ریاستِ مدینہ کا تصورعملی قالب میں ڈھالنے کی خاطر قوم عمران خاں کے شانہ بشانہ ہے

وفاقی کابینہ کے اجلاس میں صوابدیدی فنڈز ختم کرنے سمیت سسٹم کی اصلاح سے متعلق اہم فیصلے
وفاقی کابینہ نے صدر، وزیراعظم اور وزراءکے صوابدیدی فنڈز ختم کرنے کی منظوری دے دی جبکہ وزیراعظم عمران خان نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ سفر کیلئے اپنا سرکاری جہاز بھی استعمال نہیں کریں گے اور سرکاری ایئر لائنز کی کلب کلاس میں سفر کیا کریں گے۔ وزیراعظم کی زیر صدارت منعقد ہونے والے وفاقی کابینہ کے اجلاس میں گزشتہ روز چیف جسٹس، چیئرمین سینیٹ، سپیکر قومی اسمبلی سمیت تمام متعلقہ شخصیات کی فرسٹ کلاس میں سفر کی سہولت بھی ختم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اسی طرح اجلاس میں ماس ٹرانزٹ سسٹم منصوبوں کے فرانزک آڈٹ کا فیصلہ کیا گیا۔ اجلاس کے اختتام پر وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چودھری نے پریس بریفنگ میں اجلاس میں کئے گئے فیصلوں سے آگاہ کیا اور بتایا کہ میاں نوازشریف اور مریم نواز کے نام ای سی ایل پر ڈالنے کیلئے کابینہ سے کہا گیا تھا۔ان کے بقول پرویز مشرف کا معاملہ عدالت میں ہے اور انتظامیہ کی حیثیت سے ہم عدالتی امور میں مداخلت نہیں کر سکتے۔ انہوں نے بتایا کہ وزارت کیڈ ختم کی جا رہی ہے۔ ان کے بقول وزیراعظم عمران خاں نے کابینہ کے اجلاس میں لوڈشیڈنگ پر تشویش کا اظہار کیا اور شارٹ فال کے حوالہ سے مفصل بریفنگ لینے کا فیصلہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ گزشتہ حکومت 100، ارب روپے کا گردشی قرضہ چھوڑ کر گئی ہے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اعظم خاں کو ان کی بطور چیف سیکرٹری کارکردگی کی بنیاد پر پرنسپل سیکرٹری تعینات کیا گیا ہے۔ ان کے بقول وزارت اطلاعات نے سنسر شپ ختم کردی ہے۔ ریڈیو پاکستان پر آٹھ گھنٹے کی انگریزی نشریات شروع کی جا رہی ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بادشاہوں کی طرح پیسے دینے کا رواج اب ختم ہونا چاہئے۔ ہم سی پیک منصوبے مکمل کرنے کے امین ہیں۔ اوورسیزپاکستانیوں کیلئے وزیر خزانہ اسد عمر ایک پیکیج لے کر آئیں گے۔ پشاور میٹرو کا بھی آڈٹ ہو رہا ہے۔
فواد چودھری نے بتایا کہ وفاقی کابینہ نے پانچ سال کے دوران ملک بھر میں دس ارب پودے لگانے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ وفاقی اداروں کے دفتری اوقات کار میں بھی تبدیلی کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کے تحت دفتری اوقات صبح 9بجے سے شام پانچ بجے تک ہوں گے اور نماز جمعہ کے بعد سرکاری ملازمین کی دفاتر میں شام پانچ بجے تک حاضری یقینی بنائی جائے گی۔ سرکاری اداروں میں ہفتے کی چھٹی برقرار رہے گی۔ انہوں نے بتایا کہ ہر محکمے میں ملازمین کی حاضری یقینی بنانے کیلئے بائیو میٹرک اور مانیٹرنگ سسٹم لگانے کی ہدایت کی گئی ہے۔ اسی طرح وفاقی کابینہ نے ملک بھر میں صفائی مہم شروع کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کا آغاز اسلام آباد سے کیا جائے گا۔ صوابدیدی فنڈز ختم کرنے کے فیصلہ پر اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پچھلی حکومتوں نے سرکاری خزانہ کو اپنی جاگیر کی طرح استعمال کیا۔ نواز شریف نے 21ارب روپے اور صدر مملکت نے آٹھ سے 9کروڑ روپے کے صوابدیدی فنڈز استعمال کئے جبکہ 30ارب روپے اس فنڈ میں سے ارکان قومی اسمبلی نے استعمال کئے، ان کے بقول وزیراعظم عمران خاں سادگی کی مہم شروع کئے ہوئے ہیں جس کے باعث انہوں نے اپنا خصوصی جہاز زیر استعمال نہ لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیراعظم کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کا اگلا اجلاس منگل28اگست کو ہوگا جس میں کابینہ کے تمام ارکان کو اپنی حاضری یقینی بنانے کی ہدایت کی گئی ہے۔
