جنرل ایوب خان نے 1958ء میں پہلا مارشل لاء نافذ کیا اور بنیادی جمہوریت کا نظام متعارف کروایا اور 1959ء میں بنیادی جمہوریت کا آرڈیننس نافذ کیا۔ اور 1961ء میں ایک حکومتی بیان کے ذریعے بنیادی جمہوریت کے مقاصد فرائض اور حدود کی وضاحت کی۔ ایوب خان نے اس نظام کو عوام کی سیاسی اور سماجی تربیت گاہ قرار دیا۔ اور پھر 1962ء کے آئین میں اس نظام کو انتخابی کالج کا درجہ دیا گیا۔ اُس وقت بنیادی جمہوریت کے آراکین کی تعداد 80ہزارتھی۔ 1963ء میں دیہی ترقیاتی پروگرام شروع کیے گئے تاکہ بلدیاتی نظام کے ذریعے سے بنیادی سہولیات کی فراہمی دیہات میں بھی یقینی بنائی جاسکے۔ ایوب خان کے بعد1969ء میں ون یونٹ کو ختم کرکے بلدیاتی نظام کو ازسرنو منظم کیا گیا۔ بھٹو صاحب نے چار ایکٹ بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے منظور کیے۔ 1972ء میں سندھ اور سرحد کے ایکٹ منطور کیے گئے اور 1975میں پنجاب اور بلوچستان کے ایکٹ منظور کیے گئے۔ اس دور میں قوانین کی منظوری کے ساتھ ساتھ علاقائی انتخابات کے ڈھانچے کو بھی بہتر کیا گیا اور اس دور میں دیہی کونسلیں۔ عوامی میونسپل کمیٹیاں عوامی ٹائون کمیٹیاں اور عوامی محلہ کیمٹیاں قائم کی گئی تاکہ لوگوں کی حقیقی فلاح کے لیے پیپلز ورکس پروگرام کو عملی جامہ پہنچایا جاسکے۔ جنرل ضیاالحق نے عنان حکومت سنبھالا۔ ایک آرڈیننس کے ذریعے1979ء میں مقامی حکومتی نظام کو نافذ کیا گیا بلدیاتی حکومت کے اس نظام نے افسر شاہی کے روایتی رویے سے عوام کو آزاد کروایا۔ بلدیاتی اداروں کو وسیع انتظامی اختیارات دیے اور مالیاتی احتیارات میں بھی توسیع کی گئی۔ جس کے ساتھ ساتھ دیہی علاقوں میں پنچایتی نظام کو مؤثر بنایا گیا۔ اس کے بعد نواز شریف اور محترمہ بینظیر بھٹو کو دو دو مرتبہ موقع ملا اور وزارتِ عظمیٰ نصیب ہوئی مگر افسوس سے یہ بات کہنی پڑھ رہی ہے کہ ان کی ترجیحات میں بلدیاتی انتخابات کی جگہ کچھ اور تھا۔1999ء میں جنرل پرویز مشرف نے نوازشریف حکومت پر شبِ خون مارا اور ایک منتخب حکومت کو لمبی چھٹی پر بھیج دیا اور خود اقتدار کا جھولا جھولنے لگا اس نے بھی سابقہ جرنیلوں کی طرح 2000ء میں مقامی حکومتی آرڈیننس جاری کیا اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ضلعی حکومتی نظام متعارف کروایا جس میں اختیارات کو نچلی سطح تک منتقل کیا گیا اور اختیارات کا دائرہ کار مزید وسیع کرتے ہوئے ضلع کی افسر شاہی کو منتخب نمائندوں کے تابع کر دیا گیا جس سے مقامی حکومتی نظام کو مضبوطی میسر آئی اور ترقیاتی کام عروج پر پہنچ گئے جس میں سڑکوں ،پُلوں اور نالوں کی تعمیر ان کی دیکھ بھال ۔تعلیم اور صحت کے مراکز اور کھیل کے میدانوں پر توجہ دی گئی اور عوام الناس کی زندگی میں واضع بہتری نظر آنے لگی۔ اور اس کے علاوہ بڑے بڑے محکمہ جات کو بھی ضلعی حکومت کے کنٹرول میں دے دیا گیا۔
چونکہ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو قومی علاقائی اور بین الاقوامی دبائوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اس لیے وہ براہِ راست عوام کے مسائل کا ادراک کرنے سے قاصر ہیں اور ان سے علاقائی مسائل جوں کے توں رہتے ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اگر ان پر مناسب توجہ اور فنڈز نہ دیے جائے تو یہ مسائل بہت جلد قومی مسائل بن جاتے ہیں جو مختلف الاطرافی سانحات کو جنم دیتے ہیں اور تاریخ گواہ ہے کہ یہ سانحات کئی منتخب حکومتوں کو کھا جاتے ہیں اور آمریت کو جمہوریت چمکانے کا موقع مل جاتا ہے اور بوٹوں والے کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے اور اپنی آمریت کے بل بوتے پر جمہوریت کی نرسری کے ڈھانچے کو قائم کرتے ہیں اور یہ دلچسپ حقیقت دنیا کے سوچ و بچار رکھنے والے لوگوں کو مختلف پیغامات دیتی ہے جس سے ہماری ساخت بقاء اور شناخت کو قوم اور ریاست کی سطح پر ناقابل تلافی نقصان ہوتا ہے جس سے علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر ہمارے قومی تشخص پر منفی اثر پڑتا ہے۔ بنیادی تعلیم صحت روزگار اور پینے کے صاف پانی وغیرہ سے متعلق معملات بلدیاتی حکومتوں کے دائرہ کار میں آتے ہیں چونکہ ہمارے ہاں نظام مہذب اور ترقی یافتہ ممالک سے مختلف ہے تاریخ بتاتی ہے کہ آمریت کے ادوار میں بنیادی جموریت کو قائم کرنے کی عملی کوششیں کی گئیں اور خالصتاً جمہوری ادواروں میں اس سے مکمل پرہیز کیا گیا اور آج تک ہماری جمہوری اور منتخب حکومتوں کی ترجیحات میں مقامی حکومتیں شاید کہی آخری نمبر پر ہیں۔