ہمارے سیاستدان اور ان کے اعمال پر نظر رکھنے والے مجھ جیسے تبصرہ نگاروں کا بنیادی المیہ یہ ہے کہ وہ جمہوریت کے استحکام کیلئے منتخب پارلیمان کی اہمیت کو دل سے تسلیم نہیں کرتے۔ اب تک سمجھ ہی نہیں پائے ہیں کہ پارلیمان اور اس کے اداروں کو متحرک وفعال بنائے بغیر ریاست کے دیگر اداروں کو عوام کے روبرو جوابدہ نہیں بنایا جاسکتا۔
آج بھی وہ دن مجھے اچھی طرح یاد ہیں جب جنرل ضیاء کے سفاکانہ مارشل لاء کے 8سال گزرجانے کے بعد ’’غیر جماعتی بنیادوں‘‘ پر انتخاب کے نتیجے میں قومی اسمبلی بحال ہوئی تو اپنے تئیں ’’حقیقی جمہوریت‘‘ کے پرستاروں نے اسے سنجیدگی سے نہیں لیا۔ یہ فیصلہ سنادیا کہ 1985میں قائم ہوئی اسمبلی درحقیقت ایک فوجی آمر کو جمہوری لبادہ فراہم کرتے ہوئے عالمی برادری کے لئے قابل قبول بنانے کے لئے استعمال ہوگی۔
ایسا سوچتے ہوئے یہ حقیقت فراموش کردی گئی کہ نام نہاد مہذب اور جمہوری اصولوں کی نمائندہ ’’عالمی برادری‘‘ یعنی امریکہ اور اس کے اتحادی تو 1985ء سے قبل ہی جنرل ضیاء کی محبت میں گرفتار ہوچکی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی لگانے کے علاوہ سیاسی کارکنوں اور صحافیوں کو برسرعام کوڑے لگوانے والا آمر دسمبر1979ء میں روسی افواج کی افغانستان آمد کے بعد سے امریکی کیمپ کیلئے ایک ایسا ’’ہیرو‘‘ یا مہرہ (جو چاہے تصور کرلیں) نظر آنے لگا جو ماسکو سے یورپ کے دل تک پہنچے برلن اور افغانستان کے ہمسایہ ممالک تک پھیلی کمیونسٹ ایمپائر کی شکست یقینی بناسکتا تھا۔ ماسکو کو آنکھیں دکھانے اور اس کی افغانستان بھیجی افواج کے خلاف ’’جہاد‘‘ کی سرپرستی کی بدولت اپنے شہریوں کو آزادی اظہار سے محروم رکھنے والا آمر نام نہاد مہذب اور جمہوری دنیا کی نگاہ میں ’’فری ورلڈ‘‘ کا حتمی اتحادی قرار پایا۔ ’’مہذب اور جمہوری دنیا‘‘ میں اپنی مقبولیت کے استحکام کے بعد ہی جنرل ضیاء نے ’’غیر جماعتی انتخاب‘‘ کے ذریعے قومی اسمبلی بحال کی تھی۔ اسے بحال کرتے ہوئے پارلیمان کو ’’مجلس شوریٰ‘‘ کا نام دیا۔ مذکورہ نام ہی یہ پیغام دینے کو کافی تھا کہ فوجی آمر عوام کے منتخب کردہ نمائندوں کو اقتدار منتقل نہیں کررہا۔ عوامی نمائندوں کو بااختیار تسلیم کرنے کے بجائے ’’مشیر‘‘ کا درجہ دیا جارہا ہے۔
صدیوں سے غاصبوں کی غلامی میں زندگی گزارنے کے باوجود ہمارے خطے کے لوگوں میں ’’خودی‘‘ کے اظہار کی تڑپ اکثر نمودار ہوجاتی ہے۔ 1985ء میں بحال ہوئی قومی اسمبلی کے بیشتر اراکین نے اجتماعی جبلت میں موجود تڑپ کے بھرپور انداز میں اظہار کی ٹھان لی۔ جنرل ضیاء کی خواہش ٹھکراتے ہوئے سید فخر امام کو قومی اسمبلی کا سپیکر منتخب کیا۔ موصوف نے سپیکر کا عہدہ سنبھالتے ہی مارشل لاء کے تحت ’’منتخب حکومت‘‘ کی جانب سے سالانہ بجٹ کی تیاری کو ’’غیر آئینی‘‘ عمل قرار دیا اور جنرل ضیاء تلملااٹھے۔
ان ہی دنوں ایک جونیئر صحافی ہوتے ہوئے میں نے یہ دریافت کیا کہ قومی اسمبلی میں پبلک اکائونٹس کمیٹی(PAC)کے نام سے بھی ایک ادارہ ہوتا ہے۔ اس ادارے کا فرض واختیار ہے کہ وہ حکومت کے ہر محکمے کی جانب سے میرے اور آپ کے دئے ٹیکسوں میں سے ملے پیسوں کے خرچ کا حساب لے۔ حساب لینے کے لئے پی اے سی بنیادی طورپر ان اعتراضات پر انحصار کرتی ہے جو حکومت ہی کے لگائے آڈٹ افسران مختلف محکموں کے اخراجات کا جائز لیتے ہوئے اٹھاتے ہیں۔
