اسلام آباد (محمد نواز رضا۔ وقائع نگار خصوصی) باخبر ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ اپوزیشن کی تمام چھوٹی بڑی جماعتوں پر مشتمل ’’گرینڈ الائنس‘‘ قائم کیا جا رہا ہے۔ اپوزیشن جماعتوں کو ’’میثاق جمہوریت‘‘ کی طرز پر’’میثاق پاکستان‘‘ پر اکٹھا کیا جائے گا۔ مولانا فضل الرحمن ایک چارٹر پاکستان پر ملک کی تمام چھوٹی اور بڑی جماعتوں کو اکٹھا کرنے کے خواہش مند ہیں۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) اور جمعیت علماء اسلام کے درمیان آل پارٹیز کانفرنس کے انعقاد کے لئے ایجنڈا تیار کرنے کے لئے رہبر کمیٹی کو فعال بنانے اور حکومت کے خلاف تحریک چلانے کے لئے طریقہ کار وضع کر نے اتفاق رائے ہوگیا ہے۔ تاہم مولانا فضل الرحمن نے اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کرنے چلنا اپوزیشن کی 10چھوٹی جماعتوں کی منظوری سے مشروط کر دیا ہے۔ اس سلسلے میں مولانا فضل الرحمن نے اپوزیشن کی 10 چھوٹی جماعتوں کا اجلاس 27 اگست کی شام 7 بجے اپنی رہائش گاہ پر طلب کر لیا ہے۔ انہوں نے اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو اجلاس میں شرکت کی دعوت نہیں دی۔ اس اجلاس کے بعد دونوں جماعتوں سے بات کی جائے گی۔ چھوٹی جماعتوں کے اجلاس میں جماعت اسلامی، نیشنل پارٹی اور اے این پی ، پختونخوا ملی عوامی پارٹی، بی این پی عوامی، جمعیت اہلحدیث، جے یو پی، قومی وطن پارٹی کو شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔ حکومت سے الگ ہونیوالی جماعت بی این پی مینگل کو بھی شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔ اپوزیشن کی 10 چھوٹی جماعتوں کے اجلاس میں آئندہ کی مشترکہ حکمت عملی کی منظوری دی جائے گی جس میں حکومت مخالف تحریک سمیت مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے حوالے سے حکمت عملی طے کی جائے گی اور یہ بھی طے پائے گا کہ وہ ان دو بڑی جماعتوں کے ساتھ کس حد تک چل سکتی ہیں۔ پارلیمان کے اندر اور باہر تمام سیاسی جماعتوں کو بھی ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا جائے گا۔ مولانا فضل الرحمن نے شہباز شریف کو جے یو آئی اور اپوزیشن کی تمام چھوٹی جماعتوں کے تحفظات سے آگا کر دیا ہے۔ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے مولانا فضل الرحمن سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی۔ اس ملاقات میں مسلم لیگ ن کی طرف سے خواجہ آصف، احسن اقبال خواجہ سعد رفیق، ایاز صادق جبکہ جمعیت علماء اسلام پاکستان کی طرف سے مولانا عبدالغفورحیدری ، مفتی صلاح الدین، مولانا اسعد محمود ودیگر بھی موجود تھے۔ دونوں جماعتوں کے رہنمائوں کے درمیان موجودہ سیاسی صورتحال، مہنگائی، آٹا، چینی بحران اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے، موجودہ حکومت کے خلاف تحریک اور اپوزیشن کی اے پی سی سمیت مختلف امور پر غور کیا گیا۔ اپوزیشن کی مشترکہ حکمت عملی پر اتفاق کیا گیا۔ ملاقات کے بعد صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے میاں شہباز شریف نے کہا کہ ہماری بڑی حوصلہ افزا مشاورت ہوئی ہے۔ ہم نے ایک دوسرے کی بات سنی۔ ملاقات کا مقصد پارلیمان کے اندر اور باہر سیاسی جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے عمران خان کو نااہلی اور نالائقی کی بنیاد پر مین آف دی ائیر قرار دیا ہے۔ نواز شریف کی قیادت میں ہزاروں میگاواٹ بجلی کے پلانٹ لگائے گئے۔ ہم نے لوڈشیڈنگ ختم کی لیکن آج دوبارہ لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے۔ کیا چینی سکینڈل ہمارے دور میں ہوا؟۔ کیا گندم کی قلت ہمارے دور میں ہوئی۔ ادویات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ نوازشریف کے دور میں ہوا؟۔ تیل کی قیمتیں جب پوری دنیا میں زمین پر آگری تھیں تو پاکستان میں یہ قیمتیں آسمان پر چلی گئیں کیا یہ ہماری حکومت میں ہوا؟۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ اپوزیشن کی چھوٹی جماعتوں کا اجلاس بلا چکے ہیں۔ میر حاصل بزنجو کی وفات کی وجہ سے موخر کیا تھا۔ پہلے اپوزیشن کی چھوٹی جماعتوں میں مشاورت ہوگی پھر مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی سے رابطہ کیا جائے گا۔ تقسیم اور یکسوئی کا فقدان پاکستان اور عوام کے لیے مفید نہیں۔ تحفظات اور شکایتیں دور کرکے مشترکہ اور مستحکم حکمت عملی بنانا ہوگی۔ شہباز شریف سے ہونے والی ملاقات کے حوالے سے اپوزیشن کی چھوٹی جماعتوں کے اجلاس میں مشاورت کی جائے گی۔ ہم چاہتے ہیں مشترکہ اپوزیشن ہو، شکایات اور تحفظات باہمی احترام کے ساتھ دور کریں گے۔ حکومت کے خلاف تحریک چلانے پر اتفاق رائے ہے۔ مسلم لیگ ن اور پی پی پی کی مشاورت سے مشترکہ حکمت عملی بنائی جائے۔ صحافی نے شہباز شریف سے سوال کیاکہ الیکشن کے بعد ہونے والی اے پی سی سے آپ گئے تھے اب کیا گارنٹی ہے واپس آئیں گے۔ شہباز شریف نے جواب دیاکہ اب اے پی سی اور رہبر کمیٹی بھی ہوگی۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ باہمی مشاورت کو آگے بڑھائیں گے۔ شہباز شریف کے رابطے پر ان کا خیر مقدم کرتا ہوں۔ چاہتے ہیں اپوزیشن مشترکہ حکمت عملی اپنائے۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ ن کا وفد مولانا فضل الرحمن کی رہائش گاہ پہنچا تو جے یو آئی کے سربراہ نے لیگی وفد کا استقبال کیا۔ میاں شہباز شریف نے کہا کہ مولانا فضل الرحمن کو چند روز قبل فون کیا اور ملاقات کی خواہش ظاہر کی۔