ہمارا اب تک کایہی المیہ رہا ہے کہ اسلامی، جمہوری، فلاحی معاشرہ کی تشکیل کیلئے بانی¿ پاکستان قائداعظم کے حاصل کردہ اس ملک خداداد میںان کی وفات کے ساتھ ہی اشرافیہ کلچر نے غلبہ حاصل کر لیا تھا جس کے باعث شرف انسانیت کے تقاضوں کے تحت استحصالی نظام سے برصغیر کے مسلمانوں کو نجات دلانے کا تصور شروع دن سے ہی غارت ہو گیا۔ قائداعظم نے تو تشکیل وطن کے بعد شہریوں میں کسی بھی قسم کی تفریق کا تصور تک نہ پنپنے دیا۔ اقتدار کے ایوانوں میں سرکاری وسائل اور قومی خزانے کے ذاتی مقاصد کیلئے استعمال، ناجائزاسراف اور لہو و لعب سے دوری کیلئے اپنی ذات کو مثال بنایا، وفاقی کابینہ کے اجلاسوں میں سرکاری خرچے پر عیاشانہ خوردو نوش کی سختی سے ممانعت کئے رکھی اور میرٹ کا بول بالا کیا۔ ان کے ذہن میں فی الحقیقت ملکِ خدا داد کو ریاست مدینہ کے قالب میں ڈھالنے کا تصور تھا اور اسی تناظر میں انہوں نے ذاتِ باری تعالیٰ کے ودیعت کردہ ضابطہ¿ حیات قرآن مجید کو پاکستان کا آئین قرار دیا تھا۔ وہ اس کتاب ہدایت کی روشنی میں ہی پاکستانی معاشرے کو استوار کرنا چاہتے تھے اور برصغیر میں انگریز اور ہندو کی جانب سے مسلمانوں پر مسلط کئے گئے استحصالی نظام کے باعث اس نتیجے تک پہنچے تھے کہ برصغیر کے مسلمانوں کیلئے حاصل کئے گئے الگ خطہ ارضی کو حقیقی معنوں میں اسلامی ریاست کے قالب میں ڈھال کر ہی ان کی فلاح کا راستہ نکالا جا سکتا ہے۔
قائداعظم مزید کچھ عرصہ تک بقید حیات رہتے تو بلاشبہ یہ مملکت خدا داد ریاست مدینہ کے قالب میں ڈھل جاتی مگر شومئی قسمت کہ ان کی زندگی نے وفا نہ کی اور وہ قیام پاکستان کے ایک سال بعد ہی قوم کو داغ مفارقت دے گئے جس کے بعد انگریز اور ہندو کے پروردہ عناصر نے قومی سیاست و معاشرت پر غلبہ حاصل کر لیا اور عوام کو اسی استحصالی نظام میں جکڑ لیا جس سے خلاصی کیلئے بانیان پاکستان قائد و اقبال نے اسلامیان برصغیر کیلئے الگ خطہ¿ ارضی کی ضرورت محسوس کی تھی۔ اس استحصالی نظام کو جرنیلی آمروں کے ادوار میں زیادہ فروغ حاصل ہوا جبکہ ان کی چھتری کے نیچے پرورش پانے والے سیاستدانوں نے بھی اس نظام کو مستحکم بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ نتیجتاً عوام غریب سے غریب تر اور حکمران اشرافیہ طبقات منتخب ایوانوں میںاپنے مفادات کا تحفظ کرتے اور قومی وسائل و دولت کی لوٹ مار کرتے ہوئے امیر سے امیر تر ہوتے گئے جبکہ ان مراعات یافتہ طبقات کی گرفت کیلئے ریاستی قانون بھی بے بس نظر آنے لگا۔ قومی وسائل کو لوٹ مار اور حکومتی اختیارات کے ناجائز استعمال کی یہ داستان لیاقت علی خان دور میں ناجائز کلیموں سے شروع ہو کر میاں نوازشریف کے گزشتہ دور میں پاناما لیکس تک جا پہنچی جس میں بے وسیلہ عوام کیلئے استحصالی شکنجہ درازکرنے اور قومی وسائل کواپنے اقتدار کے زور پر شیر مادر کی طرح چاٹنے کے مناظر جا بجا بکھرے ہوئے نظر آتے ہیں۔
