عنبرین فاطمہ
”تیراکی“ کا شمار صحت مند سرگرمیوں میں ہوتا ہے جسم کو توانا اور چست رکھنے کےلئے شوقیہ تیراکی بھی کی جاتی ہے۔پوری دنیامیں یہ صحت مند سرگرمی مقبولیت حاصل کر چکی ہے لیکن ہمارے ہاں بدقسمتی سے سہولیات کے فقدان کے باعث ”تیراکی“ اتنی پذیرائی حاصل نہیں کر سکی اور خصوصی طور پر ہماری خواتین اس میں کافی پیچھے ہیں ایک تو سہولیات کا فقدان اور دوسرا معاشرتی مسائل۔تیراکی سیکھنے اور مقابلے کے میدان میں اترنے کےلئے خواتین کوجس قسم کا لباس پہننا پڑتا ہے اس کو ہمارے ہاں پسند نہیں کیا جاتا۔اس کی اتنی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے کہ اگر کوئی لڑکی تیراکی میں اپنا نام پیدا کرنا چاہتی ہے تو اس کو اپنی خواہش دل میںہی دبا کر رکھنی پڑتی ہے یعنی وہ کھل کر اظہار نہیں کر سکتی۔لیکن اگر کوئی لڑکی ہمت کرکے اس شعبے میں آنے کا فیصلہ کر بھی لے تو سہولیات نہ ہونے کے باعث وہ مایوس ہو کر گھر بیٹھنے پر مجبور ہوجاتی ہے۔آج تیراکی ایک منظم کھیل کی صورت اخیتار کر چکی ہے اولمپک اور ایشین گیمز جیسے بڑے ایونٹس میں تیراکی کے مقابلوں کو مرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے ۔پاکستان میں تیراکی ایک مشغلے تک محدود ہے اور مواقع کی کمی کی وجہ سے ابھی تک پاکستان تیراکی کے کھیل میں نمایاں کامیابی حاصل نہیں کر سکا۔بین الاقوامی مقابلوں میں حصہ لینے کےلئے خواتین تو دور مردوں کو بھی اس کھیل کی بنیادی سہولیات میسر نہیں ہیں۔ کراچی ،لاہور اور اسلام آباد جیسے بڑے شہروں میں بھی بین الاقوامی معیار کے سوئمنگ پولز موجود نہیں ہیں۔صلاحتیں ہونے کے باوجود بہت ساری لڑکیاں آگے نہیں آپاتیں۔حکومتی سطح پر بھی تیراکی کے کھیل پر خاطر خواہ توجہ نہیں دی جاتی اورنہ ہی اسکے لئے مناسب فنڈز رکھے جاتے ہیں ۔ افسوس کہ مستقبل میں بھی نئی سہولتوں کی تعمیر کے لئے نئے منصوبے بنتے ہوئے نظر نہیں آرہے ہیں۔ہمارے ملک میں موسم گرما کا دورانیہ زیادہ ہوتا ہے ان حالات میں تیراکی کو فروغ دیکر ایک طرف تو ہم نوجوانوں کو ایک صحت مند سرگرمی کی طرف راغب کر سکتے ہیں تو دوسری طرف تیراکی کوایک محبوب مشغلہ بنا کربین الاقوامی سطح پر اس کھیل میں ملک کا نام بھی روشن کیا جا سکتا ہے۔ملک بھر میں ہر سال گرمیوں کے موسم میں نہروں ،دریاﺅں اور سمندر پر درجنوں افراد کے ہلاک ہونے کی خبریں بھی سامنے آتی ہیں جس کی بڑی وجہ سوئمنگ کی بنیادی تعلیم کا نہ ہونا ہے۔نوجوانوں کے اس شوق کو درست سمت میں لیکر جائیں تو یقیناً ایک بڑی کامیابی ہوگی۔جنوبی ایشیاءکے بڑے ممالک بھارت ،سری لنکا،بنگلہ دیش سمیت کئی اسلامی ممالک میں بھی خواتین کی سوئمنگ کے کھیل میں شرکت کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔دیگر اسلامی ممالک جن میں قطر،لبنان ،سمیت دیگر ممالک شامل ہیں کی خواتین کا تیراکی میں معیار خاصا بہتر ہے۔