چوہدری اعتزاز احسن ایک کامیاب وکیل کے طور پر اپنی خاص پہچان رکھتے ہیں۔ سیاسی حوالے سے بھی ان کا نام اہم اور سینئر سیاست دانوں میں لیا جاتا ہے جو جمہوریت کی بقا پر یقین رکھتے ہیں اور آمرانہ کارروائیوں کی شدید مذمت کرتے رہے ہیں۔ وہ کافی عرصے سے پاکستان پیپلز پارٹی سے منسلک ہیں۔ کئی دور آئے اور گزر گئے۔ کبھی انہیں دل سے اپنایا گیا اور کبھی نظر انداز کیا گیا۔ ان کے حوالے سے مختلف افواہیں بھی گردش کرتی رہیں کہ وہ پیپلز پارٹی چھوڑ کر کسی اور جماعت کا حصہ بننے جا رہے ہیں مگر انہوں نے کبھی اس جماعت کو الوداع نہ کہا ۔ بڑی بڑی قد آور سیاسی شخصیات ان سے قانونی معاونت حاصل کرتی رہی ہیں۔ اس مشاورت اور معاونت نے انہیں کسی قدر رعونت کا شکار کر دیا ہے اور وہ خود کو سب سے عقلمند اور بہتر سمجھنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ پچھلے کئی ماہ سے عدلیہ کے حوالے سے ان کا رویہ بھی خاصا جارحانہ رہا ہے۔ وہ عدلیہ پر تنقید کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے بلکہ موقع کی تلاش میں رہتے ہیں۔ وہ چیف جسٹس جس کی عظمت کے کبھی وہ گن گاتے تھے آج کل اس کی مخالفت کرتے نظر آتے ہیں۔ علاوہ ازیں آج کل انہیں ایک اور بھی مشغلہ سوجھا ہوا ہے اور وہ ہے ہر سیاسی و قانونی معاملے پر بیانات دینا اور پریس کانفرنسز کرنا۔ شاید اس کا مقصد میڈیا پر براجمان رہنا ہے یا کچھ اور لیکن ایسے بیانات پڑھ اور سن کر ہر باشعور انسان کو احساس ضرور ہوتا ہے کہ وہ ایک منجھے ہوئے وکیل تو ہیں مگر سیاست دان نہیں۔ یہاں وہ عمران خان کے ہم پلہ نظر آتے ہیں جو سیاست میں نووارد بھی ہیں اور کسی حد تک ان کے فیصلے جذباتی نوعیت کے بھی ہوتے ہے لیکن چوہدری اعتزاز احسن نے برسوں کی ریاضت کے بعد جو عزت کمائی تھی اسے داﺅ پر لگا دیا۔ چند روز قبل انہوں نے سینٹ میں دھواں دھار سوالات کے ذریعے مسلم لیگ (ن) کی حکومت کو سکندر کیس سمیت کئی مسئلوں پر لتاڑنے کی خوب کوشش کی تو چوہدری نثار کو جواباً انہیں آئینہ دکھانے کی ضرورت پڑ گئی اور اس عمل کے دوران پی پی پی کی حکومت کے دوران ہونے والے وہ تمام واقعات دہرانے پڑ گئے جن کا ذکر کسی پیپلز پارٹی کے فرد کے لئے پسندیدہ نہیں تھا۔ یقینا ان کے اس عمل پر زرداری صاحب سمیت تمام بڑے متفکر ہوئے ہوں گے کہ آخر اس ساری کارروائی کا مقصد کیا تھا؟ اصل قصہ یہ ہے کہ جس طرح عمران خان صاحب سے عائلہ ملک کی نااہلی برداشت نہیں ہو رہی اور وہ اس صدمے سے دوچار ہو کر کبھی عدلیہ کو للکارتے ہیں اور کبھی الیکشن کمیشن کو اور کبھی ان کا غصہ دیگر سیاسی جماعتوں پر اترتا ہے ۔ بالکل اسی طرح چوہدری اعتزاز احسن بھی اپنی نصف بہتر بشریٰ اعتزاز کی شکست کو بھول نہیں پا رہے۔ بشریٰ اعتزاز کی فتح صرف اسی صورت میں ممکن ہو سکتی تھی جب (ن) لیگ بشریٰ اعتزاز کے مقابل کوئی امیدوار کھڑا نہ کرتی مگر ظاہر ہے مخالف سیاسی جماعتوں میں ایسا نہیں ہوتا۔ (ن) لیگ نے امیدوار بھی کھڑا کیا اور زور و شور سے اس کی مہم بھی چلائی جس کے نتیجے میں (ن) لیگ کا امیدوار جیت گیا ۔ اعتزاز صاحب اپنی اس گھریلو ہار کو پی پی پی کی ہار بنانے کے لئے کوشاں اور بضد ہیں ۔ شاید وہ بھول جاتے ہیں کہ ان کے مد مقابل بھی بولنا جانتے ہیں (ن) لیگ ان کے ہر سوال کا تفصیلی جواب مہیا کر کے عوام کو ان کی کارروائیوں سے آگاہ کرتی رہتی ہے۔ چوہدری اعتزاز صاحب کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ حملہ کرنے کے بعد جواب میں آنے والی تمام جلی کٹی باتوں کو خاموشی سے سنتے اور برداشت کرتے ہیں۔ اس دوران ان کے چہرے کا اطمینان دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ انہیں پورا یقین ہے کہ یہ تنقید ان کی ذات پر نہیں بلکہ اس پارٹی پر ہے ۔ بہرحال جس طرح کی مدلل گفتگو اعتزاز احسن صاحب آج کل کرتے نظر آتے ہیں، پیپلز پارٹی کی حکومت کے وقت ایسی گفتگو رحمن ملک کیا کرتے تھے ان کی سیٹ خود بخود اعتزاز احسن نے سنبھال لی ہے یہ سوچے بغیر کہ یہ انہیں بالکل زیب نہیں دیتی اور وہ عمر کے اس حصے میں جس طرح کے رویے اپنا رہے ہیں اس سے کسی اور کو نقصان کیا پہنچے گا ان کا اپنا ہی امیج خراب ہو رہا ہے۔