سیاسی قیادت کے رابطے جاری ،جماعت اسلامی کے وفد کی پی ٹی آئی قائدین ، متحدہ کے رہنمائوں کی طاہر القادری سے ملاقاتیں

اسلام آباد+ لاہور (اپنے سٹاف رپورٹر سے+ نوائے وقت رپورٹ+ خصوصی نامہ نگار+ خبر نگار+ ایجنسیاں) ملک میں جاری سیاسی بحران کے تناظر میں سیاسی جماعتوں کے قائدین میں رابطوں کا سلسلہ جاری ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان سے ٹیلی فون پر بات چیت کی، دونوں رہنمائوں نے موجودہ سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔ زرداری نے عوامی مسلم لیگ کے صدر شیخ رشید اور جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کو بھی فون کیا اور موجودہ صورتحال پر تبادلہ خیال کیا، زرداری کا 48 گھنٹوں میں سراج الحق سے یہ دوسرا رابطہ تھا۔ بی بی سی کے مطابق زرداری نے شیخ رشید سے کہا کہ وہ طاہر القادری اور عمران خان کو مذاکرات کے لئے آمادہ کریں۔ شیخ رشید کے مطابق انہوں نے سابق صدر کو بتایا کہ ’’عمران خان اور طاہر القادری بہت آگے نکل چکے ہیں دونوں رہنماؤں کو سمجھانا ان کے لئے ممکن نہیں۔ شیخ رشید نے بتایا کہ زرداری کا خیال ہے کہ دونوں جماعتوں کے رہنماؤں کو کچھ لو اور دو کی پالیسی کے تحت معاملے کو حل چاہئے اگر فیصلہ نہ کر پائے تو موجودہ نظام کو خطرہ لاحق ہو جائے گا۔ جماعت اسلامی کے وفد نے پی ٹی آئی کے رہنمائوں سے جہانگیر ترین کے گھر پر ملاقات کی۔ بعد ازاں پی ٹی آئی کے رہنما شاہ محمود قریشی نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مذاکرات سے متعلق سراج الحق سے تفصیلی بات چیت ہوئی ہے۔ مذاکرات میں ہمارا رویہ لچکدار تھا، ہمارا احتجاج پرامن ہے، جمہوریت ڈی ریل ہونے کی قیاس آرائیاں دم توڑ گئی ہیں۔ اس وقت حکومت سے بات چیت نہیں ہو رہی، چاہتے ہیں کہ موجودہ سیاسی ڈیڈ لاک سے باہر نکلا جائے۔ مائنس ون فارمولے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ ہم مثبت سوچ لے کر آگے بڑھے ہیں جتنی لچک دکھانی تھی دکھا دی، آئین سے ماورا اقدام کی حوصلہ افزائی نہیں کریں گے۔ مولانا فضل الرحمن کے بیانات سے امن متاثر ہو سکتا ہے۔ انتخابی اصلاحات کیلئے تیار ہیں، وزیراعظم کے استعفیٰ کی وجہ سے ڈیڈ لاک ہوئے خون خرابے کی قیاس آرائیاں ہو رہی تھیں ، تیسری قوت کی کوئی گنجائش نہیں۔ مخصوص ٹولہ ہوا دے رہا ہے اگر دھاندلی ثابت نہ ہوئی تو نواز شریف وزیراعظم کے عہدے پر واپس آ جائیں۔ سراج الحق نے کہا کہ تحریک انصاف نے اپنے روئیے میں لچک کا مظاہرہ کیا ہے فریقین میں یہ اتفاق پایا جاتا ہے کہ بات چیت کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ہے۔ تحریک انصاف کے رہنمائوں نے حکومتی کمیٹی کے ساتھ مذاکرات کی تفصیلات بتائیں، کچھ لوگ نعشوں کے انتظار میں تھے حکومت بھی چاہتی ہے کہ جتنا جلد ہو سکے بحران سے نکل آئیں، خوش آئند بات ہے کہ فریقین نے مذاکرات کا تیسرا رائونڈ مکمل کر لیا ہے تحریک انصاف نے اپنے کارکنوں کو پرامن رکھا ہے۔ فریقین کے صبر و تحمل کی وجہ سے تشدد کی خواہش کرنے والوں کو مایوسی ہو رہی ہے۔ تحریک انصاف اور حکومت کی پوزیشن کے درمیان بھی ایک راستہ ہو سکتا ہے۔ عدالت کا فیصلہ ہے کہ اگر 50 فیصد سے زائد حلقوں میں دھاندلی ہوئی ہے تو دوبارہ الیکشن کرائیں، یہ ایسی لڑائی ہے جس میں جو ایک قدم پیچھے جاتا ہے نمبر اسی کو ملتے ہیں۔ سپیکر سے درخواست کی ہے کہ تحریک انصاف کے استعفوں کو جلد منظور نہ کیا جائے ہمارے راستے میں کوہ ہمالیہ بھی ہو تو اسے عبور کر لیں گے۔ لاہور سے خصوصی نامہ نگار کے مطابق جماعت اسلامی اور جے یو آئی (س) نے اس امر پر اتفاق کیا ہے کہ کوئی بھی غیر آئینی اقدام ملک کیلئے تباہ کن ثابت ہوسکتا ہے، اسلام آباد میں سیاسی دھرنوں کو غیر شائستہ ناچ گانوں کا مرکز بنا کر نئی نسل کو بگاڑ اور اخلاقی بے راہ روی پر لگا دیا گیا سیاسی اور جمہوری کلچر میں مخالف پر تنقید کرنے کے بھی کچھ آداب ہوتے ہیں لیکن اسلام آباد دھرنوں میں دینی اور سیاسی قائدین کے خلاف جو غیر مہذب زبان استعمال کی جارہی ہے وہ انتہائی افسوسناک ہے، ملک کی تمام سیاسی قوتوں کو موجودہ بحران حل کرنے کیلئے اپنا کردار ادا کرتے رہنا چاہئے کیونکہ کوئی غیر آئینی اقدام ملک کو شدید خطرات سے دوچار کرسکتا ہے، آئین، پارلیمنٹ اور جمہوریت کا دفاع ہم سب پر فرض ہے۔ جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ نے اکوڑہ خٹک میں جے یو آئی (س)کے سربراہ مولانا سمیع الحق سے ملک کی موجودہ صورتحال پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔ ملاقات کے دوران جماعت اسلامی کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل فرید احمد پراچہ ،جے یو آئی س کے صوبائی امیر مولانا سید یوسف شاہ اور جماعت اسلامی ضلع نوشہرہ کے امیر معراج الدین خان بھی موجود تھے۔ دونوں رہنمائوں نے اس امر پر تشویش کا اظہار کیا کہ اسلام آباد دھرنوں کی وجہ سے شمالی وزیر ستان آپریشن کے نتیجے میں بے گھر ہونے والے لاکھوں افراد کو درپیش مشکلات اور مسائل پس منظر میں چلے گئے ہیں۔ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین سے وفاقی وزیر خواجہ سعد رفیق نے فون پر رابطہ کیا اور موجودہ سیاسی صورت حال پر تبادلہ خیال کیا۔ الطاف حسین نے خواجہ سعد رفیق سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کسی سے بھی بات چیت کے دروازے بند نہ کیے جائیں معاملات کو افہام و تفہیم سے حل کیا جائے۔ خواجہ سعد رفیق نے بات چیت کا عمل جاری رکھنے کے سلسلے میں الطاف حسین کے موقف کو درست قرار دیا اور کہا کہ حکومت موجودہ سیاسی بحران کو مذاکرات سے حل کرنے کی پوری کوشش کررہی ہے۔ سعد رفیق نے طاہرالقادری سے ہونے والی ملاقات سے بھی الطاف حسین کو آگاہ کیا۔ دریں اثناء سراج الحق نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ اور نظام محاصرے میں ہے۔ چاہتے ہیں کہ بحران جلد حل ہو جائے فریقین سے کہا ہے کہ کسی بھی نظام میں بڑے لوگوں کے وارے نیارے ہوتے ہیں شورش اور حالات خراب ہوں تو غریب پر اس کا فرق پڑتا ہے وفاقی حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان فاصلے کم ہو گئے ہیں عوام کا بھی پیغام ہے کہ اس بحران کا حل نکالا جائے۔ حکومت، تحریک انصاف اور عوامی تحریک اپنے معاملات خود طے کریں تو زیادہ بہتر ہو گا۔ ہمارے ذہنوں میں جو تجاویز ہیں اس پر فریقین کو غور کرنا چاہئے۔ ق لیگ کے صدر چودھری شجاعت حسین سے جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل لیاقت بلوچ کی سربراہی میں وفد نے ملاقات کی اور موجودہ ملکی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔ اس موقع پر سینیٹر کامل علی آغا، سینیٹر سعید مندوخیل، طارق بشیر چیمہ ایم این اے، چودھری ظہیرالدین، احمد یار ہراج اور اجمل وزیر بھی موجود تھے جبکہ جماعت اسلامی کے وفد میں فرید احمد پراچہ اور میاں اسلم شامل تھے۔ چودھری شجاعت حسین نے میڈیا سے گفتگو میں اپنے شہید والد کے متعلق لیاقت بلوچ کے نیک کلمات کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ بحران کا حل نکل سکتا تھا اگر ہم پارٹی نہ ہوتے، وقت وقت کی بات ہے جس دن وزیراعظم نے تقریر کی تھی ان کو چاہئے تھا کہ وہ اسی دن سانحہ ماڈل ٹائون کی ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیتے مگر انہوں نے شہبازشریف کو وزیراعلیٰ نہیں اپنا بھائی سمجھا اگر وہ چیف منسٹر سمجھتے اور اسے بچانے کے بجائے ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیتے تو حکومت کے آج یہ حالات نہ ہوتے، لیاقت بلوچ نے قبل ازیں کہا کہ چودھری ظہورالٰہی شہید ملک کی سیاست کا بڑا معتبر نام ہے۔
اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ) ایم کیو ایم کے وفد نے فاروق ستار کی قیادت میں طاہر القادری اور چودھری شجاعت سے ملاقات کی۔ ایم کیو ایم کے وفد میں خالد مقبول صدیقی، فاروق ستار، حیدر عباس رضوی اور بابر غوری شامل تھے۔ ایم کیو ایم کا وفد طاہر القادری اور چودھری شجاعت سے ملاقات کے بعد روانہ ہوگیا۔ حیدر عباس رضوی نے کہا کہ طاہر القادری کی ڈیڈ لائن پر تشویش ہے، مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، ہم چاہتے ہیں حالات ایسے نہ ہوں جس سے ملک کو نقصان پہنچے۔ جاننے آئے ہیں کہ طاہر القادری کا کونسا مطالبہ کتنا مانا گیا۔ حالات تشویشناک ہیں آئندہ 48 گھنٹے اہم ہیں۔ طاہر القادری نے 48 گھنٹے بعد کے پلان کا نہیں بتایا۔ بڑی تعداد میں عوام کا ایک جگہ جمع ہونا مسائل کو جنم دے رہا ہے۔ دریں اثناء ایم کیو ایم نے سیاسی بحران کے حل کیلئے سینئر ارکان پر مشتمل ٹیم تشکیل دیدی ہے۔ الطاف حسین کا کہنا ہے اگلے 72 گھنٹے انتہائی اہم ہیں، ہمیں اب انتہائی تیزرفتاری سے فیصلے کرنے ہونگے۔ الطاف حسین نے ایک بار پھر حکومت اور احتجاجی دھرنا دینے والی جماعتوں سے مطالبہ کیا کہ ملک کی نازک صورتحال کا سنجیدگی سے احساس کریں، حکومت اور اپوزیشن بامعنی بھارت چیت کے ذریعے مسائل کو حل کریں، ملک کو اندرونی و بیرونی چیلنجوں کا سامنا ہے، اب تک قومی خزانے کو 800 ارب روپے سے زائد کا نقصان پہنچ چکا ہے۔ایم کیو ایم کے وفد نے ق لیگ  کے صدر چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الٰہی سے ملاقات کی جس میں ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ خالد مقبول صدیقی نے ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہاکہ الطاف حسین کی ہدایت پر رابطہ کمیٹی کے ارکان اسلام آباد آئے ہیں۔ پہلے دن سے اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ طاہر القادری کے کئی مطالبات ایسے ہیں جنہیں مانا جا سکتا ہے، ہماری کوشش ہے تصادم نہ ہو۔ سانحہ ماڈل ٹائون کا مقدمہ طاہر القادری کی درخواست پر درج کیا جانا چاہئے۔ پرویزالٰہی نے کہاکہ نواز، شہبازشریف  استعفیٰ دیدیں تو مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...