وطن عزیز میں اپریشن ضربِ عضب کامیابی سے پایہ تکمیل کو پہنچ رہا ہے۔ منظم گروہوں اور انہیںسپورٹ کرنے والے انڈین خفیہ نیٹ ورکس کو تباہ کیا جا چکا ہے۔ ٹوٹے پھوٹے گروپس کیلئے کومبنگ اپریشن اور سہولت کاروں کے گرد گھیرا تنگ کیا جا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہیCPECپر ثابت قدمی سے پیش رفت جاری ہے۔ یہ صورت حال کسی طرح بھی بھارت کو ہضم نہیں ہو سکتی۔ میں نے اپنے یکم جولائی کے کالم ’’بھارتی فرسٹریشن کے تناظر میں‘‘انڈین سٹریٹیجک ناکامیوں کا جائزہ لیتے ہوئے لکھا تھا کہ وہ اس فرسٹریشن میں کوئی بھی حرکت کرسکتا ہے کیونکہ اسکے پاس Mischief Capacity ابھی باقی ہے۔
سانحۂ طورخم اور اس پر پاکستانی ردِ عمل کے بعد انڈیا کو یہ احساس ہوا کہ شائد اس علاقے میں اب بڑی واردات کروانا مشکل تھا لہٰذا اس نے بلوچستان کا رخ کیا۔ جہاں قدرے سکون ہو چلا تھا اور لوگ گوادر اور CPECپر کام کی وجہ سے فوج کے کافی قریب آچکے تھے یہاں تک کہ ایجنسیوں کے خلاف کیا جانے والا پروپیگینڈہ بھی ماند پڑ گیا تھا۔اس ماحول میں ارتعاش پیدا کرنے کیلئے سکیورٹی فورسز یا کسی عمومی جگہ پر حملہ ناکافی تھا۔ لہٰذا وکلاء کو ہدف بنایا گیا اور نہایت عمدہ پلاننگ کے ساتھ 61وکلاء کی شہادت اور درجنوں کو زخمی کر کے عدل کے ایوانوں کو مفلوج کر کے رکھدیا گیا۔پورے ملک میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی اور نیشنل ایکشن پلان پر پھر سے زیادہ سرعت کے ساتھ عملدرآمد شروع کر دیا گیا۔صوبائی ذمہ داریوں سے چشم پوشی کرتے ہوئے گورنر بلوچستان کے بھائی اور ممبر قومی اسمبلی محمود خان اچکزئی نے جوکہ پہلے ہی اس خطے کو افغانیوں کی ملکیت بتا چکے تھے،’را‘ کو بری الذمّہ قرار دیتے ہوئے اس سانحہ کی ساری ذمہ داری وفاقی ایجنسیوں پر ڈالنے کی کوشش کی۔ چونکہ عوام ان کے ہمنوا نہ بن سکے اسلئے بھارت کو یہاں متو قع کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔ پھر جب مودی نے مقبوضہ کشمیر کی بلوچستان سے مماثلت کا بیان دیا تو اس کے خلاف بستی بستی احتجاجی ریلیوںنے ہندوستان کے وار کو مکمل طور پر بے اثر کردیا۔
اب رخ کراچی کی طرف کیا جاتا ہے جہاں ایم کیو ایم کے قائد کا ہندوستان کا بغل بچہ ہونا اور پارٹی کے عسکریت پسندوں کا ان کے ہاں تربیت پانا اب کوئی راز نہیں رہا۔ اپریشن کے دوران رینجرز کو ایسی شہادتیں میسر آئی تھیں جن کے سبب ان کے میئر کے نامزد امیدوار وسیم اختر کو گرفتار کر لیا گیا۔ اس پر احتجاج کو بھوک ہڑتال کی شکل دے دی گئی۔ لہٰذا سٹیج سیٹ تھا ۔احتجاج کے پانچویں دن ایم کیو ایم کا ایک وفد وزیراعلیٰ سندھ سے ملا جس نے انہیں ہر طرح سے انصاف کی یقین دہانی کرائی۔ وفاقی وزیر پرویز رشید بھی کراچی میں ان سے ملے اور وزیراعظم سے ملاقات کے وقت کا تعین وغیرہ کیا۔ معاملات حل کی جانب بڑھ رہے تھے کہ الطاف حسین نے بھوک ہڑتالیوں کے کیمپ کو ایسا خطاب کر ڈالا۔ جو مادرَ وطن اور اس کے وفاداروں کیلئے مغلظات کے علاوہ کھلی بغاوت اور انڈین سوچ کا بر ملا اظہار تھا۔ خطاب کے آخر میں اس نے واشگاف الفاظ میں جلاؤ گھیراؤ کرنے اور تین پرائیویٹ ٹی وی چینلز پر حملے کا حکم دے دیاجسکی فوراً تعمیل ہوئی۔ ایک راہ گیر ہلاک ہوگیا۔ کئی گاڑیاں جل گئیں اور میڈیا ہاؤسز کا خاصا نقصان ہوا۔ رینجرز اور پولیس نے متحدہ کے ڈاکٹر فاروق ستار سمیت کئی لوگ گرفتار کر کے حالات پر قابو پالیا۔ الطاف حسین نے حکومت اور MQMکے درمیان مصالحت کی طرف پیش قدمی کو سبوتاژ کردیا مگر کارکنوں کی لاشیں لینے میں ناکام رہا جو گرانی تو اس کے اپنے ’را‘ کے ایجنٹوں نے تھیں مگر نام فورسز کا آنا تھا۔ اس کی بنا پرلگی آگ کو زیادہ عرصے کیلئے بھڑکایا جا سکتا۔
