کیا اردو کے ہندو شاعر آنند ناران ملا نے اپنے اس شعر میں ہماری ہی کہانی کہی ہے؟
میرے چمن کی خزاں مطمئن رہے کہ یہاں
خدا کے فضل سے اندیشہ بہار نہیں
ایک ہندو کے منہ سے نکلے لفظ ’خدا کے فضل میں چھپی ہوئی زہریلی طنز بتانے کی ضرورت نہیں۔‘ 9 ستمبر کو مسند صدارت پر براجمان ہونے والے پاکستان کے بارہویں منتخب صدر جناب ممنون حسین بھی کچھ خیر کی خبر نہیں دے رہے۔ ان کے مطابق پاکستان کو اتنا خراب کیا جا چکا ہے کہ اس سے زیادہ خراب نہیں ہو سکتا۔ انہوں نے بڑی تفصیل سے بتایا کہ 2008ءکے انتخابات کے وقت امریکی ڈالر کی پاکستانی روپے میں شرح تبادلہ 60 تا 62 روپے تھی لیکن 2013ءمیں جب نئی حکومت نے اقتدار سنبھالا تو یہ شرح 100 روپے تک جا پہنچی تھی۔ 2008ءکے انتخابات کے وقت پاکستان کے کل اندرونی اور بیرونی قرضے 6700 ارب روپے کے برابر تھے۔ لیکن نئی حکومت کو ورثے میں 14800 روپے کے قرضے ملے ہیں۔ وہ اس تمام تر خرابی کی ذمہ داری ان چار آمروں پر ڈالتے ہیں جنہوں نے حکومتوں پر قبضہ کیا اور ان ججز پر بھی جنہوں نے ان کے قبضوں کو نظریہ ضرورت کے تحت جائز قرار دیا۔ وہ سب سے زیادہ ان دو طبقات کو تمام خرابیوں کے ذمہ دار دیتے ہیں۔ پوچھا گیا، ایک سیاستدان ہی سے پوچھا گیا کہ اس خرابی میں سیاستدانوں کا حصہ کتنا ہے؟ سیاستدان کا جواب پورا سیاسی تھا۔ ممنون حسین کہنے لگے ”جب میں تمام طبقات کو قصوروار ٹھہراتا ہوں تو اس میں لامحالہ سیاستدانوں کا طبقہ بھی آ جاتا ہے۔ انہوں نے وضاحت ضروری سمجھی کہ بنیادی ذمہ داری صرف دو طبقوں پر عائد ہوتی ہے۔حضرت قائداعظم کو قیام پاکستان کے ابتدائی دنوں ہی میں ایک اقتدار پسند فوجی افسر کو سخت لہجے میں سمجھانا پڑا تھا۔ انہوں نے اس افسر پر واضح کیا کہ وہ یہ نہ بھولے کہ مسلح افواج عوام کی خادم ہیں اور قومی پالیسی آپ نہیں بناتے، ہم سویلین افراد ان مسائل کا فیصلہ کرتے ہیں اور یہ ہمارا کام ہے کہ ان فرائض کا تعین کریں جو آپ کو تفویض کئے جا سکتے ہیں۔ وہ افسر کہہ رہا تھا ”بجائے اس کے کہ ہمیں عہدوں پر اپنے وطن کی خدمت کا موقع دیا جائے، جہاں ہماری فطری صلاحیتوں اور دیسی فطانت کا بھرپور فائدہ اٹھایا جا سکے، اہم عہدے ماضی کی طرح غیر ملکیوں کو دئیے جا رہے ہیں۔ تینوں جنگی سروسز میں برطانوی افسران کو سربراہ بنایا گیا ہے۔ کلیدی سینئر عہدوں پر متعدد غیر ملکی متعین ہیں۔ ہم یہ نہیں سمجھتے تھے کہ پاکستان کے امور یوں چلائے جائیں گے۔“ لیکن آپ شہیدِ ملت لیاقت علی خاں کے اس فلسفہ سیاست کو بھی نظر انداز نہیں کر سکتے۔ انہوں نے ایک مسلم لیگی جلسہ میں حکومت کی مخالفت کو ریاست کی مخالفت قرار دیا تھا۔ یہی پہلا غلط قدم تھا جس نے ہماری سیاسی کارواں کو راہ سے بدراہ کر دیا۔ پاکستان بننے کے بعد پہلے عشرے 1947ءتا 1958ءمیں جو کوتاہیوں، لغزشیں ہوئیں، ان میں سیاستدانوں کو معصوم قرار دینا قرین انصاف نہیں۔ نشیب کی طرف لڑھکتی ہوئی اس صورتحال کا سب سے زیادہ ذمہ دار کون تھا؟ اس سوال کا جواب صرف آمر اور جج نہیں ہیں۔ محمد علی بوگرہ کی وزارت میں ایوب خاں نے وزیر دفاع اس شرط پر بننا قبول کیا کہ وہ آرمی چیف بدستور رہیں گے۔ وجہ یہ بیان کی گئی کہ ایسا کرتے ہوئے وہ ملک کی مسلح افواج اور سیاستدانوں کے درمیان ایک بفر کا فریضہ ادا کریں گے۔ پھر جنرل کے ایم عارف کے لفظوں میں ”بکھرتے اور لڑکھڑاتے ہوئے سیاستدانوں کی اس کابینہ میں کمانڈر انچیف کا وزیر دفاع بنایا جانا گویا کبوتروں کے پنجرے میں بلی کو داخل کر دینا تھا۔“ یہ بات کتنی عجیب ہے کہ 1947ءکے بعد پہلے عام انتخابات کروانے کا اعزاز ایک فوجی جنرل یحییٰ خان کو حاصل ہوا۔ پھر اقتدار کی ہوس میں سیاستدان بھٹو یحییٰ خان سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں تھا۔ یہی سقوط ڈھاکہ کا سارا پس منظر ہے۔ پاکستان میں سیاست سونے کا انڈا دینے والی مرغی بن گئی ہے۔ متوسط طبقہ سے اگر کوئی آدمی کسی نہ کسی طرح اسمبلی پہنچ ہی جائے تو وہ سب سے پہلے اپنی بھو ک دور کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ 1970ءمیں روٹی کپڑا اور مکان کا شور و غوغا بلند ہوا تھا۔ غریب غرباءنے پاکستان پیپلز پارٹی کو اپنی پارٹی جانا، پھر تو یہ ڈنکے کی چوٹ پر غریبوں کی پارٹی بن گئی۔ تحریک انصاف کتنی تبدیلی لانے میں کامیاب ہو سکی ہے؟ پرسوں ترسوں عمران خان کا ایک سچا پرستار بڑے دکھ سے کہہ رہا تھا کہ اگر یہ سوال تحریک انصاف پنجاب کے صدر اعجاز چوہدری سے پوچھا جائے تو ان کا جواب بھی کچھ ایسا ہی ہو گا۔ ہمارے ملک میں تیس چالیس جاگیردار خاندان ایسے ہیں جو بڑی بڑی سیاسی جماعتوں پر چھائے ہوئے ہیں۔ مخصوص گھرانوں میں جنم لینے کا حادثاتی اتفاق ملک میں چوٹی کی لیڈر شپ پر براجمان ہونے کا یقینی نسخہ ہے۔ یہی جاگیردار تعمیر و ترقی اور تبدیلی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ ان کے سیاسی نظریات اور تصورات میں اختلافات سے قطع نظر ان خاندانوں کے اراکین اسمبلی اپنے اقتدار، مراعات اور حقوق کے تحفظ کے سلسلے میں ایک ہو جاتے ہیں۔ اب معاملہ یہاں آن پہنچا ہے کہ 2013ءکے انتخاب میں حدِ ملکیت کا مسئلہ کسی جماعت نے اٹھانے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ پھر یہی سیاستدان ضیاالحق کے مارشل لاءمیں وزارت کے مزے لوٹ کر پرویز مشرف کے مارشل لاءکے خلاف جمہوری احتجاجی جلوسوں میں آگے آگے نظر آتے ہیں۔ جو نظام بھی ان کو مسندِ اقتدار پر قائم دائم رکھے، وہی ان کی نظر میں جمہوری ہوتا ہے۔جناب! صرف جرنیل اور جج ہی نہیں، میرے دیس کی بربادی میں سیاستدان بھی برابر کے قصور وار ہیں۔ پس تحریر : پاکستان بھر میں گوجرانوالہ واحد جگہ ہے جہاں پٹرول پمپ والے بڑے دھڑلے سے سرکاری قیمت سے پانچ چھ روپے فی لیٹر زیادہ وصول کر رہے ہیں۔ کیا حکومت کی طرف سے اس پر کوئی گرفت نہ ہونے کی وجہ محض یہی ہے کہ ان میں سے کچھ پٹرول پمپوں کے مالکان ان کی اپنی جماعت کے اراکین اسمبلی ہیں۔