یہ بیسوی صدی کے آغاز کا واقعہ ہے۔ ترکی میں عثمانی خلیفہ سلطان عبدالحمید ثانی کا عہدِحکومت تھا۔ سلطنت مسلل زوال کی طرف بڑھ رہی تھی۔ مغربی فکروفلسفہ اور یورپی تہذیب کی مقبولیت کے سبب ترکی مسلمان نوجوان اسلام سے دور ہو رہے تھے۔ اس وقت معروف ترک دانشور بدیع الزمان سعید نورسی کا عہد شباب تھا مگر عقبری ذہن اور زندہ دل و دماغ کے سبب وہ شہرت حاصل کر چکے تھے۔ انہوں نے طویل سفر کے بعد استنبول جا کر خلافت کے وزیراعظم سے ملاقات کی اور خلیفہ سے ملاقات کا وقت مانگا۔ وزیراعظم نے ان سے تحریری مطالبات اور ملاقات کی غرض و غایت حاصل کیں۔ شاہ سے وفاداری کی نام نہاد شہرت رکھنے والے وزیراعظم سمیت دیگر درباری لوگوں نے نورسی کے افکار کو حکومت کی توہین گردانتے ہوئے نہ صرف انہیں سلطان سے ملنے نہ دیا بلکہ ان پر مجنوں اور پاگل ہونے کا الزام لگا کر پاگل خانے بھجوا دیا۔ چند روز بعد ڈاکٹر نے رپورٹ لکھی کہ اگر یہ جوان پاگل ہے تو اس وقت ترکی کا کوئی شخص بھی عقلمند نہیں۔ وقت نے ثابت کردیا کہ خلافت عثمانیہ شاندار ماضی اور وسیع ترین علاقے کی حکومت کے باوجود چاروں شانے چت ہوئی اور اس کے زوال کے اسباب وہی تھے جن کی طرف سعید نورسی نے متوجہ کیا تھا۔ آج ترکی میں شاندار کامیابی حاصل کرنے والے رجب طیب اردگان اسی سعید نورسی کی فکر نور کے پروردہ ہیں مگر تاریخ کی شاہراہ پر ترکی قوم کو یہ موڑ مڑتے مڑتے ایک سو سال لگ چکا ہے۔ یہ مثال میں اس لئے دی کہ آج اسلام آباد کی پارلیمنٹ کے سامنے تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک کے ہزاروں کارکنان نے دھرنے دے رکھے ہیں۔ بارہ دنوں سے بیٹھے ہوئے ان غیور اور صابر لوگوں نے ریاست پاکستان کا ایک شیشہ یا ایک گملہ نہیں توڑا۔ ہاں عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری ہر روز جو مطالبات پیش کر رہے ہیں‘ ان سے حکمران جماعت کی توہین ضرور ہوتی ہے۔ آصف زرداری سے لیکر ہر وہ شخص جو اس نظام سے فیض یافتہ ہے وہ ’’جمہوریت‘‘ کی فکر میںگلتا جا رہا ہے۔ اسے آئینی اور دستوری حکومت کے تحفظ کی فکر ہے مگر ان 18 کروڑ عوام کے مسائل کا ادراک نہیں جو جیتے جی مر چکے ہیں جن کی زندگی مہنگائی‘ بیروزگاری اور ظلم و جہالت کے پربتوں کے نیچے سسک رہی ہے۔ آج رات محمد افضل خان سابق ایڈیشنل سیکرٹری الیکشن کمیشن آف پاکستان کے انکشافات اس حکومت اور اس کے درباریوں کیلئے کسی دھماکے سے کم نہیں تھے۔ انہوں نے ڈاکٹر طاہرالقادری اور عمران خان کے واویلے کی تصدیق کر دی ہے۔ باریاں مقرر کرنے کی باتیں بھی اب حقیقت محسوس ہوتی ہیں کیونکہ جن جن جماعتوں کے مفادات اس نظام انتخاب سے وابستہ ہیں وہ سب کی سب حکومت کا کاندھا تھپتھپا رہی ہیں۔ پی پی پی‘ اے این پی‘ جے یو آئی‘ جمہوری وطن پارٹی الغرض جس کو بھی حصہ مل رہا ہے‘ وہ احتجاج کرنے والوں کو غلط اور ظالم و جابر حکومت کی تمام سرگرمیوں کو آئینی اور جمہوری قرار دے رہی ہیں۔ جائز مطالبات کرنے والوں کو متنازعہ بنانے کیلئے حکومت نے (ن) لیگ‘ جے یو آئی اور سپاہ صحابہ کے لوگوں کو احتجاج پر اکسانا شروع کر دیا ہے۔ خود ایک بدنام زمانہ حرکت ہے۔ مطالبات کا تعلق عوام سے نہیں بلکہ مقتدر حکومتی ایوان سے ہے۔ جو دھاندلی اور جھوٹ سے وجودمیں آئی ہے جس کا اب اخلاقی جواز ختم ہو چکا ہے۔ یہ عدالتیں جو آزاد ہونے کادعویٰ کرتی ہیں‘ ان انکشافات کے بعد یہ بھی جانبدار ظاہر ہو رہی ہیں۔ وہ چیف جسٹس جس کی بحالی کیلئے پوری قوم نے سڑکوں پر نکل کر احتجاج کیا‘ اس نے بھی قوم کو بری طرح مایوس کیا اور الیکشن 2013ء میں انہوں نے (ن) لیگ کے ورکر کی طرح دھاندلی کا راستہ ہموار کیا۔ محمد افضل خان نے یہ بھی بتایا کہ تمام ریٹرننگ آفیسرز کی تعیناتی خود افتخار چودھری نے کی تھی حالانکہ یہ کام الیکشن کمیشن کا تھا۔ جب جانبداری‘ دھاندلی اور کرپشن اعلیٰ عدلیہ کے ججز کی زیرنگرانی پنپ رہی ہو تو عدل‘ انصاف اور جمہوریت کی قدریں وہاں کیسے جڑ پکڑ سکیں گی مگر اس کا عمل فوجی یا مارشل لائی حکومت نہیں۔ قومی حکومت تشکیل دیکر ان تمام کرداروں پر مقدمات قائم ہوں اور جرم ثابت ہونے پر انہیں قرارواقعی سزائیں دی جائیں۔ یہی انقلاب ہے۔ اس احتساب کے بعد امید کی جا سکتی ہے کہ ملک میں امن و امان اور حقوق کے تحفظ کی فضا قاسم ہو سکے گی۔
انقلاب مارچ کے ردعمل میں بعض مذہبی دھڑوں نے دھمکی دی ہے کہ وہ بھی حکومت سے اظہاریکجہتی کرتے ہوئے احتجاجی مارچ کا اہتمام کریں گے حالانکہ ملی یکجہتی کونسل نے گزشتہ روز طاہرالقادری صاحب کے مطالبات کو آئینی اور جمہوری قرار دیتے ہوئے حمایت کا اعلان کر دیا ہے۔ اس لئے جرأت مندانہ کاوش کو ایرانی انقلاب کی طرف بڑھنے والا قدم قرار دیکر اسے مسلکی رنگ دینے کی جسارت گمراہ کن ہوگی۔ عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے مطالبات میں کسی فرقے یا مسلک کی نمائندگی نہیں۔ ڈاکٹر طاہرالقادری کے ساتھ مجلس وحدت مسلمین اگر شیعہ مسلک سے وابستہ ہے تو ان کے ساتھ دیگر لوگ بھی ہیںجن کے مشرب مختلف ہیں۔ پھر تو جے سالک کو دیکھ کر کوئی یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ اس انقلاب میں عیسائیت کی بو آرہی ہے حالانکہ جے سالک ہو یا مجلس وحدت یا سنی اتحاد کونسل میں پاکستان کی عوام کی نمائندہ جماعتیں ہیں جو اپنے حقوق کیلئے سڑکوں پر آگئی ہیں۔ اس لئے ایک سیدھے سادے اور صاف شفاف عوامی فلاحی مطالبے کو مسلکی رنگ دیکر ملک میں خون خرابے کا ماحول پیدا کرنے سے گریز کرنا چاہئے۔ یہ ایک تفصیل طلب اور حساس موضوع ہے جس پر ہم آئندہ تفصیلاً روشنی ڈالیں گے۔ انشاء اللہ۔