وزیر خارجہ ا ور وزیر اطلاعات کی میڈیا بریفنگز

عید کے بعد پہلے ہی ورکنگ ڈے کو وفاقی کا بینہ کی میٹنگ ہو ئی۔ خود وزیر اعظم نے تو عید کی چھٹیوںکے دوران بھی آفس ورک کیا۔انہوںنے اقتدار سنبھالتے ہی قوم کو بتا دیا کہ وہ وقت ضائع نہیں کریں گے اور نہ کسی دوسرے کو کرنے دیں گے،وفاقی کابینہ کے ایجنڈے میں یہ نکتہ شامل تھا کہ کیوںنہ ہفتے کے روز کی چھٹی ختم کر دی جائے مگر اس پر خاصی بحث ہوئی اور بالآخر فیصلہ یہ ہوا کہ ہفتہ وار کام کے اوقات میں اضافہ کر دیا جائے اور ہفتے کی چھٹی بجلی کی بچت کے پیش نظر بر قرار رکھی جائے۔
کابینہ میٹنگ کے بعد دو بریفنگز ہوئیں ، ایک وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی طرف سے اور دوسری وزیر اطلاعات کی طرف سے ، اصولی طور پر حکومت کی ترجمانی صرف وزیر اطلاعات کو کرنی چایئے، دوسرے وزرا تب بولیں جب وہ کوئی بڑا اعلان کرنے جارہے ہوں اور اس کے پیچھے بھی خود ان کی محنت کا دخل ہو۔ وزیر اطلاعات سے بہتر کون جانتا ہے کہ اگر ایک روز میں کئی بریفنگز ہوں گی تو ان کی مناسب کوریج نہیںہو سکے گی اور نہ عوام ان کی جملہ تفصیلات سے کما حقہ باخبر ہو سکیں گے۔
کفایت شعاری کا نکتہ دونوں بریفنگز میں مشترک تھا۔ وزیر خارجہ نے اعلان کیا کہ وہ فرسٹ کلاس میں سفر نہیں کریں گے اور بیرونی دوروں پر ضرورت کے بغیر نہیں جائیں گے اور جائیں گے تو کسی ہوٹل میں قیام کے بجائے سفارت خانے میں قیام کریں گے۔انہوںنے ایرانی ا ور امریکی وزرائے خارجہ کے متوقع دوروں کی خبر بھی دی اور چین، امریکہ، بھارت ، ایران اور افغانستان سمیت ہر ملک سے خوشگوار تعلقات استوار کرنے کی پالیسی کاعندیہ دیا۔امریکی وزیر خارجہ اور وزیر اعظم کے مابین ٹیلی فون گفتگو کے حوالے سے انہوںنے ایک بار پھر اس امر کی تردید کی کہ اس میں امریکہ نے پاکستان کے اندر پلنے والے دہشت گردوں کا کوئی ذکر کیا تھا، وزیرخارجہ کے بقول امریکہ کا یہ دعوی کہ ایسی گفتگو ہوئی ہے، قطعی بے بنیاد اور حقیقت کے برعکس ہے۔ اس طرح نظر آتا ہے کہ پہلے ہی رابطے میں پاکستان کی نئی حکومت اور امریکی حکومت کے مابین غلط فہمیوںنے جنم لے لیا ہے۔ توقع رکھنی چاہئے کہ امریکی وزیر خارجہ پاکستان آئیں گے تو اس غلط فہمی کاازالہ کریں گے مگر نظر بظاہر اس کا امکان نہیں کیونکہ امریکہ ایک عرصے سے پاکستان کو دہشت گردی خاص طور پر حقانی نیٹ ورک اوربعض کشمیری حریت پسند تنظیموں کے حوالے سے مورد الزام ٹھہرا رہا ہے۔ اس سے قبل امریکہ نے تو حقانی نیٹ ورک کی امدا د سے اپنی امداد کو مشروط کر رکھا تھا۔ جہادی تنظیموں کے حوالے سے الگ گرے لسٹ ا ور بلیک لسٹ کی آڑ میں پاکستان کو بلیک میل کیا جا رہا ہے۔ اس بار امریکہ نے اپنی امداد کے لئے حقانی نیٹ ورک کی شرط ختم کر دی ہے، ممکن ہے کہ اس کے شبھات ویسے ہی ختم ہو گئے ہوں۔ مگر پاکستان کا حقانی نیٹ ورک سے کیا لینا دینا، یہ ایک افغان تنظیم ہے اور وہیں بر سر پیکار ہے۔ پاکستان نے ضرب عضب کے دوران جن شدت پسندوں کا خاتمہ کیا، ان میں بلاا متیاز ہر ایک کے خلاف کارروائی شامل تھی۔
وزیر اطلاعات نے فر فر کابینہ کے فیصلوں کا اعلان کیا۔ انہوںنے بتایا کہ وزراا ور ارکان پارلیمنٹ کے صوابدیدی فنڈ ختم کر دیئے گئے ہیں ،ا ب جو بھی خرچ ہو گا یا منصوبہ بنے گا،اسے پارلیمنٹ سے منظور کرانا ہو گا ، وزیر اعظم سمیت کسی بھی حکومتی شخص کوبادشاہوں کی طرح قومی خزانہ لٹانے کا اختیار نہیں ہو گا۔ تری آواز مکے اور مدینے، اس طرح کی مساوات رائج ہو گئی تو وہ وقت دور نہیں جب کوئی بھی شخص بھرے مجمع میں وزیر اعظم ، وزیر یا رکن اسمبلی یا سرکاری اہل کار کا اس طرح احتساب کر سکے گا جیساکہ حضرت عمرؓ کا کیا گیا۔
