مسلمانوں میں نفاق کی سازش

سب سے بڑی ہنر مندرب العالمین کی ذات مبارکہ ہے جنکی کاریگری اور صناعی کا انمول اورلاثانی شاہکار کائنات ہے۔جس کسی انسان نے رب کی صناعی اور کاریگری کے شاہکار ”کائنات“ کے کسی بھی شعبہ کے ہنر کو سیکھا ہے اسے الکاسب حبیب اللہ کا رتبہ ملا ہے جسکے معنی ہیں ہنر مند اللہ تعالیٰ کا دوست ہے۔ اس سے پہلے حبیب اللہ کا اعزاز پیغمبر اسلام حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فرمایا گیا ہے۔ یہ اعزاز نہ تو کسی ولی اللہ، نہ کسی عالم دین اور نہ ہی کسی عبادت گذار کو نصیب ہوا ہے۔ کیا بلند و بالا مرتبہ اور مقام ہنر مند کو نصیب ہو ا ہے۔ اس سے یہ بات ابھر کر سامنے آتی ہے کہ تعلیم کی دنیا میں سب سے زیادہ اہمیت اور فوقیت فنی تعلیم کو حاصل ہے۔ آج جن قوموں نے فنی تعلیم کی قدر و منزلت اور اہمیت کے پیش نظر اسے لازمی قرار دیا ہے ان میں جرمنی 78 فیصد ، کوریا ، ہنگری اور فن لینڈ سو فیصد فنی تعلیم کو لازمی قرار دے چکے ہیں۔ چین کا ڈیٹامیسر نہیں آسکا۔اسکی مصنوعات کی عالمی منڈیو ں میں فراوانی سے موجودگی کا اندازہ لگا یا جا سکتا ہے کہ چین میں بھی فنی تعلیم کی اوسط کسی صورت میں 100 فیصد سے کم نہیں۔ان ممالک کا طالبعلم کسی بھی شعبہ حیات میں تعلیم حاصل کر رہا ہو اس نے فنی تعلیم ہر حال میں حاصل کرنی ہے۔ اس سلسلے کا ایک واقعہ پیش خدمت ہے۔
پاکستان کے صدر جنرل ضیا ءالحق جاپان کے سرکاری دورے پر گئے انکی حیرت انگیز ترقی سے متاثر ہو کر انہوں نے جاپانیوں سے اس ترقی کا راز دریافت کیا جاپان کے ترجمان نے بتایا کہ پانچویں اور چھٹی صدی عیسوی کے دوران کسی وقت چند جاپانی چین اور جاپان کے درمیان ساڑھے پانچ سو کلو میٹر سمندری سفر کر کے چین پہنچے۔ چین کے فنی ماہراستادوں سے ہنر کی نزاکتیں ، باریکیاں اور نفاست سیکھی جدید ٹیکنالوجی مغرب سے حاصل کی۔دونوں کے امتزاج سے ہنر مندی کی انتہائی بلندیوں تک پہنچے۔یہ وہی دور ہے جب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو فرمایا علم حاصل کرو چاہے تمہیں چین جانا پڑے۔
حیرت اس بات پر ہے کہ اسلام میں فنی تعلیم کی اہمیت کو اجاگر کرنے کیلئے علمائے دین ، عربی پی ایچ ڈی سکالرز اور نہ ہی تبلیغی جماعت کے علماءنے مسلم ممالک کو فنی تعلیم رائج کرنے پر زور دیا۔اگر ماضی میں اتنی بڑی غلطی کا ارتکاب نہ ہوتا تو موجودہ خوفناک منظر نامہ مسلمانوں کے خلاف دیکھنے میں نہ آ رہا ہوتا۔آج مسلمانوں کا کونسا ملک ہے جو کفار کی چیرہ دستیوں سے بچا ہوا ہے۔ ہر مسلم ملک پر آئے دن بمباریاں ہوتی ہیں۔مسلمانوں میں نفا ق کی صورت پیدا کی جا رہی ہے۔اکثر ممالک کو آپس میں لڑایا جا رہا ہے۔
ان تمام سازشوں سے بچنے کیلئے ضروری ہے کہ مسلم ممالک فنی تعلیم کو رائج کرنے میں ذرہ برابر وقت ضائع نہ کریں۔تسخیر کائنات کے فلسفے پر عمل پیرا ہو کر ستاروں پر کمند ڈالنے کی طرف بڑھیں۔
یہ کسی المیہ سے کم نہیں کہ مسلم ممالک کی دینی درسگاہوں سے فارغ التحصیل ہونے والے لاکھوں نوجوان فتنی تعلیم سے نا آشنا ہیں اسکا مطلب یہ ہے کہ ان اداروں سے ایک بھی اللہ تعالیٰ کا دوست پیدا نہیں ہو سکا۔مسلم ممالک کے پاس دنیا کے چالیس فیصد وسائل موجود ہیںفنی ماہرین کی کمی کی وجہ سے ہمارے سارے وسائل غیر مسلموں کے استعمال میں ہیں۔اگر دینی درسگاہوں میں فنی تعلیم اور دوسری درسگاہوں میں اسلامی تعلیم لازمی قراردی جائیں تو دنیا کے چالیس فیصد وسائل مسلمان خود استعمال کرنے کے قابل ہو جائینگے۔