آرمی چیف نے رینجرز کو فوری طور پر امن بحال کرنے کا حکم دیا۔رینجرز نے MQMسیکریٹریٹ 90کو سرچ کرکے سیل کردیااور مختلف جگہوں پر چھاپے مارکر اسلحہ اور شر پسند گرفتار کئے۔8گھنٹے کی حراست کے بعد فاروق ستار کو چھوڑ دیا گیا۔ انہوں نے اپنے رفقاء کے مشورے سے فوراً پریس کانفرنس کی جس میںالطاف حسین کے بیان سے لا تعلقی ادراس پر ندامت کا اظہار کرتے ہوئے اسے فاتر العقل قرار دیا۔فاروق ستار نے اعلان کیا کہ جب تک الطاف کی ڈہنی صحت ٹھیک نہیں ہوجاتی پاکستان میں متحدہ کے معاملات اور فیصلے وہ خودرابطہ کمیٹی کی مشاورت سے کریںگے اور ان کا کسی طرح سے بھی لندن سے تعلق نہ ہوگا۔اُدھر الطاف حسین نے بھی حسب سابق صاف لفظوں میں ندامت کے اظہار کے ساتھ معافی مانگ لی۔ حکومت نے بالغ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے MQMکے خلاف بطور پارٹی ایکشن لینے کی بجائے صرف جرائم اور شرانگیزی میں براہِ راست ملوث افراد کے خلاف قانونی طور پر سخت کاروائی کا حکم دیا۔ بہت سارے لوگ اسے متحدہ کی چالاکی سمجھ رہے ہیں جو اگر ہے بھی تو میری نظر میں اس سے قوم کوانتشار کی ایک ایسی خطرناک صورت حال سے بچا لیا گیا ہے جسکا فائدہ انڈیا اٹھاتا۔ متحدہ کی اکثریت الطاف حسین کے اس بیان کو نفرت کی نگاہ سے دیکھتی ہے جنہیں قوم کی طرف سے حوصلہ افزائی ملنی چاہیے نہ کہ خوف۔ بہر حال قومی وقار اور غیرت پر حملے کا یہ کیس بین الاقوامی سطح پر واضح ہے اور امید ہے حکومت اس پر واقعی سخت ایکشن لے گی۔ اس وقت تک تو برطانوی حکومت کے ساتھ ہلچل مچائی جا چکی ہونی چاہیے تھی۔
کراچی میں’را‘ کا نیٹ ورک بلا شبہ متحدہ کے رینکس کے اندر موجود ہے جو خاموشی سے بیٹھ نہیں جائے گا وہ متحدہ کے اِدھر ُادھر ہوجانے والے چھوٹے لیڈروں کی تنظیم نو کرے گا۔فاروق ستار کے بیان کی نئی شرحیں نکال کر اسے رد کرنے کی مہم بھی شروع ہو جائیگی اور اگر الطاف حسین کا معافی نامہ اسکے ذہنی دباؤ کی وجہ سے پاکستان میں تسلیم کر لیا جاتا ہے تو یہی موقف اسکی برطانوی عدالتوں میں دفاع کرے گا۔
23اگست کو’’ انڈیا نیوز ‘‘چینل پر ایک پروگرام میں شمولیت کا اتفاق ہوا۔ ان کا سارا زور اس پروپیگینڈے پر تھا کہ ایک طرف کراچی میں پاکستان .....(خاکم بدہن) کے نعرے گونج رہے ہیں اور دوسرا ان کے مطابق امریکی ذرائع نے کنفرم کیا ہے کہ داؤد ابراہیم کو پاکستان نے کراچی میں رکھا ہوا ہے۔لہٰذا وہ جلدہی UNOمیں یہ کیس لیکر جا رہے ہیں کہ پاکستان کو ایک دہشت گرد ملک ڈکلیئر کروایا جائے۔الفاظ تقریباً وہی تھے جو الطاف حسین نے کہے، سوائے ان نعروں کے، جنہیں وہ ہمارے سامنے نہیں کہہ سکتے تھے۔ پروگرام کے بعد سے ایک سوال شدت سے مضطرب کئے ہوئے ہے کہ ہم سب کچھ جانتے ہوئے ہندوستان نوازی میں کیوں نڈھال ہوتے جارہے ہیں۔ نہ تو انڈیا کے پاس ہمارے لئے کوئی سلک روٹ ہے اور نہ ہی کوئی ایک بھی چیز جسکی ان کے ساتھ تجارت سے ہمیں فائدہ ہو سکتا ہو۔ الطاف حسین جیسے لوگوں کیلئے تو مرحومہ پروین شاکر کا یہ شعر یاد آتا ہے۔
تہمت لگا کے ماں پہ جو دشمن سے داد لے
ایسے سخن فروش کو مرجانا چاہیے
فرسٹریشن کا شکار بھارت اپنی محدود تخریبی صلاحیت کے ساتھ ہم پر ہر سمت سے حملے کر رہا ہے جسکا فی الوقت منہ توڑ جواب دیا گیا ہے۔ اگر ہم اپنی صفوں میں سے بھارت نوازی کے وائرس سے متاثرہ لوگوں کو علیحدہ کرکے اپنی سفارتکاری کو جارح ، اور عوامی شمولیت سے اپنی گلیوں کو محفوظ بنا لیں تو انڈین تخریب کاری پاکستان کی ترقی کا راستہ کسی بھی طرح نہیں روک سکے گی۔