مقبوضہ کشمیر کے باسی گزشتہ 71برسوں سے آزادی کی جدوجہد میں مشغول ہیں۔اگست 1947ء میں جب تاج برطانیہ نے پاکستان اور بھارت کو بطور آزاد ملک تسلیم کیا تو بھارتی نوابی ریاستوں کو یہ اختیار دیا گیا کہ ان کے فرما نرواء فیصلہ کریں کے وہ بھارت کے ساتھ الحاق کریں یا پاکستان کے ساتھ ما سوائے ان ریاستوں کے جن کے حکمران کسی اور مذہب کے ہوں اور رعایا کسی اور مذہب کی۔چونکہ کشمیر کی عوام کی اکثریت مسلمان تھی جبکہ حکمران ہندو تھا، کشمیر کے عوام کو یہ اختیار تھا کہ وہ استصوب رائے کے ذریعہ اپنی خواہش کا اظہار کریں کہ وہ بھارت کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں یا پاکستان کے۔ قبل اسکے کہ استصوب رائے کے ذریعہ اپنی خواہش کا اظہار کریں، بھارت نے اپنی فوجیں کشمیر میں اتار دیں اور غاصبانہ قبضہ کر لیا۔ پاکستان نے کشمیر کو آزاد کرانے کی خاطر کچھ مجاہدین اور کچھ فوجی رضاکارانہ طورپر کشمیر روانہ کئے۔گھمسان کی جنگ کے بعد پاکستان ایک تہائی کشمیر کوآزاد کرانے میں کامیاب ہوگیا تو بھارتی وزیراعظم پنڈت جواہر لعل نہرو نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے رجوع کیا کہ جنگ بندی کرائی جائے۔ اقوام متحدہ نے جنگ بندی کرادی اور دوقراردادیں منظور کرلیں جن میں اس امر کااعادہ کیا گیا کہ کشمیر میں رائے شماری کرائی جائے گی تاکہ کشمیری خود اپنی قسمت کا فیصلہ کریں کہ آیا وہ پاکستان کے ساتھ الحاق چاہتے ہیں یا بھارت کے ساتھ ۔ ابتداء میں بھارت نے اقوام متحدہ کی قرار دادوں پہ عمل درآمد کا وعدہ کیا لیکن بعد میں مکر گیا۔ پاکستان نے جو ایک تہائی حصے کو آزاد کرایا وہ آزاد جموں کشمیر کے نام سے آزادی کے ثمر سے فیضیاب ہے جبکہ مقبوضہ کشمیر کے باسی بھارتی ظلم وستم کے شکنجے میں گھرے ہیں۔
1965ء اور1971ء کی پاک بھارت جنگ نے کشمیر یوں کی حالت نہ بدلی۔بالآخر 1989ء میں کشمیریوں نے خود ہی علم آزادی بلند کیا۔ بھارت نے سات لاکھ فوج مقبوضہ کشمیر میں جھونک دی جس نے ظلم وبربریت کے تمام ریکارڈ توڑ دئے۔ ابتک ایک لاکھ سے زائد کشمیری شہید کئے جاچکے ہیں۔ ہزاروں کشمیری دوشیزائوں کے ساتھ زیادتی کی گئی اور ہزاروں بے گناہ کشمیری پابند سلاسل ہیں۔ بھارتی جبر واستبداد کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ بھارتی درند ے اپنے سفاکانہ ہتھکنڈوں کے باوجود کشمیری تحریک آزادی کو کچل نہ سکے۔ پاکستان مسلسل مقبوضہ کشمیریوںکو سفارتی اور اخلاقی حمایت فراہم کررہا ہے۔مقبوضہ کشمیر کے باسیوں کے لئے ایک اور سانحہ اس وقت رونما ہوا جب جون2013 ء میں مسلم لیگ (نواز) کی حکومت برسراقتدارآئی۔ میاں نواز شریف گوخود کشمیری نثراد ہیں لیکن انہوں نے ذاتی مفاد کی مقبوضہ کشمیر کے مظلوم باسیوں کو نظرانداز کردیا۔ اسکی وجہ یہ تھی کہ میاں نواز شریف سوداگرہیں اور وہ بھارت کے ساتھ تجارت کرنا چاہتے تھے اسلئے انہوں نے کشمیریوں کو اپنی ہوس اور طمع کی خاطر بھینٹ چٹرھا دیا۔ مظلوم کشمیریوں کے لئے دوسرا سانحہ اس وقت رونما ہوا جب نریندرمودی جون2014ء میں بھارت کے وزیراعظم منتخب ہوئے۔2002ء میں سانحہء گجرات کے موجد اور دوہزار سے زائد مسلمانوںکے قاتل نریندرمودی کا مقبوضہ کشمیر کے لئے خونی ایجنڈا تھا۔ وہ بھارت آئین کی شق370 کو منسوخ کرانا چاہتے تھے جسکے تحت کشمیر کو بھارتی آئین میں خصوصی حیثیت حاصل ہے۔مودی کی سازش تھی کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں دسمبر2014ء کے عام انتخابات میں اپنی سیاسی جماعت بی جے پی کو کامیاب کراکے آئین کی شق370کو منسوخ کراکے مقبوضہ کشمیر میں ضم کرادیں۔ مقبوضہ کشمیریوں نے مودی کی یہ سازش کا نام بنادی اور بی جے پی اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہی۔ مودی نے دوسری چال چلی کی بھارت سے ہندئووں کو مقبوضہ کشمیر میں لے جا کر بسائیں۔ تاکہ مسلمانوں کی اکثریت کو ختم کیا جائے۔