بھارت اور پاکستان کی ثقافت سے مطابقت رکھنے کے باوجود بھارت ہم سے آگے ہے۔اس کھیل کو بہتر بنانے کے لئے زیادہ سے زیادہ پلئیرز اور خواتین کوچز کی تربیت پر توجہ دی جانی چاہیے ۔کوچز جتنے تجربہ کار ہوں گے اتنا ہی نئی لڑکیاں اس کھیل کو سیکھنے میں دلچپسی کا مظاہرہ کریں گی۔باقاعدہ سکولوں اور کالجزمیں اس کھیل کے فروغ کے لئے اقدامات کئے جانے چائیں۔حکومتی سطح پر تیراکی کے تیلاب بنائے جائیں تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ حصہ لے سکیں۔اس ضمن میںپاکستان میں ”پاکستان سوئمنگ فیڈریشن“ کی بھی کوئی ذمہ داری بنتی ہے۔موجودہ سوئمرز ”فیڈریشن“ کے رویے سے خوش نہیں ہیں۔فیڈریشن حکام کی جانب سے بھی کھلاڑیوں کی حق تلفی کی جاتی ہے ۔بین الاقوامی مقابلوں میں شرکت کےلئے حق دار کھلاڑیوںکی بجائے ذاتی پسند نا پسند پر کھلاڑیوں کا انتخاب کیا جاتا ہے یہ درست روش نہیں ہے کھیل کے فروغ کےلئے انصاف کیا جانا ضروری ہے۔اب تک ہمارے سوئمرز اولپمکس میں وائلڈ کارڈ انٹری کے ذریعے شرکت کرتے ہیں لیکن ملک میں جتنا ٹیلنٹ پایا جاتا ہے ہمیں براہ راست اولمپک کھیلوں کےلئے کوالیفائی کرنا چاہیے۔گزشتہ پندرہ بیس برسوں کے دوران خواتین اپنی مدد آپ کے تحت سوئمنگ کے کھیل میں نام پیدا کرنے کےلئے کوشاں ہیںاور جس میں کسی حد تک انہیں کامیابی بھی ملی۔”کرن خان“ کو تیراکی کے میدان میں ممتاز مقام حاصل ہے اور یہ پاکستان کی پہلی خاتون ہے جس نے بین الاقوامی مقابلے میں نہ صرف شرکت کی بلکہ اس مقابلے کو اچھے انداز میں جیتا بھی۔کرن خان سے ہم نے اس حوالے گفتگو کی انہوںنے بھی سہولیات کی عدم دستیابی کا شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں خواتین سوئمرز کی حوصلہ افزائی کی نہیں کی جاتی میں نے بھی اپنی فیملی کی مدد سے سوئمنگ کا آغاز کی اور پھر اپنے والد کی کوچند میں آہستہ آہستہ ترقی کی منازل طے کی ۔حکومتی سطح پر پذیرائی نہ ہونے کے برابر ہے جب تک نہیںکی جاتی اس وقت تک خواتین تیراکی میں اہم کردار ادا نہیں کر سکتیں ۔نئی لڑکیوں کی تربیت کے لئے اپنے طور پر ایک قدم اٹھاتے ہوئے میں نے ایک ”اکیڈمی“ قائم کی جس کا مقصد کھلاڑیوں کو سوئمنگ کی جدید ٹریننگ فراہم کرنا ہے۔کالجوں میں کھیلوں کی بنیاد کی داخلے کر لینے سے کھیلوں کو فروغ نہیں ملتا اس کے لئے باقاعدہ تعلیمی اداروں میں بھی پلاننگ کی جانی چاہیے کہ سپورٹس کو فروغ دینے کےلئے کس قسم کے اقدامات کرنے ہیں۔کرن خان نے بتایا کہ میرے چار بہن بھائی ہیں اور سب ہی سوئمنگ کا شوق رکھتے ہیں تاہم ابھی تک مجھے ہی بین الاقوامی سطح پر مقابلے میں شرکت کرنے اور جیتنے کا اعزاز حاصل ہوا ہے۔