اس وقت پاکستانی قوم ”ریڈ الرٹ اور فلڈ وارننگ“ میں پھنسی ہوئی ہے۔ مزیدبراں ”انڈین سرحدی جارحیت“ کا بھی شکار بُری طرح مشکل دوراہے پر کھڑی ہے۔ بھارتی فوج نے ”شکما سیکٹر“ میں ”پاک فوج“ پر اشتعال انگیز فائرنگ کر دی جس کے نتیجہ میں ایک ”کیپٹن“ شہید اور متعدد جوان زخمی ہو گئے۔ بدقسمتی سے زمینی آفات کے ساتھ آسمانی حوادث بھی نئی نویلی حکومت کو پے درپے ہلکان کئے جا رہے ہیں۔ ایک طرف موسلا دھار طوفانی بارشیں‘ دوسری طرف ”انڈیا“ کی ”آبی جارحیت“.... 11 اگست‘ 18 اگست کو دریائے ستلج میں پانی کے دو ریلے چھوڑ کر تباہی پھیلا دی۔ پورا پنجاب شدید سیلابی پانی میں گھر گیا۔ اب تک سینکڑوں لوگ ، سیلابی ریلوں میں ڈوب کر ہلاک ہو چکے ہیں۔ ہزاروں دیہات صفحہ¿ ہستی سے مٹ چکے ہیں۔ لاکھوں بے گھر ہوکر ہماری اور غیبی امداد کیلئے ترس رہے ہیں۔ ہم اس کو اپنی بدنصیبی سے ہی معنون کریں گے کہ پاکستان چہار جانب سے گھیرے میں آچکا ہے۔ زمینی دشمنی‘ نامعلوم دشمنوںکےساتھ ساتھ آسمانی آفتوں کا بھی سامنا کر رہا ہے۔ ان سب کا سبب جہاں ہماری اپنی کوتاہیاں‘ اعمال و افعال کی خرابیاں ہیں‘ وہاں حکومتی بدانتظامی‘ ادارہ جاتی کرپشن‘ قیادت کی بدمعاملگی بھی نظرانداز نہیں کی جا سکتی۔ تیزی سے رونما ہوتے ہوئے حالات‘ واقعات سنبھلنے کا موقع ہی نہیں دے رہے اور نہ ہی ”اعلیٰ ایوانوں“ میں اس امر پر اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ ”فرست اول“ میں پہلی ترجیح پر کونسا معاملہ ہے۔ پالیسی بنانا تو بعد کی بات ہے‘ کسی بھی مسئلہ‘ بحران کو حل کرنے کی بابت قیادت یکسو‘ یکجان نہیں ہو پا رہی۔ سرحدی کشیدگی کےساتھ ساتھ آبی واردات بھی عروج پر ہے۔ ”ستلج“ کے بعد انڈیا ”چناب“ میں بھی پانی چھوڑ چکا ہے۔ یہ بھی ”انڈیا“ کی تابعداری ہے وہ دریاﺅں میں پانی چھوڑنے کی ہماری درخواست ہر مرتبہ مان لیتا ہے مگر ذرا ”ٹائمنگ“ غلط ہو جاتی ہے۔ اب کی مرتبہ بھی وہ ہماری ہی استدعا پر ایسا کام کر رہا ہے تو پھر ہم واویلا کیوں کریں؟؟ وجہ صاف ظاہر ہے ”ہندو“ کا چھوڑا ہوا پانی ہو یا پھر آزمائشی ڈرون پرواز‘ تباہی مچا دے یا گھروں کے گھر اجاڑ دے‘ ہم تو صرف ”امن کی آشا“ کے پجاری ہیں.... ہم تو صرف تجارت کے متمنی اور ثقافتی طائفوں کے رسیا ہیں‘ اپنی ہی خواہشات کے رسیا اور اسیر‘ غلام‘ پھراحتجاج کیسے کر سکتے ہیں۔ روک تھام بھلا کاہے کو کریں.... دوسری نظر سے دیکھیں تو اس وقت پنجاب ایک پرانے سیاسی مگر ”پاپی نعرے“ کا منظر پیش کر رہا ہے جو بچپن سے سنتے اور پڑھتے آئے ہیں کہ ہم ”لاہور“ کو پیرس بنا دیں گے.... ہم ”فیصل آباد“ کو ”مانچسٹر“ بنا دیںگے۔ ہم راولپنڈی کو ”وینس“ بنا دیں گے۔ ہم ”گوجرانوالہ“ کو ”گوجرانوالہ“ ہی رہنے دیں گے۔ گوجرانوالہ تک آتے آتے سیاستدانوں کے پاس ”یورپی شہروں“ کی لُفت سُکڑ چکی ہوتی تھی مگر اب کی مرتبہ قدرت کی فیاضی سے ”پنجاب“ خود سے ہی ”وینس“ بن گیا۔ یاد رہے یہ ”قدرتی فیاضی“ ہماری نااہلی‘ غفلت کی وجہ سے ہے۔ ہر سال ہی ”مون سون“ آتا ہے.... بارشیں ہوتی ہیں‘ ندی نالے‘ دریا بپھرتے ہیں‘ لوگ مرتے اور اُجڑتے ہیں‘ کچھ بھی تو نیا نہیں ہوتا۔ بس ہم تدابیر اختیار نہیں کرتے تباہی‘ ہلاکتوں سے بچنے کی۔ اس کام کیلئے سینکڑوں ادارے ہیں مگر فعال ایک بھی نہیں۔ اگر کوئی کام تسلسل سے نظر آتا ہے تو وہ صرف امدادی کیمپ اور سیلاب زدگان کے نام پر امدادی رقوم اور اشیاءبٹورنے کی اپیلیں‘ تگ و دو‘ ہم قوم کو بحال کرنے یا خودمختار کرنے کے بجائے صرف اور صرف بھکاری بنانے کی سعی کرتے رہے ہیں اور تاحال کر رہے ہیں۔ ان حالات میں صرف ”دورے اور بیانات“ کی گرمی‘ تصاویر‘ دکھوں کا مداوا نہیں کر سکتیں بلکہ ہم تو انتظامی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے کہیں گے کہ ”میٹرو یا بُلٹ ٹرین“ تو معلوم نہیں کب بنے‘ کب چلے‘ بس اتنا کر دیئے کہ گھروں میں گھستے پانی کے آگے ”امدادی کیمپ“ لگانے کے بجائے صرف یہ کریں کہ ”ہائبرڈ گاڑیوں“ کے بعد اب پانی میں چلنے والی ”کشتیوں“ پر ”ڈیوٹی“ معاف کرکے جہازوں کے جہازمنگوا کر ”کشتیوں“ کو طوفان مچاتے ”چنگیزی ریلے“ میں اتار دیں کیونکہ ”پنجاب تو خود ہی وینس“ بن گیا‘ بغیر کسی خرچ کئے۔ بغیر کسی محنت کے۔ ایک پل بھی سکون‘ آرام کو خراب کئے بنا۔ترجمہ:۔ ”اور تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو ٹھکراﺅ گے۔“
”پنجاب تو خود ہی ”وینس“ بن گیا“
”پنجاب تو خود ہی ”وینس“ بن گیا“
Aug 26, 2013