پاکستان میں آزاد عدلیہ اور آزاد میڈیا کی منزل تو طے ہو چکی مگر اس کے فوائد عوام الناس تک پہنچتے نظر نہیں آتے ۔ عدالت عظمیٰ نت نئے فیصلے تو کر رہی ہے مگر ان پر قانون کی رو کے مطابق عمل درآمد ہوتا دکھائی نہیں دیتا پھر نچلی سطح پر حالات جوں کے توں محسوس ہوتے ہیں یہی حال میڈیا کا ہے ۔ وطن عزیز میں اخبارات اور ٹی وی چینلز کی بہتات ہے مگر کہیں نظم و ضبط نظر آتا ہے نہ ضابطہ اخلاق طے ہو سکا ۔میڈیا مالکان میں اکثر ان سرمایہ داروں کی ہے جنہوں نے علم و تدریس میں بڑے بڑے ادارے قائم کرکے تعلیم کو نہ صرف منافع بخش صنعت کا مقام بخشا بلکہ انہی کامیاب لوگوں نے میڈیا میں بھی سرمایہ کاری کرکے صحافت کو بھی چار چاند لگا نے کا تہیہ کر لیا ۔ اربوں روپے ایک ایک ادارے پر لگانے والوں نے اس شعبہ کے لئے کسی تربیت گاہ یا ہنر کدے کا اہتمام کیا نہ ہی ایسی کوئی سوسائٹی تشکیل دینے کا خیال ظاہر کیا جو اتنے بڑے وسیع میڈیا کو ایسے تربیت یافتہ افراد فراہم کر سکے جو خبر کے جزو کل اس کی نشریاتی اہمیت کو فوقیت ، خبر کے نتائج و مضمرات کا ادراک رکھتا ہو ۔ پاکستان بھر میں حمید نظامی پریس انسٹی ٹیوٹ واحد ایسا ادارہ ہے جو میڈیا مین اور عوام میں نہ صرف پل کا کردار ادا کر رہا ہے بلکہ شعبہ صحافت میں نئے شامل ہونے والے نوجوانوں کے لئے ایک مثالی درسگاہ اور صحافتی تربیت کا اعلیٰ مرکز ہے جہاں شعبہ کے متعلق اہم رموزو اسرار سمجھنے کے ساتھ یہاں کہنہ مشق اور کامیاب صحافیوں دانشوروں کے تجربات خیالات سے استفادہ کے علاوہ طرز عمل اور آداب سے شناسائی ہوتی ہے ۔ ملک کے معروف قلم کار تجزیہ نگار اہل نظر صاحب بصیرت افراد قومی و بین الاقوامی امور پر اپنے مشاہدے مکالے اور تجزیے کھل کر پیش کرتے ہیں ۔ حمید نظامی پریس انسٹی ٹیوٹ میں سیکھنے اور صلاحتیں پروان چڑھانے کے لئے اتنا کچھ میسر ہے کہ پاکستان بھر میں کوئی دوسرا ادارہ اس کا ثانی نہیں ۔
22اگست کو جمہوریت کے قیام میں بلدیاتی نظام کی اہمیت کے موضوع پر سیمینار میں نوائے وقت کے دلاور چودھری نے بتایا کہ شہری حکومت کی تاریخ موہنجو دڑو اورنینوا سے منسلک ہے ۔ جمہوریت کی ابتداءہی بلدیات سے ہوتی ہے ۔ یونان اورروم کی انتہا کو چھونے والی سلطنتوں کی شروعات ہی شہری حکومت سے ہوئی تھی ۔ ہمارے آمر بھی اسی فلسفہ پر کاربند ہیں ۔ یہ جب آتے ہیں تو پہلے بلدیاتی انتخاب کراکے اسی کو اپنا الیکٹوریل کالج بنا لیتے ہیں ۔ لوکل جمہوریت شعور بیداری کا راستہ دکھائی دیتی ہے ۔ جمہور کے لئے آسانیوں کا اہتمام کرتی جس ے معاشرے میں اشتراک عمل کا احساس پروان چڑھتا ہے ۔ معروف دانشور و تجزیہ نگار تاثیر مصطفی نے کہا کہ جمہوری معاشرے میں بال کونسل ، پریس کلب ، میڈیکل کونسل اور میونسپل کونسل عوام اور حکومت میں رابطے کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ ہمارے ملک میں بلدیاتی انتخاب فوجی آمروں کے دور میں ہوئے ۔ چاروں آمروں نے علیحدہ علیحدہ سسٹم عطا فرمائے ۔تاثیر مصطفی نے بتایا کہ چارقوتیں بیوروکریسی ، فوج ، ارکان پارلیمان اور سیاسی جماعتیں شہری حکومتوں کو مضبوط مستحکم کر سکتی ہیں مگر یہی چاروں قوتیں ہمارے بلدیاتی نظام کے زوال کا باعث ہیں کیونکہ یہ لوگ عام آدمی کے ہاتھ میں اختیار برداشت نہیں کر سکتے ۔ حد یہ ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے حکم دیا کہ 15ستمبر تک لوکل انتخابات کرائے جائیں مگر چاروں صوبوں کی حالت ملاحظہ فرمائیں ۔ کوئی بھی اعلیٰ ترین عدالت کے حکم پر دھیان دینے کو تیار نہیں ۔یہ افسوسناک اور جمہوریت گریز رویہ ہے ۔ غیر جماعتی انتخابات کرپشن اور جھوٹے حلف نامے جمع کرانے کے سوا کچھ نہیں ۔ معروف دانشور قیوم نظامی نے کہا کہ آمرایوب خان نے بلدیاتی الیکشن کراکر عوامی حمایت کا تاثر دیتے ہوئے جھرلو کے ذریعے مادر ملت کی شکست کا اعلان کر دیا جو قوم کی تضحیک بھی تھی اور گہرا صدمہ بھی ۔ضیاءالحق نے غیر جماعتی الیکشن کرائے مگر تمام جماعتوں نے حصہ لیا ۔ پیپلزپارٹی عوام دوست کے نام سے شامل ہوئی ۔ قیوم نظامی نے کہا کہ تمام جماعتیں اور تمام جمہوریت کے چمپئن بلدیاتی جمہوریت سے خائف ہیں۔آئین کا آرٹیکل 140کی رو کے مطابق سیاسی مالیاتی ذمہ داریاں بلدیاتی نمائندوں کے سپرد کریں ۔
سیمینار کے صدر قائد حزب اختلاف پنجاب میاں محمود رشید نے برصغیر میں بلدیاتی اداروں کے ابتدائی تاریخ پر روشنی ڈالی اور کہا کہ مقامی حکومتیں دراصل کسی ریاست کو قیادت فراہم کرنے کے لئے ایک نرسری کا کردار اداکرتی ہیں ۔ ساﺅتھ ایشیاءانڈیا ، بنگلہ دیش ، سری لنکا کے علاوہ دیگر ممالک حکومت سے ہٹ کر ایک مضبوط شہری حکومتوں کا نظام قائم ہے ۔ اس بار سیاسی حکومتوں کو موقع ملا تھا کہ مل بیٹھ کر ایک ایسا تاریخ ساز بلدیاتی نظام قومی مفاد میں تشکیل دیا جائے جو آنے والی نسلوں کےلئے یادگار ہو جائے مگر افسوس سے کہتا ہوں کہ فوجی آمروں سے زیادہ سیاسی آمر خطرناک ہیں ۔ میثاق جمہوریت میں عہد کیا گیا تھا کہ بلدیاتی انتخابات جماعتی ہونگے ۔ حکومت پنجاب آئین پاکستان کے آرٹیکل 140-Aاور میثاق جمہوریت سے روگردانی کی مرتکب ہوئی ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ حکومت پنجاب نے 58-2-Bکی طرز کے اختیارات پر مبنی ایک کمیشن تشکیل دیا ہے جو ارکان پارلیمنٹ اور بیوروکریسی پر مشتمل ہے ۔ ان اختیارات کے بعد ارکان پارلیمنٹ قانون سازی میں دلچسپی لینے کی بجائے گلیوں اور نالیوں کی سیاست میں ملوث رہیں گے ۔ محمود رشید نے بتایا کہ ان کی جماعت صوبہ سرحد میں پارٹی منشور اور آئین پاکستان کے مطابق شفاف بلدیاتی نظام متعارف کرائے گی ۔
سیمینار نہایت سنجیدہ ، مطالعاتی اور فکری ہونے کے ساتھ خوشگوار ماحول کا حامل تھا ۔ تمام شرکاءنے محمود رشید کے جواں سال صاحبزادے حافظ حسین محمود کے جہان فانی سے عالم بقا انتقال پر رنج و غم کااظہار کر رہے تھے ۔