پچھلی صدی میں دنیا میں دو نظریاتی ملک معرض وجود میں آئے ، مسلمانوں کے لیے پاکستان اور یہودیوں کے لیے اسرائیل معرض وجود میں آئے۔پاکستان کا المیہ تو یہ ہے کہ قائد اعظم کو اللہ تعالیٰ نے اس ملک کو نظریاتی طور پر چلانے کا وقت ہی نہ دیاوہ پاکستان بننے کے گیارہ ماہ بعد اللہ تعالیٰ کو پیارے ہوگئے۔
 اس ملک کو دوسرا لیڈر ذوالفقار علی بھٹو ملا جس نے دشمن کی روزمرہ کی دھمکیوں سے بچنے کیلئے ملک کو نیو کلیئر پاور بنانے کیلئے ڈاکٹر قدیر خان کی قیادت میںایٹمی ادارہ قائم کیا۔
 پاکستان کا المیہ یہ ہے کہ ملک میں 70 فیصد جہالت ہے اور جو 30 فیصد تعلیم یافتہ ہیں ان میں فنی تعلیم نہ ہونے کے برابر ہے۔پنجاب آٹھ کروڑ آبادی کا صوبہ ہے اس میں گیارہ تعلیمی بورڈ ہیںجن میں فنی تعلیمی بورڈ صرف ایک ہے اس سے اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ ملک میں فنی تعلیم نہ ہونے کے برابر ہے۔دنیا میں مسلمانوں کی آبادی چوبیس فیصد اور وسائل چالیس فیصد ہیں۔ اگرمسلم ممالک کے حکمران ایماندار ، محنتی اور ذہین ہوتے تو مسلمان دنیا میں امیر ترین قوم ہوتی۔حقیقت یہ ہے کہ مسلمان دیگر قوموں کے مقابلے میںنہ صرف پستی کے عالم میں ہیںبلکہ آئی ایم ایف، ورلڈ بینک اور امریکہ کی ڈکٹیشن پر چل رہے ہیں۔
اس کے بر عکس اسرائیل کی کل آبادی صرف 81 لاکھ ہے لیکن تعلیم کی پابندی یہ ہے کہ ہر بچے کیلئے 3 سال کی عمر سے لے کر 18 سال کی عمر تک تعلیم لازمی قرار دے دی گئی ہے یہودی قوم کی فنی صلاحیت کا اندازہ اس سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ ایٹم اور ہائیڈروجن بم کے خالق، 70 فیصد نوبل انعام حاصل کرنے والے اور دنیا کی معیشت کو کنٹرول کررہے ہیں۔اس کا ثبوت یہ ہے کہ 81 لاکھ کی آبادی کے ملک نے مسلمانوں کی عبادت گاہ قبلہ اول پر قبضہ کر رکھا ہے42 کروڑ عرب مسلمانوںکے 22 ملک اسکا بال بھیگا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔پوری دنیا میں یہودیوں کی آبادی ایک کروڑ 60 لاکھ ہے اور مسلمانوں کی آبادی 1 ارب 60 کروڑ ہے۔ ایک کروڑ ساٹھ لاکھ یہودی ایک ارب ساٹھ کروڑ مسلمانوں پر بھاری ثابت ہو رہے ہیں۔ مسلمانوں کو یہ سمجھ کب آئیگی کہ ساری قوت فنی تعلیم میں ہے۔اگر مسلمان فنی طور پر اپنے آپ کو طاقتور بنا لیں تو مٹھی بھر یہودیوں کی کیا مجال کے مسلمانوں کی عبادت گاہ قبلہ اول پرقبضہ کریںاور مسلمانوں کی آبادی پر بمباری کریں۔۔جتنی جلدی اور زیادہ سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے دوست بنائے جائیںگے اتنی زیادہ قوت مسلمانوں میں پیدا ہو گی۔دینی درسگاہیں ہوں یا دوسرے تعلیمی ادارے ان میں فنی تعلیم سو فیصد رائج کرنی ہو گی۔اللہ تعالیٰ کے دوست ہی مسلمانوں کو جینے کا حق دلا کر با عزت زندگی گزارنے کے مواقع فراہم کریں گے۔مسلمان ممالک کے حکمرانوںپر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ ذاتی مفادات پر مسلم امہ کے مفادات کوترجیح دیں۔

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...