میری ضعیف ماں کو بھی تو لے گیا بہا
اٹھتا تھا کچے صحن میں جب سوکے صبح دم
ماں میری لمبی عمر کی تھی مانگتی دعا
کہتی تھی جلد کھیت میں جا اور کام کر
محنت کا خوب پھل تجھے دے گا ترا خدا
تُو آیا اورکھا گیا محنت کا میری پھل
کمبخت! میری ماں کے بھی تو سانس پی گیا
اب مجھ کو بھوک پیاس سے لڑنی پڑے گی جنگ
ایسے میں دے گا کون دلاسا مجھے بتا
بیوی مری ہے کوکھ میں اک جاں لئے ہوئے
آنسو پئے گا ماں کے وہ بچہ جو آئے گا
آب حیات بن کے تُو آتا تھا کھیت میں
وہ تیرا پیار اور دلار آج کیا ہوا
خوش آمدید! کہتا تھا میں تجھ کو ”کھال“ میں
تکتا تھا راہ تیری کبھی رات دن کھڑا
چڑھ دوڑا فوج موجوں کی کیوں لے کے مجھ پہ تُو
ناراض کس قصور پہ تو مجھ سے ہو گیا
کیا میں نے کالا باغ میں دینا تھا تجھ کو ڈیم
تیرا نہ گھر بنا تو مرا گھر مٹا دیا
کیا میں نے کارخانوں کا دریا میں گھولا زہر
تھا جرم یہ وڈیروں کا مجھ کو ملی سزا
پانی! معاف کیسے کروں میں تری خطا
میری ضعیف ماں کو بھی تو لے گیا بہا!