”وہ قریب آگیا لوگوں کیلئے حساب ان کا اور وہ غفلت میں منہ موڑے ہوئے ہیں۔“ سورة انبیاءکی پہلی آیت کی تلاوت کرتے ہوئے دل ایک دم سے سہم گیا کہ کہیں ہمارا شمار بھی انہی لوگوں میں تو نہیں۔ تھوڑا سا اپنے معمولات زندگی پر نظر ڈالی تو دل کی بے چینی اور بڑھ گئی۔ سوچا غفلت سے یہاں کیا مراد ہے۔ مزید آگے بڑھے تو اگلی آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں، ”نہیں آتی ان کے پاس کوئی نصیحت ان کے رب کی طرف سے نئی مگر وہ سنتے ہیں اس کو اور وہ کھیل رہے ہوتے ہیں، غافل ہیں دل ان کے۔“ قرآن کتاب حکمت ہمیں زندگی گزارنے کے ڈھنگ سکھا رہا ہے۔ ہمیں اپنی زندگی کی ترجیحات مقرر کرنے کی طرف توجہ دلا رہا ہے۔ لیکن ہم ہیں کہ ہم نے غیر اہم یا کم اہم چیزوں کو اپنی زندگی کا مقصد بنایا ہوا ہے۔
اللہ ہم سے چاہتا ہے کہ پہلے اُس سے رشتہ مضبوط کیا جائے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ مضبوط تعلق جڑنے کے بعد جو ہم میں مضبوطی آئے اس کو مثبت انداز میں استعمال کرتے ہوئے زندگی میں اللہ تعالیٰ نے جو رول ہم کو دیا ہے اس کے ذریعے اپنے گرد و نواح میں مثبت تبدیلیاں لائیں۔ اگر ہم کچھ زیادہ خیر کا موجب نہ ہی بن پائیں تو کم از کم فساد برپا کرنے والوں میں سے نہ ہوں۔اس سوچ کے ساتھ جب آپ اپنی زندگیوں میں رول ماڈل ڈھونڈنے لگتے ہیں تو بہت سے لوگوں کے چہرے آپ کی آنکھوں کے سامنے لہرا جاتے ہیں۔ جنہوں نے زندگی کو کسی مقصد کے ساتھ گزارا اور لوگوں کی زندگیوں میں سکون اور خوشی لانے کا موجب بنے اس میں ضروری نہیں کہ عبدالستار ایدھی جیسے عظیم سوشل ورکر کا ہی نام لیا جائے باقی زندگی کے شعبوں میں بھی ہمیں بہت سے ایسے لوگ ملیں گے جو شاید اتنے مشہور نہیں ہوئے لیکن خاموش مجاہدوں کی طرح ان کی ساری زندگی جہاد میں گزری۔
کانوں میں اکثر بزرگوں کی نصیحتیں گونجتی ہیں ، بیٹا وقت کی قدر کرو اور زندگی ڈھنگ سے گزارو۔ سمجھ نہیں آتی تھی کہ وقت کی قدر کیسے کریں اور پھر وقت کی قدر کا اور زندگی کو ڈھنگ سے گزارنے کا آپس میں کیا تعلق۔ لیکن آج یہ بات قرآن کی اس آیت سے واضح ہوگئی کہ وقت کا ہر گزرتا لمحہ ہمیں اپنے انجام کی طرف لے جا رہا ہے۔لیکن ہم اپنے انجام سے بے خبر زندگی کو بے ڈھب انداز سے گزارے چلے جا رہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان اپنی زندگی کے مقصد کا تعین نہیں کرپاتا۔ زندگی کے مقاصد کا تعین تب ہوتا ہے جب ہم اپنی ذات سے باہر نکل کر سوچیں جب انسان اپنی ذات سے اوپر اُٹھ کر سوچتا ہے تو اس کو اپنی زندگی کا مقصد بھی سمجھ آجاتا ہے اور وہ اس کو حاصل کرنے کی تگ و دو میں جُت جاتا ہے۔ پچھلے دنوں ڈاکٹر رُتھ فاﺅ کا انتقال ہوگیا جب اس کی زندگی کے بارے میں جاننے کیلئے اس کی زندگی میں جھانکا تو میں بہت متاثر ہوئی۔اپنے ایک انٹرویو میں اس نے بتایا کہ وہ 1960ءمیں جرمنی سے گائنی کی تعلیم لے کر ایک مشنری جذبے کے تحت انڈیا جاکر عورتوں کی بیماریوں کے سلسلے میں اپنی خدمات پیش کرنا چاہتی تھی وہاں کے پسماندہ علاقوں میں کام کرنا چاہتی تھی۔ لیکن کچھ ویزے کے مسائل درپیش آنے کی وجہ سے اُسے کراچی رُکنا پڑا۔ یہاںپر ایک نرس کے ذریعے اسے کچھ جذام کے مریضوں سے ملنے کا اتفاق ہوا جنہیں عرفِ عام میں ہم کوڑھی کہتے ہیں۔ بقول اُس کے ان بیمار اور پریشان حال لوگوں کی حالت زار نے کچھ اس طرح اس کے دل پر اثر کیا کہ اس نے یہیں پر رہ کر اُن کو اس اذیت وپریشانی سے نکالنے کا فیصلہ کیا۔ وہ کہتی ہے کہ میرا دل دکھ گیا جب میں نے ان کے گلتے سڑتے اعضاءدیکھے اور لمحہ بہ لمحہ انہیں موت کی طرف جاتے دیکھا۔ بقول اُس کے اُس کی زندگی کو ایک مقصد مل گیا کہ اب اس نے پاکستان میں اس موذی مرض کے خلاف کام کرنا ہے اور ایک دن آئے گا کہ اس مرض پر قابو پالیا جائے گا اور واقعی پچاس سال سے اوپر کی محنت رنگ لائی اور آج پاکستان کا شمار اُن ممالک میں ہوتا ہے جہاں جذام کے مرض پر قابو پالیا گیا ہے۔ہماری نئی نسل میں بہت جذبہ ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ انہیں گائیڈ کیا جائے کہ وہ اپنی زندگی کا کوئی مقصد بنائیں اور اسے حاصل کرنے کیلئے اپنی تمام تر توانائیاں بروئے کار لائیں۔ آج ہماری قوم کو ہمارے وطن کو ضرورت ہے۔ایسے نوجوانوں کی جن کی زندگی کا مقصد ہو انسانیت کی خدمت،جو اس قابل ہوں گے اپنے گرد و نواح میں۔ خیر اور آسانیاں بانٹ سکیں اس کیلئے ماں، استاد، میڈیا ، مذہبی اور سیاسی رہنماﺅں کا فرض ہے کہ وہ نوجوانوں میں مثبت انداز فکر پیدا کریں تاکہ وہ اپنے معاشرے مےں کچھ مثبت تبدےلےاں لانے کا موجب بنےں۔ بہت افسوس ہوتا ہے ان نو جوانوں کو کبھی ڈاکٹروں کے روپ مےں سڑکوں پر نکلے ہوئے دےکھ کر ،کبھی سےاسی جلسوں مےں گالی گلوچ کرتے ہوئے اور کبھی تعلیمی اداروں مےں باہم دست و گرےباں ہوتے ہوئے۔ لےکن جب ہمارے نوجوان کو مقصد زندگی مل گےا اُس دن ہماری قوم کی تقدےر بدل جائے گی انشاءاللہ وہ وقت جلد آئے گا۔