عمران خان اور افضل خاں کی سابق ججوں اور الیکشن کمیشن پر بلاثبوت الزام تراشی اور سپریم کورٹ کا شاہراہ دستور خالی کرانے کا حکم
سابق ایڈیشنل سیکرٹری الیکشن کمیشن محمد افضل نے نجی ٹی وی سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ 2013ءکے عام انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے، انتخابات میں 35 پنکچر نہیں سینکڑوں لگائے گئے جس کو جہاں جتنی توفیق ملی، اس نے زیادتی کی۔ فخرو بھائی کو کراچی میں ہوائی فائرنگ کرکے ڈرایا گیا، وہ کام کرنے میں خوفزدہ تھے۔ افتخار محمد چودھری بھی انتخابی دھاندلی میں ملوث ہیں جبکہ دھاندلی کے معاملات میں سابق چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی بھی شریک تھے۔ آر اوز کو چیف جسٹس (ر) افتخار محمد چودھری نے تعینات کیا، یہ کام الیکشن کمیشن کا تھا دھاندلی کی شکایات والے کیسز کو جان بوجھ کر لمبا کیا گیا۔ جسٹس (ر) ریاض کیانی کا الیکشن کو تباہ کرنے میں 90 فیصد ہاتھ ہے۔اگر یہ لوگ دھاندلی میں ملوث نہ ہوتے تو 4 حلقے کھول دیتے۔ میں بھی کسی حد تک قوم کا مجرم ہوں، تحقیقات ہونی چاہئے۔الیکشن 2013ءکیلئے مختص 36 ملین روپے انتخابات پر خرچ نہیں ہوئے۔ افضل خان نے جہاں الزامات لگائے وہیں یہ اعتراف بھی کیا کہ میرے پاس دھاندلی کا کوئی ثبوت نہیں۔ سابق سیکرٹری الیکشن کمشن کنور دلشاد نے کہا ہے کہ افتخار چودھری نے الیکشن کمشن کے تمام عملے کو دباﺅ میں رکھا۔ دریں اثناءممبر الیکشن کمشن جسٹس (ر) ریاض کیانی نے کہا ہے کہ افضل خان کے الزامات بے بنیاد ہیں۔ ملازمت میں توسیع نہ دینے پر افضل خان الزام تراشی پر اتر آئے۔
عمران خان ایک سال انتخابات میں دھاندلی کا واویلا کرتے رہے، انہوں نے بار ہا 4 حلقے کھولنے کا مطالبہ کیا حکومت انہیں آرٹیکل 225 کا حوالہ دے کر کہتی کہ انتخابات میں دھاندلی اور بے ضابطگی کی شکایات الیکشن ٹربیونل ہی میں کی جا سکتی ہے۔ الیکشن کمشن کا بھی یہی مو¿قف تھا اور اس کی طرف سے اعلان کیا گیا کہ چار ماہ میں ٹربیونل شکایات نمٹا دیں گے حکومت اور الیکشن کمشن نے عمران خان کے الزامات پر سنجیدگی نہ دکھائی تو انہوں نے دھاندلی کے الزامات کو لے کر احتجاج، اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ اور دھرنے کا اعلان کر دیا۔ طاہر القادری بھی لانگ مارچ اور دھرنے میں عمران خان کے ہم رکاب ہو گئے۔ آج ان کے دھرنوں کو بارہ دن ہو گئے، دونوں نے پُرامن مارچ کی یقین دہانی کرائی اور وعدہ کیا کہ وہ ریڈ زون میں داخل نہیں ہوں گے۔ آزادی مارچ اور انقلاب مارچ یقین دہانی کے مطابق پُرامن رہے لیکن ریڈ زون میں داخلے کا وعدہ توڑ دیا گیا۔ ایک موقع پر طاہر القادری نے پارلیمنٹ کے گھیراﺅ کا اعلان کر دیا، اس وقت قومی اسمبلی کا اجلاس جاری تھا، ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنے معتقدین کو کہا کہ وہ کسی کو پارلیمنٹ کے اندر جانے دیں نہ باہر نکلنے دیں البتہ تین گھنٹے بعد انہوں نے اپنے کارکنوں کو واپس بُلا لیا۔ عمران خان وزیراعظم ہاﺅس میں داخل ہونے کی دھمکیاں بھی دیتے رہے۔ جب تک عمران خان اور طاہر القادری کے دھرنے ریڈ زون سے باہر تھے حکومت نے ان پر سختی نہیں کی، ریڈ زون کے اندر آئے تو مزید کنٹینر لگا کر دھرنے والوں کی نقل و حرکت محدود کرنے کی کوشش کی۔ اپنے مقاصد کے حصول میں ناکامی پر مایوس تحریک انصاف اور عوامی تحریک کی قیادت کسی وقت کوئی بھی فیصلہ کر سکتی ہے جس سے پوری دنیا میں پاکستان کا مذاق بنے گا جو اب بھی کچھ کم نہیں ہے۔ دھرنوں سے حکومتی رٹ چیلنج ہو چکی ہے اکثر سرکاری ملازمین ڈیوٹی پر پہنچنے سے قاصر ہیں۔ وفاقی دارالحکومت دھرنوں سے یرغمال بن چکا ہے۔ شاہراہِ دستور پر قبضہ کر کے سپریم کورٹ تک کے راستے مسدود کر دئیے گئے ہیں۔ اور سفارتخانوں کا کام بھی ٹھپ ہو کر رہ گیا کیا یہ انصاف کی فراہمی اور پرامن شہریوں کے حقوق کی راہ میں رکاوٹ نہیں ہے؟ چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں پانچ رکنی بنچ کا گزشتہ روز کا فیصلہ بجا اور بروقت ہے جس میں آج شاہراہ دستور کھولنے کے احکامات دئیے گئے ہیں۔ عدلیہ نے حتی الوسع خود کو سیاسی معاملات سے دور رکھنے کی کوشش کی ہے۔ حکومت کسی مصلحت کا شکار ہو اور نہ کسی دھونس اور دھمکی میں آئے، سپریم کورٹ کے حکم پر من و عن عمل کر کے شاہراہِ دستور پر قبضہ چھڑائے تاکہ فاضل جج حضرات، وکلائ، سائل اور عام آدمی کے سپریم کورٹ جانے میں کوئی رکاوٹ نہ رہے۔ اور روز مرہ کے معمولات بھی بحال ہو سکیں۔
حکومت نے عمران خان کے دھاندلی کے الزامات اور 4 حلقے کھولنے کے معاملے کو سنجیدگی سے لیاہوتا تو حالات اس نہج تک نہ پہنچتے کہ آج جمہوریت خطرات میں گِھری نظر آ رہی ہے۔ لیکن حکومت کی غفلت یا مصلحت کوشی کا یہ مطلب نہیں کہ کوئی اس حد تک آزاد ہو جائے کہ دل میں جو آئے کرتا اور کہتا رہے۔ سابق ایڈیشنل سیکرٹری الیکشن کمشن افضل خان کا ضمیر اس عمل کے سال کے بعد جاگا جس میں وہ خود کو بھی کسی حد تک مجرم قرار دیتے ہیں اب افضل خان سابق سیکرٹری الیکشن کمشن کنور دلشاد کی طرح تحریک انصاف کے رکن بھی ہیں۔ اِدھر عمران خان نے کہا کہ افضل خان کے پاس دھاندلی کے ثبوت ہیں تو اُدھر وہ ٹی وی پر طوطے کی طرح الزامات کی رٹ لگا رہے تھے۔ کسی حکومت مخالف پارٹی کارکن کے الزامات کی آخر کیا اہمیت رہ جاتی ہے اور پھر خود ہی افضل خان نے کہہ دیا کہ ان کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہیں۔ ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ بغیر ثبوتوں کے الزامات اور خصوصی طور پر دو سابق چیف جسٹس صاحبان کا نام لے کر الزام لگانے کا نتیجہ کیا ہو سکتا ہے۔ عمران خان تواتر کے ساتھ جسٹس افتخار محمد چودھری پر انتخابات میں دھاندلی کا الزام لگاتے رہے۔ جسٹس افتخار نے ان پر ہتک عزت اور ہر جانے کا دعویٰ کر دیا، ان سے جواب طلب کیا گیا تو عمران خان نے اپنے الزمات سے رجوع کرتے ہوئے جسٹس افتخار محمد چودھری کی تعریف کی اور ان کو ایک بار پھر منصف اعلیٰ قرار دیا۔
جسٹس ریاض کیانی نے بھی افضل خان کے الزامات پر ہتک عزت کے دعوے کا اعلان کیا ہے۔ ان کا یہ فیصلہ درست ہے۔ آج ہتک عزت کے حوالے سے قانون کو مزید بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے قانون میں ترمیم کی ضرورت ہو تو کر لی جائے۔ ہتک عزت کے کیس لمبے عرصے تک لٹکے رہتے ہیں۔یہ بے بنیاد الزام لگانے والوں کی حوصلہ افزائی کے مترادف ہے۔ ہتک عزت کے مقدمات کا کم از کم مدت کے دوران فیصلے کا قانون بن جائے تو، من گھڑت الزامات لگانے والوں کی حوصلہ شکنی ہو جس سے معاشرے میں فسادی ذہنیت کے خاتمے میں مدد ملے گی۔