یہی وہ حالات ہیں جن میں عمران خاں قوم کیلئے امید کی کرن بن کر قومی سیاست میں داخل ہوئے اور عوام کو فرسودہ استحصالی نظام، موروثی سیاست اور کرپشن کلچر میں لتھڑے انتخابی اور عدالتی نظام سے نجات دلانے کا عزم باندھا۔ اس حوالے سے ریاست مدینہ کا تصور ہی ان کیلئے زاد راہ تھا جس کی بنیاد پر انہوں نے کٹھنائیوں کے باوجود ہمت نہیں ہاری اور سسٹم کی تبدیلی کے عزم پر کار بند رہے۔ بالآخرانہیں اپنی 22سال کی جدوجہد اور محنت شاقہ کا پھل 25جولائی 2018ءکے انتخابات میں اپنی پارٹی تحریک انصاف کی کامیابی کی صورت میں ملا۔ بے شک ”سٹیٹس کو“ والے فرسودہ نظام سے وابستہ لوگ بھی ان کے قافلے میں شامل ہوئے تاہم عمران خان کی تبدیلی کی لگن اور اس ارض وطن کو اسلامی جمہوری فلاحی معاشرے کے قالب میں ڈھالنے کیلئے ان کے عزم صمیم نے ان کے ساتھ شامل ہونے والے لوگوں کی سوچ بھی تبدیل کر دی۔
آج عمران خاں اپنے پارٹی منشور اور ایجنڈے کی بنیاد پر انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے وفاق اور تین صوبوں میں اپنی اور اپنے اتحادیوں کی حکومتیں تشکیل دے چکے ہیں تو انہوں نے ملک اور قوم کو فرسودہ استحصالی نظام سے نجات دلانے کے عملی اقدامات اٹھانا بھی شروع کردیئے ہیں۔ اس کیلئے انہوں نے اپنی ذات سے احتساب کا آغاز کیا اور خود کو پروٹوکول کلچر سے یکسر دور کر لیا۔ انہوں نے پرتعیش وزیراعظم ہاﺅس میں رہنے کی بجائے اپنے ملٹری سیکرٹری کی سرکاری رہائش گاہ کو وزیراعظم ہاﺅس میں تبدیل کر لیا۔ پروٹوکول میں شامل سرکاری گاڑیوں کے لاﺅ لشکر کو بھی اپنے لئے شجر ممنوعہ قرار دے دیا اور ان گاڑیوں کو فروخت کرکے سرکاری خزانہ بھرنے کا فیصلہ کیا۔ اب وفاقی کابینہ کے پہلے اجلاس میں صدر، وزیراعظم سمیت تمام پبلک شخصیات کے صوابدیدی فنڈز ختم کرنے اور اپنی ذات پر سرکاری وسائل استعمال نہ کرنے سمیت جو بھی فیصلے کئے گئے ہیں وہ کرپشن کلچر میں لتھڑے اس فرسودہ نظام سے قوم کو نجات دلانے اور مملکت خدا داد کو ریاست مدینہ کے قالب میں ڈھالنے کی جانب ہی عملی پیش رفت ہے۔ اگر وہ اپنے دور میں احتساب کاایسا کڑا نظام رائج کر گئے جس میں سب سے پہلے حکمران طبقات کو قانون اور انصاف کے کٹہرے میں کھڑا ہونا پڑے گا اور اسی طرح انہوں نے حکمران اشرافیہ طبقات کی جانب سے قومی دولت وسائل کی لوٹ مار کے تمام راستے بند کر دیئے، میرٹ کا بول بالا کردیا، ملک کے ہر شہری کیلئے انصاف تک رسائی آسان بنا دی، سرکاری ملازمتوں میں اقرباءپروری کی لعنت کا تدارک کر دیا اور آئین و قانون کے مطابق اظہار رائے کی آزادی کو یقینی بنا دیا تو وہ کھیل کے میدان کے بعد سیاست کے میدان میں بھی قوم کے ہیرو بن جائیں گے جبکہ ان کے شروع کئے گئے اصلاحات کے عمل سے ادارہ جاتی بے ضابطگیوں سے بھی قوم کو خلاصی مل جائے گی۔
عمران خاں کی حکومت کو بلاشبہ اندرونی اور بیرونی طور پر بہت بڑے چیلنجوں کا سامنا ہے تاہم جس عزم کے ساتھ انہوں نے اپنے ایجنڈے کو عملی جامہ پہنانے کا آغاز کیا ہے اس کے پیش نظر وہ ملکی سلامتی اور قومی خودداری سے متعلق چیلنجوں میں بھی سرخرو ہو سکتے ہیں اور ملکی سلامتی کیخلاف ملک کے اندر جاری ریشہ دوانیوں کو بھی پنپنے سے روک سکتے ہیں۔ قوم آج بلاشبہ ایک نئے دور میں داخل ہو رہی ہے جو ہرقسم کے استحصال سے نجات، قومی تقاضوں سے ہم آہنگ انتخابی اصلاحات، میرٹ کے بول بالا اور قومی خوشحالی و استحکام کی ضمانت بن کر آیا ہے۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہر قسم کی آلائشوں سے پاک معاشرہ ہی در حقیقت ریاست مدینہ والا معاشرہ ہے جس کا عَلم عمران خاں نے تھام رکھاہے۔ اس جہاد میں قوم ان کی کامرانیوں اور سرخروئی کیلئے دعا گو ہے۔

ای پیپر دی نیشن