8جولائی2016ء کو بھارتی فوجیوں نے مقبول نوجوان رہنما برھان وانی کو شہید کردیا۔ انکی شہادت پہ ہزاروں کشمیری نوجوان احتجاج کی خاطر نہتے سڑکوں پہ نکل آئے۔ مودی نے ایک اور چال چلی اور اپنی فوجوں کو حکم دیا کہ احتجاج کرنے والوں پہ چھّرے والی بندوق سے بوچھاڑ کی جائے ۔اسکے نتیجے میں200کشمیری نوجوان جام شہادت نوش کرچکے ہیں جبکہ 3,500سے زائد کشمیری معصوم بچوں کی بینائی زائل ہوگئی۔2014ء میں جب مودی نے وزیراعظم کا حلف اٹھایا تو سارک ممالک کے وزرائے اعظم کو تقریب میں شرکت کی دعوت دی۔ میاں نواز شریف نے بخوشی یہ دعوت قبول کر لی۔ مودی نے یہ شرط لگائی کہ میاں نواز شریف نئی دہلی میں قیام کے دوران کسی بھی کشمیری رہنما سے ملاقات نہیں کریں۔میاں نواز شریف نے فورا حامی بھرلی ۔ یہ پہلا موقع تھا کہ کوئی پاکستانی لیڈر بھارت کے دورے پہ جائے اور مقبوضہ کشمیر کے معروف رہنمائوں سے ملاقات نہ کرے۔ میاں نوازشریف نے بھارتی تاجروں سے ملاقات کی خواہش کی اور ان سے ذاتی تجارت کے منصوبے بنائے۔یہ ستم ظریفی ہے کہ میاں نوازشریف نے مقبوضہ کشمیریوں پہ ڈھائے جانے والے ظلم کی نہ کبھی مذمت کی نہ ان کے زخموں پہ مرہم رکھا ۔الٹا نرنیدرمودی جیسے جلاد کو جاتی امرہ اپنے آبائی گھر پہ دعوت دی۔ بھارت کے راء کے جاسوس اور دہشت گردی کمانڈر کلبھوشن یادو کی بلوچستان سے گرفتاری اور اقبال جرم کے باوجود میاں نوازشریف نے کبھی بھارت سے شکایت نہ کی۔ بھارت کی پاکستان کے خلاف آبی جارحیت کے خلاف بھی کبھی لب نہ کھولے۔ بھارت سندھ طاس معاہدے کی مسلسل خلاف ورزی کر رہا ہے اور پاکستان کے حصے کا پانی چرارہا ہے۔ دریائے سندھ، جہلم اور چناب کا منبع مقبوضہ کشمیر میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بھارت اس خطے پہ اپنے غاصبانہ قبضے کو قائم رکھنا چاہتا ہے۔
کشمیریوں کی جائز جدوجہد آزادی کے خلاف محاذ آرائی میں پاکستانی میڈیا کے کچھ عناصر بھی شامل ہوگئے ہیں۔پاکستان کا ایک بڑا میڈیا گروپ جسکی بنیاد بانیء پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے رکھی تھی اور شہید ملت نوابزادہ لیاقت علی خان چیف ایڈیٹر تھے، نے 23جولائی 2018ء کو یہ خبر لگائی کہ’’ تین کشمیری علیحد گی پسند قتل ہو گئے‘‘۔ کشمیر یوں کی جائز تحریک کو جسے اقوام متحدہ کی آشیرواد حاصل ہے کو ’’ علیحدگی پسند ‘‘قرار دینا بہت بڑی سازش ہے دوسرے یہ کی کشمیری شہیدوں کو ’’مردہ‘‘ کہنا بھی انکی تضحیک ہے۔اسی میڈیا گروپ کے چیف ایڈیڑنے حال ہی میں بی بی سی کے معروف پروگرام ’’ہارڈ ٹاک‘‘(Hard Talk) میں دعوی کیا کہ پاک فوج پاک میڈیا کو زبردستی خاموش کرارہی ہے اور وہ جبری لوگوں کو غائب کرنے میں بھی ملوث ہے۔ جب پروگرام کے میزبان نے موصوف سے جرح کی کہ’’آپ نے پاک فوج پہ اتنا بڑا الزام لگایا ہے۔ تو آپ کے پاس کیا ثبوت ہے؟ ’’ جناب چیف ایڈیٹر صاحب پہلے توسٹپٹائے پھر یہ بولے کہ ’’یہ بات سوشل میڈیا پہ موجود ہے۔‘‘ گویا کہ سوشل میدیا جس پہ کہی ہوئی کسی بات کا کوئی حتمی ثبوت نہیں ہوتا اسے سچ مان کر اتنی بڑی میڈیا کے مالک نے اسیے سنگین الزامات عائد کئے۔
مقبوضہ کشمیر کے باسی مظلوم ہیں اور انکی اخلاقی حمائت ہرپاکستانی کافرض ہے۔ ان کی جائز جدوجہد کا احترام لازمی ہے اور اگر پاکستانی میڈیا یا کوئی فرد خواہ وہ سیاسی رہنماہی کیوں نہ ہو کشمیر کی تحریک آزادی کے خلاف دانستہ یاغیر دانستہ طور پر محاذ آرائی میں شریک ہوںتو اس کی مذمت لازمی ہے۔