صحافت کا نیر تاباں

27 رمضان المبارک کی شب جو ہزاروں راتوں سے برتر و اعلیٰ، شب قدر، نزول قرآن پاک کی مبارک ساعتیں اور قیام مملکت اسلامی پاکستان کی شب بھی ہے کو آبروئے صحافت مجید نظامی بھی وہاں چلے گئے۔ جہاں ہم سب کو جانا ہے۔ ان کی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے تحریک پاکستان پھر استحکام پاکستان میں بھرپور کردار ادا کیا۔ انہوں نے اپنی زندگی کے 86 سال اسلام، جمہوریت اور پاکستان کیلئے وقف کئے رکھے اپنوں کی سازشوں، غیروں کی ریشہ دوانیوں، نامساعد حالات اور تین بار بائی پاس آپریشن کے باوجود کبھی وقت کے ہاتھوں شکست نہیں کھائی بلکہ ملک و ملت کے ہر مخاذ پر برسر پیکار رہے۔ نوائے وقت جس کا اجرا قائد اعظم کے حکم پر حمید نظامی نے 23 مارچ 1940ء میں کیا تھا۔ تو طالب علم مجید نظامی اپنے بھائی کے معاون تھے۔ جب لندن گئے تو وہاں سے باقاعدہ لکھتے۔ آزادی کے بعد جب سیاستدان اقبال اور قائد اعظم کے افکار سے منحرف ہو گئے اور گھر کے چوکیدار نے گھر پر قبضہ کر لیا تو حمید نظامی کا دم گھٹنے لگا انہوں نے مجید نظامی کو یاد کیا تو وہ لندن سے لاہور پہنچے۔ حمید نظامی کے بستر علالت کے قریب پہنچے تو حمید نظامی نے کہا کہ اچھا تم آ گئے۔ اچھا کیا اسکے ساتھ ہی انکی حرکت کلب بند ہو گئی۔ مگر یہ دور ان کے ساتھ ختم نہیں ہوا بلکہ نوائے وقت کی ادارت مجید نظامی کے ہاتھ دے دی جن کی تربیت اپنے ہاتھوں سے کی تھی اور جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنے کی روایت کو انکے خون کی گردش میں شامل کرایا تھا مجید نظامی نے صحافت کو قوم کی آزادی کے مقدس نصب العین کی طرف رکھا اور اسے پیشہ نہ بنایا بلکہ حمید نظامی کی روایت کیمطابق اسلامی تعلیمات، پاکستان اور جمہوریت کو اہمیت دی۔ صحافت کے 82 سال جب کہ ایڈیٹری کے 52 سالہ دور میں بے شمار حادثات کے باوجود کلمہ حق کی روایت قائم رکھی جو کہ عالمی سطح پر ایک ریکارڈ ہے۔ وہ تین بار حیات و موت کی کشمکش میں مبتلا ہوئے مگر اللہ تعالیٰ نے انہیں کلمہ حق کی سربلندی کیلئے زندگی عطا فرمائی۔ مسئلہ کشمیر کو مجید نظامی نے ہمیشہ اہمیت دی اور اسے تقسیم ہند کے بنیادی ایجنڈے کا حصہ قرار دیتے اسی باعث نوابزادہ نصراللہ خان مرحوم جو کشمیر کمیٹی کے چیئرمین بھی رہے نے کہا کہ کشمیر کو جو ترجیح حاصل ہے وہ مجید نظامی کی بدولت ہے میاں نواز شریف کا کہنا ہے کہ مجید نظامی دوستوں کے دوست لیکن کردار کو نظریات کے حوالے سے حلقہ احباب میں تنقید کے حق سے دست بردار نہیں ہوتے۔ میرے والد حکیم عنایت اللہ نسیم سوہدروی (علیگ) مرحوم حمید نظامی کے دوستوں میں سے تھے جب بھی حمید نظامی کا ذکر کرتے تو کہتے کہ نظامی برادران اقبال و قائد کے علمبردار اور ملی مفادات کے حوالے سے چٹان ہیں۔ نوائے وقت سے ان کا تعلق 23 مارچ 1940ء سے شروع ہوا تو حمید نظامی کے بعد مجید نظامی سے انکے انتقال تک رہا۔ ان کا آخری مضمون 16 دسمبر 1946ء کو انکے انتقال کے چھ روز بعد نوائے وقت میں شائع ہوا۔ راقم الحروف کو مجید نظامی سے متعدد مرتبہ شرف ملاقات ہوا ہے۔ وہ ہمیشہ بڑی محبت اور شفقت سے ملتے۔ ان کو جب بھی کوئی تحریر بھیجی بڑی اہمیت سے شائع کرتے۔ میرے والد کے انتقال پر نوائے وقت میں شذرہ لکھا اور خط بھی تحریر کیا۔ جو میرے پاس آج بھی محفوظ ہے۔ ڈاکٹر انور سدید نے میرے والد مرحوم پر کتاب لکھی تو اس کا پیش لفظ مجید نظامی نے لکھا۔ جب قیام پاکستان کی تحریک میں 9 مارچ 1940ء کو ڈی اے وی کالج جواب ایم اے او کالج ہے ہندوئوں کی برساتی اینٹوں سے انکے طالب علم ساتھی اور دوست عبدالمالک شہید ہو کر انکی گود میں گر پڑے تو مجید نظامی نے اپنے دوست کی قمیض سنبھال کر رکھ لی اور اسی جذبے اور ولولے سے تحریک پاکستان میں حصہ لیا۔ جو کہ ایک ریکارڈ ہے۔ انکی کہانی ان کی اپنی زبانی محترمہ عائشہ مسعود نے ان کی زندگی میں مرتب کر کے شائع کی تھی۔ جس کی تعارفی تقریب الحمرا ہال لاہور میں جسٹس آفتاب فرخ کی صدارت میں ہوئی جس میں راقم نے بھی کتاب پر اظہار خیال کیا۔ تو محترم مجید نظامی کے یہ لفظ آج تک کانوں میں گونج رہے ہیں کہ تم کو سن کر نسیم صاحب کی یاد تازہ ہو گئی۔

ای پیپر دی نیشن