ملائکہ

Aug 26, 2016

رضا الدین صدیقی

علامہ بیضاوی لکھتے ہیں: ’’ملائکۃ‘‘ کا لفظ ’’ملاک‘‘ کی جمع ہے‘ یہ ’’الوکۃ‘‘ سے بنا ہے‘ جسکا معنی رسالت (پیغام پہنچانا) ہے کیونکہ ملائکہ اللہ تعالیٰ اور لوگوں کے درمیان واسطہ ہیں ان میں سے بعض حقیقۃ رسول ہیں، مثلا جو فرشتے خود ان کیلئے رسول ہیں، انکی حقیقت میں عقلاء کا اختلاف ہے اور اس پر سب کا اتفاق ہے کہ یہ جوہر ہیں جو قائم بذاتہ ہے اکثر مسلمانوں کا یہ نظریہ ہے کہ یہ اجسام لطیفہ ہیں جو مختلف شکلوں میں متشکل ہونے پر قادر ہیں، کیونکہ انبیاء کرام انکو اسیطرح دیکھتے تھے، انکی دو قسمیں ہیں: ایک وہ ہیں جو ہر وقت اللہ تعالیٰ کی معرفت میں مستغرق رہتے ہیں جیسا کہ قرآن مجید میں ہے: ’’وہ رات اور دن اسکی تسبیح کرتے ہیں اور تھکتے نہیں ہیں‘‘ (الانبیائ: ۰۲) ان فرشتوں کو علیین اور ملائکہ مقربین کہا جاتا ہے اور دوسری قسم وہ ہے جو آسمانوں اور زمینوں میں اللہ تعالیٰ کے تکوینی نظام کی تدبیر کرتے ہیں اور اس میں اللہ تعالیٰ کے حکم کی سرمو مخالفت یا نافرمانی نہیں کرتے، قرآن مجید میں ہے: ’’وہ اللہ کے کسی حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہی کرتے ہیں جسکا انہیں حکم دیا جاتا ہے‘‘ (التحریم: ۶) ان فرشتوں کو ’’المدبرات امرا‘‘ کہا جاتا ہے، ان میں سے بعض فرشتے آسمانوں کے تکوینی نظام کی تدبیر کرتے ہیں اور بعض زمین کے تکوینی نظام کی تدبیر کرتے ہیں۔
محمد رشید رضا المصری لکھتے ہیں: ’’سلف صالحین نے فرشتوں کے متعلق یہ کہا ہے کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہیں، اللہ تعالیٰ نے انکے وجود کی اور انکے بعض کاموں کی خبر دی ہے جس پر ہمیں ایمان لانا واجب ہے اور یہ ایمان لانا انکی حقیقت کے جاننے پر موقوف نہیں ہے، اسلئے ہم انکی حقیقت کا علم اللہ کے حوالے کرتے ہیں، جب شریعت میں یہ وارد ہے کہ فرشتوں کے پر ہیں تو ہم اس پر ایمان لاتے ہیں، لیکن ہم یہ کہتے ہیں کہ ہمیں ان پروں کی کیفیت کا علم نہیں ہے، اور جب شریعت میں یہ وارد ہے کہ فرشتے سمندروں اور سبزہ زاروں پر مقرر کئے گئے ہیں تو ہم اس سے یہ استدلال کرتے ہیں کہ اس کائنات میں اس عالم محسوس سے زیادہ لطیف ایک اور عالم ہے اور اس عالم میں فرشتے اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں اور عقل کے نزدیک یہ جائز ہے اور وحی اسکی تصدیق کرتی ہے‘‘۔
فرشتے جو محیر العقول کارنامے انجام دیتے ہیں اور ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں آسمان سے زمین پر پہنچ جاتے ہیں اور آسمانوں کی خبریں زمین تک پہنچاتے ہیں سائنس کی ترقی اورکمپیوٹر کے اس دور میں اسکا سمجھنا آسان ہو گیا، جب خلائی سیاروں اور برقی لہروں کے نزدیک ایک براعظم سے دوسرے بعید براعظم تک ایک آن میں آواز اور تصویر پہنچ سکتی ہے اور چاند سے زمین پر ٹیلی فون سے گفتگو ہو سکتی ہے تو فرشتوں کے تصرفات اور نظام عالم میں انکی تدبیروں کا واقع ہونا اب بعید از فہم نہیں رہا۔ (تبیان القرآن)

مزیدخبریں