نئی حکومت نے سادگی اور کفایت شعاری کے ساتھ چلنے کا عہد کیا ہے۔لاہور میں جن لوگوںنے نماز عید ریس کورس پارک میں پڑھی وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ نئے وزیر اعلی ایک کار خود ڈرائیو کرتے ہوئے عام لوگوں کی طرح جہاں جگہ ملی۔ بیٹھ گئے اور عید کے بعد وہ لوگوںمیںاس طرح گھل مل گئے کہ محمو دو ایاز میں کوئی فرق نہ رہا، دس برسوں میں میں اپنے وزیر اعلی بلکہ خادم اعلی کی شکل تک نہیں دیکھ سکا۔ ایک زمانہ تھا جب بر صغیر میں بادشاہت تھی تو تب بھی بادشاہ لوگوں کو ایک جھلک دکھانے کے لئے بازاروں اور سڑکوں پر نکل ا ٓیا کرتے تھے ، شہنشاہ جہانگیر نے تو انصاف لینے والوں کے لئے ایک گھنٹی لگا دی تھی جس سے ایک روز گدھا ٹکرا گیاتوشہنشاہ نے اس کے مالک کو بلو الیا کہ ضرور کوئی ظلم کرتا ہو گا۔ اب تو بادشاہت نہیں رہی۔ عوامی راج ہے مگر عوام کو اپنے خادموں سے کیوں دور رکھا گیا۔ اس پس منظر میں مجھے ریس کورس سے فون آیا کہ یہاں نئے وزیر اعلی موجود ہیں تو مجھے خوشگوار حیرت ہوئی۔ میں تو حیران ہوں کہ درویش صفت غلام حیدر وائیں نے بھی بتدریج اپنے آپ کو عوام سے دور کر لیا تھا۔ نواز شریف اور شہباز شریف تو عوام سے دور بھاگتے رہے۔ اب ایک بات کا فرق ضرور ہوناچاہئے کہ محض سیکورٹی خطرے کی آڑ میں صدر، وزیر اعظم ،وزیر یا گورنر عوام سے دور نہ ہو سکے۔ سیکورٹی خطرہ تو حضرت عمرؓ اور حضرت علیؓ کو بھی لاحق تھا اور یہ حقیقت کا روپ بھی دھارا۔ مگر کسی نے مسجد نبوی کا رخ کرنا ترک نہیں کیا ، نہ مدینے سے باہر کسی درخت کی چھاﺅں میں سونا ترک کیا۔جب میدان جنگ میں ایک عام سپاہی آگے بڑھتا ہے تو اس پر سامنے سے مشین گنوں کی گولیوں کی بو چھاڑ ہو رہی ہوتی ہے۔ اس لئے براہ کرم سیکورٹی ادارے حکومتی ارکان کو ان خطرات سے خوف زدہ کر کے دفتروں میں قلعہ بند نہ کر دیں۔
حکومت کی جہت درست ہے۔ اس کا قبلہ درست ہے۔ ماضی کی حکومتوں کے میگا پروجیکٹس کا آڈٹ ضرور ہونا چاہئے اور زیر تکمیل منصوبوں کو جاری رکھنے کا عزم بھی نیک ہے۔ خاص طور پر سی پیک کا ذکر سن کر یک گونہ خوشی ہوئی۔بین الاقوامی معاہدوں کے احترام کا اعلان بھی ایک نیک فال ہے۔
ایک انقلابی اعلان یہ ہے کہ کفایت شعاری اور سادگی مہم کو جاری رکھتے ہوئے وزیراعظم عمران خان نے بیرون ملک دوروں کے لئے خصوصی طیارہ استعمال نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے، اسی طرح صدر مملکت، چیف جسٹس، آرمی چیف، چیئرمین سینٹ اور سپیکر قومی اسمبلی کا فرسٹ کلاس میں سفر کرنے کا استحقاق ختم کر دیا ہے، اب یہ شخصیات کلب کلاس میں سفر کریں گی۔
تحریک انصاف نے تبدیلی کا نعرہ لگایا تھا۔ اس عید پر ایک واضح اور نمایاں تبدیلی یہ نظر آئی کہ میڈیا کو زیر اعظم کی عید نماز اد اکرنے کی تصویر جاری نہیں کی گئی، اس ضمن میں وزیر اطلاعات نے بتایا کہ بطور مسلمان نماز کی ادائیگی ایک فریضہ ہے اور وزیر اعظم اس کی تشہیر نہیں چاہتے۔ ایک زمانہ تھا کہ جاتی امر،ایوان صدر اور گورنر ہاﺅسوں میں ٹی وی کیمرے نواز شریف کی عید نماز پر مرکوزہوتے تھے۔ اور تمام سرکاری منصب داروں کی عید نماز کی تصاویر بڑے اہتمام سے جاری کی جاتی تھیں۔
ایک بڑی تبدیلی پی ٹی وی کی ادارتی پالیسی کو آزاد کرنے کی ہے، اب پی ٹی وی سرکار کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کی خبریں بھی نشر کرنے کا پابند ہو گا۔ اس کے لئے جو ادارتی ٹیم بنائی گئی ہے اس میں ن لیگ اور پی پی پی کے نمائندے شامل کئے گئے ہیں۔ اس لحاظ سے جو تبدیلیاں دیکھنے میں آئی ہیں، انہوں نے نئی تاریخ رقم کی ہے۔
٭٭٭٭٭

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

ای پیپر دی نیشن