الطاف سے علیحدگی اختیار کرنیکے داعی متحدہ کے عہدیداروں کو ان کیخلاف خود مقدمے درج کرانے چاہئیں

Aug 26, 2016

اداریہ

چودھری نثار کا الطاف کیخلاف شواہد برطانیہ بھجوانے کا اعلان اور سیاسی و عسکری قیادتوں کا سخت کارروائی کا عزم
وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے گزشتہ روز کراچی میں گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد سے ملاقات کی اور ان سے کراچی اپریشن کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا۔ اس دوران دونوں رہنمائوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ پاکستان کی سالمیت پر کسی صورت آنچ نہیں آنے دی جائے گی اور ملک کے خلاف بات کرنے والوں سے سختی سے نمٹا جائے گا۔ اسی طرح امن و امان کے لئے مسئلہ پیدا کرنے والوں کے خلاف سخت ترین کارروائی کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ صوبہ میں امن کے قیام کے لئے رینجرز نے بے شمار قربانیاں دی ہیں جنہیں رائیگاں نہیں جانے دیا جائے گا۔ چودھری نثار نے کہا کہ شہر کے امن و امان کو ہر صورت برقرار رکھا جائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ الطاف حسین کے خلاف ریفرنس حکومت برطانیہ کو بھجوایا جا رہا ہے جس پر چند روز میں کارروائی شروع ہو جائے گی۔ ان کے بقول ایک شخص کی فون کال پر کراچی کو یرغمال بنانے کی قطعاً اجازت نہیں دی جائے گی اور میڈیا ہائوسز کی سکیورٹی کو بھی یقینی بنایا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ الطاف نے اس ملک کے خلاف ہرزہ سرائی کی جس نے انہیں عزت دی جبکہ ان کی تقریر نے تمام راز فاش کر دئیے۔ بعدازاں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ایم کیو ایم پر پابندی کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ہم قانونی راستہ دیکھیں گے اور صوبائی حکومت جو فیصلہ کرے گی، وفاق اس کی تائید کرے گا۔ دریں اثنا وفاقی وزیر داخلہ کی وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سے ملاقات کے دوران بھی اس امر پر اتفاق کیا گیا کہ پاکستان کے خلاف تقاریر کرنے پر الطاف حسین کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔
گزشتہ روز اسلام آباد میں وزیراعظم نواز شریف کی زیر صدارت منعقدہ اجلاس میں بھی جس میں وفاقی وزراء اور آرمی چیف جنرل راحیل شریف سمیت اعلیٰ سول و عسکری قیادتیں شریک تھیں، اس عزم کا ہی اظہار سامنے آیا ہے کہ کراچی اپریشن کے مثبت اثرات ضائع ہونے دیں گے نہ کسی کو ملک غیر مستحکم کرنے کی اجازت دی جائے گی۔ اسی طرح الطاف حسین کی پاکستان مخالف تقریر کی بنیاد پر ان سے علیحدگی اختیار کرنے والے ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار اور دوسرے عہدیداران بھی کراچی میں امن کی بحالی کے عزم کا اظہار کر رہے ہیں اور الطاف حسین کی سیاست سے ایم کیو ایم کی علیحدگی کا عندیہ بھی دے رہے ہیں جس کے لئے فاروق ستار اور نسرین جلیل نے دعویٰ کیا ہے کہ الطاف حسین نے اختیارات رابطہ کمیٹی کے سپرد کر دئیے ہیں اور لندن میں مقیم ایم کیو ایم رابطہ کمیٹی کے ارکان نے بھی یہ فیصلہ تسلیم کر لیا ہے۔ اگر فی الواقع ایسا ہے تو اس سے بادی النظر میں یہی تاثر ملتا ہے کہ الطاف حسین کی سیاست سے اختلاف کا اظہار کرتے ہوئے ڈاکٹر فاروق ستار اور ان کے ساتھیوں نے ان سے بغاوت نہیں کی بلکہ ایم کیو ایم کے سارے تنظیمی معاملات الطاف حسین کی مشاورت سے ہی طے ہوئے ہیں جس کے بارے میں خود متحدہ کے حلقوں کی جانب سے عندیہ دیا جا رہا ہے کہ یہ ایم کیو ایم کو کسی بڑی مصیبت سے بچانے کے لئے عارضی انتظام ہے اور الطاف حسین ہی ایم کیو ایم متحدہ کے اصل قائد ہیں۔ چنانچہ متحدہ رابطہ کمیٹی کے ارکان کی اس پینترا بدلتی پالیسی اور حکمت عملی سے یہ قطعاً نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ متحدہ میں ’’مائنس ون‘‘ فارمولے پر عمل کرتے ہوئے اس کی الطاف حسین سے گلوخلاصی کرا لی گئی ہے بلکہ فی الحقیقت الطاف حسین ہی بدستور متحدہ کے قائد ہیں جو متحدہ کو کسی قانونی کارروائی سے بچانے کے لئے وقتی طور پر پس منظر میں چلے گئے ہیں اور متحدہ کے لئے حالات سازگار ہونے پر وہ پھر للکارے مارتے متحدہ کی قیادت سنبھال لیں گے۔
اس تناظر میں تو ایسی کسی خوش فہمی کی قطعاً گنجائش نہیں نکلتی کہ متحدہ نے الطاف کی سیاست سے مکمل علیحدگی اختیار کر لی ہے۔ اس کے لئے فاروق ستار اور ان کے ساتھی متحدہ کے دوسرے ارکان کو دوٹوک الفاظ میں الطاف کی سیاست کی مذمت کرنا ہو گی اور پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی پر ان کے خلاف مقدمات درج کرا کے قانونی کارروائی کا بھی خود تقاضہ کرنا ہو گا بصورت دیگر انہیں پاکستان مخالف سیاست میں الطاف حسین کا ساتھی ہی سمجھا جائے گا جس کی بنیاد پر وہ خود بھی قانون کے شکنجے سے نہیں بچ سکتے۔ یہ طرفہ تماشا ہے کہ الطاف حسین نے پاکستان اور افواج پاکستان کے خلاف اپنی ہرزہ سرائی سے ایم کیو ایم کی سیاسی بقا کو آزمائش میں ڈالنے کے باوجود عقل کے ناخن نہیں لئے اور انہوں نے گزشتہ روز کینیڈا اور امریکہ میں مقیم متحدہ کے کارکنوں سے بذریعہ ٹیلی فونک لنک خطاب کرتے ہوئے پہلے سے بھی زیادہ سخت پاکستان مخالف الفاظ استعمال کئے اور خاکم بدہن پاکستان کو توڑنے کے لئے اپنے کارکنوں کو اسرائیل، امریکہ اور بھارت سے رابطے کرنے کی ہدایت کی، آج ان کی سیاست سے علیحدگی کا اعلان کرنے والے متحدہ کے ارکان ان کی پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کا یہ کہہ کر دفاع کر رہے ہیں کہ ممکن ہے کسی ذہنی بائو کی بنیاد پر انہوں نے قابلِ اعتراض الفاظ استعمال کئے ہوں جبکہ بعض حکومتی حلقوں میں بھی اسی تناظر میں خوش گمانیاں نظر آ رہی ہیں کہ الطاف سے علیحدگی اختیار کرنے والی ایم کیو ایم پاکستان اب معاملات کو سنبھال لے گی جبکہ الطاف حسین بدستور اپنی ذہنی پسماندگی کا اظہار کر رہے ہیں۔ اگر وہ خاکم بدہن پاکستان کو توڑنے کے عزائم رکھتے ہیں اور اس کے لئے اسرائیل، بھارت اور امریکہ سے معاونت طلب کر رہے ہیں تو بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ پاکستان کی سالمیت کمزور یا ختم کرنے کے کس کے ایجنڈہ کی تکمیل چاہتے ہیں اور کیا اسے محض ان کا ذہنی خلجان قرار دیا جا سکتا ہے۔ اگر ایم کیو ایم کی تشکیل سے اب تک کی ان کی سیاست کا جائزہ لیا جائے تو اس میں حب الوطنی کا کوئی عنصر جھلکتا نظر نہیں آتا جبکہ پاکستان کے پرچم کو آگ لگانے کے جرم میں ان کے خلاف 90ء کی دہائی میں مقدمہ درج ہوا تھا۔ اگر انہوں نے متحدہ کے پلیٹ فارم پر اب تک گھیرائو جلائو، تشدد، توڑ پھوڑ اور قتل و غارت گری کی سیاست کی ہے جس کا اصل مقصد پاکستان کی سالمیت کو کمزور کرنے کا ہے اور آج بھی وہ اسی سیاست پر کاربند ہیں تو کیا ان کے راہ راست پر آنے کی کسی خوش فہمی کی گنجائش نکل سکتی ہے؟
بے شک ان کے خلاف ماضی میں بھی سنگین فوجداری مقدمات درج ہوتے رہے ہیں اور اب بھی مختلف شعبہ ہائے زندگی کے لوگوں کی جانب سے ان کے خلاف مقدمات درج کرانے کے ساتھ ساتھ ہائیکورٹ اور سپریم کورٹ سے بھی رجوع کیا گیا ہے مگر اپنی ساری بدخصلتیوں کے باوجود وہ اب تک قانون کے شکنجے سے بچے ہوئے ہیں اور اب برطانوی شہری کی حیثیت سے وہ پاکستان توڑنے کی سازشوں پر بھی خود کو کسی قانونی کارروائی سے محفوظ سمجھ رہے ہیں تو یہ صورتحال قانون و انصاف کی عملداری میں کمزوری در آنے سے ہی تعبیر ہو گی۔
چودھری نثار کے بقول الطاف حسین کے خلاف ریفرنس برطانوی حکومت کو بھجوا دیا گیا ہے جس پر جلد کارروائی کا آغاز ہو جائے گا مگر الطاف حسین لندن میں بیٹھ کر بدستور پاکستان کی جڑیں کاٹنے کی سازشوں میں مصروف ہیں تو کیا حکومت پاکستان برطانوی حکومت سے الطاف کی حوالگی کا تقاضہ نہیں کر سکتی تاکہ ان کے خلاف ملک میں ہی ملک سے غداری کا مقدمہ چلایا جا سکے۔ اگر برطانیہ پاکستان کے اس تقاضے کو درخور اعتنا نہیں سمجھتا تو پاکستان دشمن الطاف کو پناہ دینے اور انہیں کھُل کھیلنے کی اجازت دینے پر برطانیہ کا اپنا ایجنڈہ بھی بے نقاب ہو جائے گا اس لئے اب الطاف حسین کے خلاف کارروائی کے لئے محض زبانی جمع خرچ سے کام نہ لیا جائے اور محض بیان بازی نہ کی جائے بلکہ قانونی کارروائی کا جو بھی راستہ موجود ہے اسے اختیار کر لیا جائے۔ اسی طرح الطاف حسین کے ساتھ بدستور وابستگی رکھنے والے متحدہ کے عہدیداروں اور ارکان کو بھی قانون کی گرفت میں لایا جائے۔ پاکستان کی سلامتی کے خلاف اعلانیہ یا اندرون خانہ سازشیں کرنے والے عناصر کسی قانونی رعائت کے مستحق نہیں ہو سکتے۔ جو پاکستان کا کھا کر اور یہاں فائدے اٹھا کر اس کی سالمیت ختم کرنے کی بدنیتی رکھتے ہیں انہیں مادر وطن کے دشمن والی سزا ہی ملنی چاہئے۔

مزیدخبریں