، بندیال نہیں، عمران خان لکھنا تھا۔
____
جو قسم کھانا زیادہ ضروری تھی، وہ تو باجوہ صاحب نے کھائی ہی نہیں۔ انہیں قسم کھانی چاہیے تھی کہ 2018ء کے انتخابات میں انہوں نے آرٹی سسٹم بٹھانے کا کوئی حکم نہیں دیا تھا۔ یہ قسم انہوں نے نہیں اٹھائی، مطلب یہ حکم دیا تھا۔
اس دو لفظی حکم کا نتیجہ ’’ایٹم بم‘‘ گرانے کے برابر تھا۔ باجوہ صاحب کی ساڑھے تین برس والی ’’ہائبرڈ‘‘حکومت نے معیشت کو ایک صدی پیچھے دھکیل دیا۔ ملک کو اربوں نہیں کھربوں کا نقصان ہوا۔ سماج کی اخلاقیات کا تانا بانا بکھر گیا، بدتہذیبی ، گالم گلوچ، غلیظ ناقابل سماعت، ناقابل اشاعت گفتگو کا نام سیاسی کلچر قرار پایا۔
معاشرے میں انارکی بڑھی، جس کی بندوق، اس کا راج قائم ہو گا۔ انصاف کی قیمت خرید لاکھوں سے اچھل کر کروڑوں تک جا پہنچی۔ بندہ مارو، کھوسہ سے ڈیل کرو اور باعزت بری ہو جائو۔ دوست ممالک خفا ہو گئے، دہشت گردی بڑھ گئی ، لسانی اور نسلی نفرتوں میں شدّت آئی۔
انوکھی نہیں، عبرت والی خود ’’باجوہ‘‘ کی صورت ظاہر ہوئی۔ مثلاً باجوہ نے یہ سب تباہی جس ’’جتّھے‘‘ کیلئے پھیلائی، جس منّے کا ابّا بننے کیلئے ملک کا وجود ہی خطرے میں ڈال دیا، آج وہی جتّھا اور وہی منّا صبح و شام منہ بھر بھر کے باجوہ کو گالیاں دے رہا ہے، سوشل میڈیا الگ بھرا پڑا ہے۔ جتّھے کے جلسوں (دراصل جلسیوں) میں مائیک پر دی جانے والی ملّاحیاں الگ۔
ہاتھ لا استاد، کیوں کیسی رہی۔
____
جتّھے کی طرف سے انہیں غدّار اور میر جعفر کے خطابات ملے سو ملے، جس جماعت کو انہوں نے ’’سمیش‘‘ SMASH کر کے رکھ دیا تھا، وہ ان کی پہلے سے دشمن ہے اور یوں باجوہ وہ پہلے ’’چیف‘‘ بن گئے جو نفرت کا متفق علیہ نشان ہیں۔ گویا ان کی ذات پر ’’قومی اتفاق رائے‘‘ ہو گیا
یہ رتبہ ’’بلند‘‘ ملا جس کو مل گیا۔
وہ قسمیں اٹھا اٹھا کر، پی ٹی آئی کے صحافتی خلیفتہ الرشید اور خان کے ذاتی کالم نگار کو بتایا کرتے تھے کہ نواز شریف کو تاحیات سیاست سے خارج کر دیا اور اب وہ عمر بھر جیل میں رہے گا، وہی نواز شریف آج پھر ملکی سیاست کا سب سے طاقتور کردار ہے۔ مسلم لیگ کو سادہ اکثریت حاصل کرنے سے بھلے ہی روک دیا گیا اور بھلے ہی نواز شریف کو وزیراعظم نہیں بننے دیا گیا لیکن ’’نظام‘‘ کی محتاجی کا مداوا آج نواز شریف ہی ہے۔
اور یہی باجوہ صاحب مریم نواز کے ’’جسمانی خاتمے‘‘کی باتیں بھی کیا کرتے تھے۔ ایک بات تو طلعت حسین صاحب نے اپنے پروگرام میں بتائی کہ کس طرح باجوہ دانت کچکچا کچکچا کر مریم کو تباہ کرنے کے ارادے ظاہر کیا کرتے تھے اور بتایا کرتے تھے کہ ان کے اہل خانہ کی طرف سے شدید دبائو ہے کہ مریم کو تباہ کر دو۔
یہی نہیں ، انہوں نے ایک ’’افسر‘‘ سے یہ بھی کہلوایا کہ ہم مریم کو سمیش (نابود) کر دیں گے ، مسل ڈالیں گے۔ ان کے ایک کارندے طارق رحیم نے لطیف کھوسہ سے گفتگو میں مریم کو ٹھوک ڈالنے کا اعلان بھی ’’باجوہ کمپنی‘‘ کی ایما پر کیا۔ ٹھوک ڈالنا ممبئی کی لسانی اصطلاح ہے جس کا مطلب ہے گولی مار کر ہلاک کر دینا۔
اور یہی مریم نواز آج پنجاب کی طاقتور وزیر اعلیٰ ہیں۔ تنہا مسلم لیگ ن کے ارکان صوبائی اسمبلی کی تعداد 226 ہے۔ ایک بار پھر…
ہاتھ لا استاد، کیوں کیسی رہی۔
____
نصف شب کو تین سو کنال کے قصر مقدس سے خارا شگاف چیخ و پکار بلند ہوئی، ہائے میں مری، ہائے میں گئی۔
چوبداروں کے ہوش اڑ گئے، انہوں نے اوپر اطلاع دی، اوپر والوں کے بھی ہوش اڑ گئے۔ ایک نہیں، دو دو ایمبولینسیں آندھی طوفان کی رفتار سے قصر مقدس پہنچے، بی بی صاحبہ کا تفصیلی معائنہ کیا تو ہوش ایک بار پھر اڑ گئے۔ بی بی صاحبہ قابل رشک حد تک ٹھیک ٹھاک تھیں، انہیں کچھ نہیں ہوا تھا، بس معدے میں کچھ گڑ گڑ ہوئی تھیں، تمام عمر عیش و آرام، نازو نم ریشم و کم خواب کی زندگی گزارنے والی بی بی اس گڑ گڑ سے گڑبڑا کر سہم گئیں، سہم کر چیخ اٹھیں۔
مزید تسلی کیلئے پمز ہسپتال کی تین ڈاکٹروں کا بورڈ بنا۔ اس نے تفصیلی معائنہ کیا۔ ہر شے تسلی بخش تھی، بس بہت زیادہ اچار کھانے سے معدے نے کچھ غم و غصے کا اظہار کیا تھا۔ دو تین روز پہلے بھی ایک بورڈ نے یہی رائے دی تھی کہ بی بی کو کچھ نہیں ہے، زیادہ اچار کھانے سے معدے میں کبھی کبھی صف ماتم بچھ جاتی ہے۔ معلوم یہ بھی ہوا کہ بی بی صاحبہ نہ صرف یہ کہ ہر کھانے کے ساتھ اچار غیر ضرری حد تک زیادہ کھاتی ہیں بلکہ بنا کھانے کے بھی اچار کا شوق فرماتی رہتی ہیں۔
اچار اچھی چیز ہے اگر کھانے کے ساتھ تھوڑی سی مقدار میں لیا جائے، وہ بھی سخت گرمی کے موسم میں۔ ٹھنڈے موسم میں اچار سخت نقصان دہ ہوتا ہے۔ اسے تھوڑا ہی کھانا چاہیے نہ کہ اتنا کہ اچھا خاصا معقول آدمی ’’شنکر اچاریہ ‘‘ بن جائے۔
اب رہنے دے استاد، مت پوچھ یہ کیسی رہی۔