پی اے سی کی اہمیت سمجھنے کے لئے میں اس وجہ سے مجبور ہوا کیونکہ 1985ء میں قائم ہوئی اسمبلی میں اس کمیٹی کے سربراہ جھنگ سے آئے کوئی محمد علی صاحب تھے۔ ان کے ساتھ قصور سے منتخب ہوئے ایک اور رکن اسمبلی بھی تھے۔ نام تھا ان کا سردار آصف احمد علی۔ بنیادی طورپر و ہ معاشیات کے طالب علم تھے اور اپنی وفات تک مختلف جماعتوں کے سرکردہ رکن رہنے کے علاوہ اہم وزارتوں پر بھی فائزرہے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی دوسری حکومت کے دوران وہ نہایت متحرک وزیر خارجہ بھی رہے۔
1985ء میں قائم ہوئی پی اے سی نے بحری جہازوں کے ذریعے تجارت کے امور کا جائزہ لیتے ہوئے مصطفیٰ گوکل نامی ایک شخصیت کے اثرورسوخ پر باغیانہ سنائی دیتے سوالات اٹھانا شروع کردئے۔ ’’گوکل صاحب جنرل ضیاء کے وزیر برائے بحری امور بھی رہے تھے۔ پی اے سی کی جانب سے اٹھائے سوالات سے تاثر یہ پھیلنا شروع ہوا کہ موصوف نے وزارتی اختیارات کو اپنا ذاتی کاروبار بڑھانے کے لئے ڈھٹائی سے استعمال کیا۔ بات آگے بڑھی تو خبر یہ بھی پھیلی کہ مصطفیٰ گوکل مرحوم آغا حسن عابدی اور ان کے بنائے بینک کے بھی بہت قریب ہیں۔ بعدازاں مذکورہ بینک ’’دیوالیہ‘‘ ہوگیا۔ اس کے بارے میں بے تحاشہ سکینڈل بھی عالمی میڈیا میں اچھالے گئے۔
ہمیں کہانی یہ بتائی گئی کہ بینکاری کے شعبے پر صدیوں سے ا جارہ دار کی صورت قابض ہوئے ’’صیہونی بینکار‘‘ درحقیقت ایک مسلمان بینکار یعنی آغا حسن عابدی کی ذہانت سے گھبراگئے۔ انہیں یہ خطرہ محسوس ہوا کہ موصوف کا بنایا بینک عالمی سطح پر کامیاب ہوگیا تو صیہونی قوتوں کی بینکاری کے شعبے پر کئی دہائیوں سے قائم اجارہ داری کا خاتمہ ہوجائے گا۔
آغا حسن عابدی کا ذکر 1990ء کی دہائی میں شروع ہوا تو مجھے اکثر یہ خیال آتا کہ ا گر ہماری حکومت اور صحافت 1985ء میں قائم ہوئی پی اے سی کے گوکل اور حسن عابدی کے مابین رابطوں پر اٹھائے سوالات کو سنجیدگی سے لیتی تو شاید عابدی کے بنائے بینک کے دیوالیہ ہونے کی نوبت ہی نہ آتی۔ پارلیمان کو مگر ہم ’’دیدہ وروں‘‘ کی منتظر قوم ہوتے ہوئے کبھی سنجیدگی سے نہیں لیتے اور اس ضمن میں ہماری بے اعتنائی کا اندازہ ایک بار پھر ایک ’’خبر‘‘ کی بدولت ہورہا ہے۔
خبر کا آغاز شیر افضل مروت صاحب سے ہوتا ہے۔ وہ تحریک انصاف کی حمایت سے زندگی میں پہلی بار قومی اسمبلی کے لئے 8فروری کے انتخاب کی بدولت منتخب ہوئے ہیں۔ بہت بانکے نوجوان ہیں۔ ہمہ وقت خبروں میں رہنے کا ہنر جانتے ہیں اور خبروں میں رہنے کی خاطر ہی پاکستان میں شہباز حکومت کی جانب سے امریکہ کو بلوچستان میں مبینہ طورپر فراہم کئے ’’فوجی اڈے‘‘ بھی ڈھونڈ چکے ہیں۔ امریکی اڈوں کی افواہ پھیلانے کے علاوہ موصوف نے ایک اہم سعودی وفد کے حالیہ دورہ پاکستان کے دوران ’’انکشاف‘‘ یہ بھی کیا کہ امریکہ کی بائیڈن انتظامیہ اپریل 2022ء میں عمران خان کو وزارت عظمیٰ سے فارغ کروانے کی ’’سازش‘‘ میں تنہا ملوث نہیں تھی۔ سعودی عرب کی موجودہ قیادت نے بھی اس ضمن میں اپنا حصہ ڈالا تھا۔
پاکستان میں سرمایہ کاری کے امکانات کا جائزہ لینے آئے ایک اہم وفد کی پاکستان میں موجودگی کے دنوں میں ادا کئے سنسنی خیز کلمات کے باوجود موصوف کو تحریک انصاف پی اے سی کا سربراہ لگوانے کو بضد رہی ہے۔ اب مگر ’’مش ٹیک ‘‘ہوگئی کا احساس ہورہا ہے اور تقاضہ ہے کہ سنی اتحاد کونسل کے سربراہ حامد رضا صاحب کو اس کمیٹی کا سربراہ مقرر کردیا جائے۔ حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت اگر پی اے سی جیسی کمیٹی کی سربراہی کے ساتھ مسخرہ پن برتے گی تو دیگر ریاستی ادارے اس کمیٹی کو سنجیدگی سے کیوں لیں؟
پی ٹی آئی کا پی اے سی کی سربراہی کے ساتھ مسخرہ پن۔
Apr 26, 2024