ڈونلڈ ٹرمپ ’بیچارہ‘۔ پاکستان مخالفوں کی ڈگڈگی

Aug 26, 2017

ناصر رضا کاظمی

امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے پاکستان کو دی جانے والی گیدڑ بھبھکیاں نہ نئی‘ اور نہ ہی اِتنی سنجیدہ کہ ا±ن پر کوئی تبصرہ و تجزیہ کیا جائے' ہاں مگر یہ ضرورنئی بات ہے کہ صدر ِامریکا منتخب ہونے کے بعد مسٹر ٹرمپ نے مسلم دشمنی کی نسل پرست توقعات کے عین مطابق اپنے دل کا زہریلا بغض وعناد نکالنے میں ا±نہوں نے کافی ٹائم لیا ہے، جیسی توقع تھی بالکل ویسی ہی کڑوی کسیلی باتیں ا±نہوں نے افغانستان' پاکستان اور بھارت پالیسی بیان دیتے ہوئے بلا جھجک کہہ دیں کہ ’مزید برداشت نہیں کریں گے؟' اسلام آباد رویہ تبدیل کرکے کمٹمنٹ کرکے دکھائے؟'پاکستانی ایٹمی ہتھیاردہشت گردوں کے ہاتھ نہیں لگنے چاہئیں؟'یا انہوں نے کہا کہ'پاکستان نے دہشت گردوں کی مدد نہ چھوڑی تو اُسے بہت کچھ کھونا پڑے گا؟ ‘'ا±نہوں نے نہیں بتایا کہ 'کیاکھوناپڑے گا؟'کیا امریکی کرائے کے ٹٹوفوجی 22-20 کروڑپاکستانیوں کو امریکی کرینوں سے دھکیل کرسمندر برد کردیں گے؟‘جہاں تک ا±نہوں نے یہ کہا کہ'پاکستان اورافغانستان میں 20 غیر ملکی دہشت گرد تنظیمیں سرگرم ِعمل ہیں' چلیں پاکستان کو تو فی الحال چھوڑیں نا،خود امریکی فوجی ذرا یہ بتائیں کہ افغانستان میں سرگرم ِ عمل دہشت گرد تنظیموں کی بیخ کنی کے لئے اب تک وہ خود امریکی کیا کیا کارنامے انجام دے چکے ہیں؟ افغانستان میں موجوددہشت گرد گروہوں کے خلاف کوئی ایک’ آپریشن ‘جو امریکی فوجیوں نے کیا ہو؟ باتیں بنانا آسان ہوتا ہے میدان ِعمل میں اتر کر مسلح و سفاک دہشت گردوں سے نبردآزما ہونا جرات مند اور دلیری کی بات ہوتی ہے، 2014 جون کے بعد سے اب تک اسلام آباد کا رویہ پاکستانی مفادات میں بالکل ’پاکستانیت ‘میں ڈھل چکا ہے، پاکستان کی نظر میں افواج ِپاکستان کے سامنے مسلح ہوکر آنے والا ہر مسلح شخص کچھ اور نہیں دہشت گرد ہے ا±سے کوئی رورعایت نہیں بالکل دی جاتی، مسٹرٹرمپ نے پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کی بڑی فکر کی؟ ا±ن کی کمزور اور ناقص اطلاعات کے لئے عرض کردینا ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ بزدل دہشت گردتو کیا بیچتے ہیں؟ پاکستان کے جوہری ہتھیاروں تک دنیا کا کوئی بھی بڑاسے بڑااورعالمی طاقت کا کوئی بھی ملک چاہے وہ امریکا ہی کیوں نہ ہو؟ ملکی ایٹمی اثاثوں تک رسائی حاصل کرنے کا خواب تک نہیں دیکھ سکتا،جوہری ہتھیاروں تک دہشت گردوں کی'رسائی' کابے تکا اور بے ہنگم شورشرابا کرکے نہ کوئی پاکستان کو اشتعال دلا سکتا ہے اور نہ ہی پاکستان اِتنا مضمحل اور لاچار ملک ہے، پاکستان ایک ذمہ دار ایٹمی ڈیٹرنس رکھنے والا ملک ہے اپنے پالیسی بیان میں صدر ٹرمپ اور جتنا چاہئیں بھارت کی تعریفوں کے پل باندھتے چلے جائیں پاکستان کو کوئی فرق نہیں پڑتا، چونکہ پاکستان کے کبھی بھی مذموم سامراجی مقاصد نہیں رہے، پاکستان نے اپنے کسی پڑوسی ملک کی کوئی ایک انچ زمین پر کبھی قبضہ نہیں کیا ذرا امریکی بہادر اپنے گریبانوں میں جھانک کر یہ فیصلہ تو کرلیں کہ وہ افغانستان میں کیا کرنے آئے تھےَ کیا ابھی تو امریکی اپنا مطلوبہ مقصد حاصل نہیں کرپائے؟ اگر وائٹ ہاو¿س یا امریکی دفاعی ادارے پینٹاگان کویاد نہیں تو ہم ا±نہیں یاددلایتے ہیں 11/9 کے سانحہ کی آڑ میں امریکی افغانستان میں اپنے دشمن بن لادن کی تلاش میں آئے تھے کب کا بن لادن کا قصہ تمام ہوا امریکی انتظام ہی کے دوران افغانستان میں تین صدارتی انتخابات ہوچکے و عدے کے مطابق 2014 جون میں امریکی اورنیٹوافواج کوافغانستان سے نکل جانا چاہئے تھا آج کتنے برس بیت چکے، امریکی افغانستان کی سرزمین نہیں چھوڑنا چاہ رہے ،جہاں تک صدرٹرمپ کا یہ کہنا کہ امریکا افغانستان سے 'جیت' کا تمغہ لئے بنا واپس نہیں جائے گاتوکئی دہائیوں قبل ویت نام میں بھی کچھ ایسے ہی ملتے جلتے امریکیوں کے جذبات نہیں تھے لیکن پھر کیا ہوا منہ دبا کر ویت نام کی سرزمین سے شکست خوردہ ا مریکیوں کو اپنے ہی فوجیوں کی لاشیں چھوڑ کر کیسے لوٹنا پڑا' جیت بچوں کے کسی کھلونے کا نام نہیں ہے جیت حاصل کرنے کرنے کے لئے اپنے دشمنوں کے سامنے سینہ سپر ہوکر لڑنا پڑتا ہے ایسی لڑائی میں کسی ایک فریق کو مرنا بھی پڑتا ہے ”افغانستان کون سا امریکی علاقہ ہے؟“ جسے حاصل کیئے بناءامریکا جیسی عالمی طاقت کا جغرافیہ مکمل نہیں ہورہا؟‘ لہٰذا امریکی تھنک ٹینکس پر اب بڑی بھاری ذمہ داری آن پڑی ہے کہ وہ اپنے عقلی اعتبار سے قابل ِتوجہ صدر ٹرمپ کا قبلہ درست کرئے، ورنہ کہیں ایسا نہ ہوکہ امریکا عالمی دھارے سے کٹ کررہ جائے اور دنیا امریکا سے آگے نکل جائے، سچ پوچھیں تو ہمیں اب ایسا ہوتا ہوا دکھائی دیتا ہے افغانستان اور عراق جیسے کتنے ہی دوسرے کیس ہیں جنہیں سمجھے بغیر اور وہاں کے معروضی ثقافتی حالات کا تفصیلی بغور جائزہ لیئے بنا ءجمہوریت اور انسانی حقوق کے نام پر امریکا نے لاکھوں جیتے جاگتے انسانوں کو اپنے مفادات اور اپنے خواہشات کی بھینٹ چڑھا دیا دنیا کے کمزور لیکن زمینی دولت سے مالامال علاقوں میں امریکی فوجوں کی دراندازیوں کے ایک نہیں ایسے کئی شرمناک قصے ہیں کوئی سنائے تو کہاں تک سنائے؟ امریکی عوام کو صدرٹرمپ نے افغانستان میں جس 'جیت' کی خوشخبری سنائی ہے، شائد ہی کسی ایک بھی امریکی نے ا±ن کی بات پرسنجیدگی سے کان دھرے ہونگے'پاکستان کو ڈرانا 'دھمکانا' تڑی لگانا مسٹر ٹرمپ! یہ گئے وقتوں کی باتیں ہیں دنیا تبدیل ہوچکی ہے طاقت اوربے پناہ طاقت کے کئی توازن دنیا کا رخ اپنی جانب موڑچکے ہیں کل کا برطانیہ جس کی قلمرومیں کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا آج وہ ہی برطانیہ اپنی بقاءکی جدوجہد میں جتا ہوا ہے، روس نئی انگڑائی لے کر ایک بار پھر تروتازہ ہورہا ہے عوامی جمہوریہ چین ترقی وخوشحالی کے نیک خو اور راست بازسفر کی باگیں تھامے ہوئے ایشیائی عوام کی مکمل رہنمائی کے لئے پہلا قدم پاکستان میں ا±ٹھا چکا ہے، امریکا کے لئے ساری تکالیف کا غالبا مرکزیہی ہے کہ ’پاکستان چین اقتصادی راہداری‘ کہیں نقشے کے مطابق پائیہ ِتکمیل کو پہنچ جائے گا ؟ مگر 'سی پیک' توہر صورت میں بنے گا ضرور' جبکہ روس کی سی پیک میں شمولیت کے بعد ہمیں یقین ہے کہ امریکا کی صورت’ مستقبل کی آیاو¿ں‘ جیسی یقینا ہوجائے گی، اپنے خطہ میں خصوصا پاکستانی علاقوں کو دہشت گردی کے عفریت سے محفوظ رکھنے کے لئے ہم پاکستانیوں کوامریکا سے کسی قسم کے تعریفی سرٹیفکٹ کی قطعا ًکوئی ضرورت نہیں ہے' پاکستان جنوبی ایشیا میں اپنی اسٹرٹیجک گہرائی کی حساس اہمیت سے بخوبی واقف ہے، ہماری افواج گزشتہ پندرہ برس سے حالت ِجنگ میں ہیں، عسکری چوکسی اور ثابت قدمی کے میدان میں پاکستانی افواج آج بھی کامیاب 'لمحہ ِامتحان' سے گزررہی ہیں لہذاءقوم کو امریکی گیدڑ بھبکیوں سے مرعوب ہونے کی کوئی ضرورت نہیں۔

، جبکہ قوم کو بخوبی علم ہونا چاہیئے کہ امریکا اور بھارت اِن حساس عالمی لمحات میں قیادت کے شدید فقدان اور بحران میں مبتلا بڑے بھیانک اثرات میں بہت ب±ری طرح سے گھر چکے ہیں اور یہ بھی دنیا سمجھ لے اب پاکستان نہیں بلکہ بھارت اور امریکا جیسی سامراجی طاقتوں کو 'رول بیک پالیسی'پر ہر صورت آج یا کل ضرور جانا ہی پڑے گا اور ہاں!پاکستان کو ’بائی پاس‘ کرکے امریکا خود تنہا افغانستان کا گنجلک اور انتہائی پیچیدہ مسئلہ کبھی حل نہیں کر سکتا۔

مزیدخبریں