معصوم روحیں انصاف مانگتی ہیں

خواجہ عبدالحکیم عامر ۔۔۔
سیالکوٹ میں دو معصوم بھائیوں کے بہیمانہ قتل کے بعد صدر آصف علی زرداری، وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی، وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف و دیگر حکمرانوں کو کھلے دل کے ساتھ تسلیم کر لینا چاہیے کہ ملک بھر میں سرکاری رٹ نام کی کوئی چیز موجود نہیں اور یہ امر بانیان پاکستان کی ارواح کو تڑپا دینے کے لئے کافی ہے۔ لوگ دیکھ رہے ہیں کہ گزشتہ ڈھائی سالوں میں سیاستدان اور حکمران ذاتی مفادات کی لڑائی لڑتے رہے ہیں اور بلکتی سسکتی عوام کو صرف طفل تسلیاں دی جا رہی ہیں لیکن یہ تسلیاں بھلا کب تک کام دکھا سکتی ہیں۔ پاکستان اپنے حکمرانوں کی کرتوتوں کے باعث ایسی گھمبیرتا میں گھر چکا ہے جس سے نکلنا ناممکن نہ سہی بہت زیادہ مشکل ضرور ہے۔ حکمرانوں پر سے لوگوں کا اعتماد اٹھ چکا ہے اسی لئے تولوگوں نے آزاد اور مضبوط عدلیہ کی خواہش کی تھی مگر یہ حقیقت نہایت دکھ کے ساتھ بیان کی جا رہی ہے کہ پاکستانیوں کو عدلیہ کی بحالی، آزادی اور مضبوطی کے بعد بھی وہ کچھ نہ ملا جس کی تمنا لے کر لوگ ایک سیلاب کی مانند سڑکوں پر آ گئے تھے۔ مہنگائی، بیروزگاری اور دہشت گردی کے مارے لوگوں کو اگر انصاف بھی نہ ملے تو وہ خودکشیاں ہی تو کریں گے، ڈکیت بنیں گے ایک دوسرے کا گلا ہی تو کاٹیں گے۔ دہشت گرد ہی تو بنیں گے۔
یوں تو وطن عزیز کو پاکستان سے مسائلستان بنا دیا گیا ہے دنیا کا کوئی مسئلہ یا تکلیف ایسی نہیں جو پاکستان میں موجود نہیں، رہی سہی کسر ہماری پولیس پوری کر رہی ہے میں ان پولیس افسروں اور اہلکاروں کو مکروہ، بدبودار اور بے غیرت لوگوں میں شمار کرتا ہوں جن کے سینوں کے اندر دل نہیں، جن کے دل انسانی جذبوں سے خالی ہیں، جن کے معصوم بچے اور بہن بھائی نہیں اور یہی وجہ ہے کہ انہیں بھائیوں اوراولاد کا درد نہیں۔ یوں تو پولیس کی تاریخ المناک اور دل ہلا دینے والے واقعات سے بھری پڑی ہے جس پر بے شمار کتابیں تحریر کی جا سکتی ہیں مگر چند مثالیں واقعی ایسی ہیں جن کے جاننے اور سننے کے بعد ماتم کرنے کو دل کرتا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ پولیس مادرپدر آزاد ہو چکی ہے اور سچی بات تو یہ ہے کہ حکومت جوں جوں پولیس کر مراعات دے رہی ہے پولیس آپے سے باہر ہوتی جا رہی ہے ، بے گناہوں کو جعلی پولیس مقابلے میں مارنے اور رشوت کھانے کے سوا پولیس کے پاس رہ کیا گیا ہے ۔لوگ سچ کہتے ہیں کہ وطن عزیز میں پایا جانے والا ایسا کوئی کرائم نہیں جو پولیس کی سرپرستی میں نہ ہوتا ہو یا جس میں پولیس ملوث نہ ہو۔ سیالکوٹ میں دو معصوم طالب علم بھائیوں کو پولیس نے چند بدبختوں کے ہاتھوں جس بے حسی سے مروایا ایک ایسا مکروہ فعل ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے اور پولیس کی اس درندگی پر رنگیلے حکمرانوں کے ضمیر جتنی بار جھنجھوڑے جائیں گے کم ہے۔ سیالکوٹ میں ہونے والی کھلی درندگی کا نوٹس وزیراعظم گیلانی، شہبازشریف اور چیف جسٹس نے لیا تو ہے رحمان ملک نے سیالکوٹ جا کر ملزموں کو گرفتار بھی کروا دیا ہے مگر یہ بہت کچھ ماں باپ کے پھولوں کی طرح معصوم اور بے گناہ بچے واپس نہیں دلا سکتا۔ میڈیا کے چند روزہ شور شرابے کے بعد معاملہ ٹھنڈا ہونے پر بھی پولیس ہو گی یہی ڈنڈے بردار وحشی درندے ہوں گے اور اگلے ٹارگٹ کی تیاری کر رہے ہوں گے۔
حکمرانوں کو خلیفہ دوم حضرت عمر فاروقؓ کے ان تاریخی فرمودات کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے کہ
(اولاً) اگر کسی گروہ، ہجوم کی موجودگی میں کسی انسان کا خون کیا جاتا ہے تو قسم ہے پیدا کرنے والے کی کہ میں پورے کے پورے گروہ، ہجوم کو سزا دوں گا۔
(دوئم) اگر میری رعایا میں ایک کتا بھی بھوکا مر گیا تو اس کا جوابدہ میں ہوں۔
ہمارا موجودہ قانون بھی اس ضمن میں جکڑا ہوا ہے کہ کسی قتل کو نہ روکنے والے بھی سزاوار ہیں۔ سیالکوٹ کیس میں موقع پر موجود پولیس اور ہجوم نے جس بے غیرتی کا ثبوت دیا وہ ناقابل معافی ہے اور اگر سزا واروں کو سزا نہ دی گئی اور گناہ گار بچ گئے تو میرا ایمان ہے کہ اس گناہ کی ذمہ داری حکمرانوں اور عدلیہ پر عائد ہو گی کیونکہ معصوم بچوں کے قاتلوں کو جب تک الٹا لٹکایا نہیں جاتا معصوم بچوں کی روحیں انہیں معاف نہیں کریں گی کیونکہ معصوم روحیں انصاف مانگ رہی ہیں۔ پاکستان پہلے ہی ہمارے انفرادی اور اجتماعی گناہوں کی سزا بھگت رہا ہے ہمیں ایسا کوئی کام نہیں کرنا چاہیے جو خدائی عذاب کو طول دے۔

ای پیپر دی نیشن