مدافعتِ اسلام 

Aug 26, 2021

نظریہ پاکستان ہماری رگوں میں آب حیات کی طرح رواںہمارے اسلاف کی داستان ہے۔ نظریہ پاکستان کو باطل قرار دینا اسلام سے منکر ہونے کے برابر ہے۔ قوم کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ فرنگی اور ہندو کی سازشوں نے قوم مسلمان کو کس طرح یرغمال بنا رکھا تھا۔ مسلمان کس طرح ذلت و رسوائی کے گڑھے میں گرتے جا رہے تھے۔ معاشرے میں اْنکی عزت وقار مجروح ہونے کے ساتھ ساتھ غلامی کی زنجیریں گلے کا طوق بنتی نظر آرہی تھیں۔ اگر اْسوقت قوم مسلمان کو خوابِ غفلت سے جگانے کیلئے حضرت علامہ اقبال فلسفہ خودی اور مرد مومن کی خصوصیات اْجاگر نہ کرتے، سرسید احمد خان جہالت کے اندھیروں سے مسلمان مرد و عورت کو نکالنے کیلئے علم کی تحریک نہ چلاتے اور قائدِ اعظم محمد علی جناح اپنی حیاتِ جاوداں کو اس قوم کو نذرانے کے طور پہ پیش نہ کرتے تو شاید آج مسلمان تو ہوتا مگر۔۔ ہماری اسلامی مملکت نہ ہوتی۔ادیب اور شاعر لوگ اپنی ذات سے باہر نکل کر صرف قلم تحریر اور کتاب کیلئے وقف ہوتے ہیں۔کتابوں میں خود کو بیان نہیں کرتے۔ تحریر میں اپنی روداد نہیں لکھتے۔ شاعری صرف اپنے محبوب پہ نہیں کرتے بلکہ حضرت علامہ اقبال،فیض احمد فیض، ظفر علی خاں‘ سعادت حسن منٹو ، منشا یاد اور انتظار حسین کی طرح دردِ انسانیت،کرب و الم کی وارداتیں،اپنے لہو میں ڈوبے ہوئے قلم سے، آنسوئوں کی روانی میں اور جذبوں کی صداقت سے بیان کرتے ہیں۔ ایسے وطنِ عزیز کا لیڈر جو برطانیہ لنکن اِن میں اس لیے داخلہ لیتا ہے کہ وہاں پر قانون دانوں کے کْندہ ناموں میں اول ہمارے نبی پیغمبر آخر الازماں کا نام کندہ ہے۔ تو ایسے قائد کا ہر فکر، عمل، فصاعت و بلاغت کی نئی جْہتیں،ہر تحریک۔کلمہ کی بنیاد پر ہونے پہ کیسے شک کیا جا سکتا ہے۔ اْن کا تو سونا بھی کلمہ تھا اور جاگنا بھی کلمہ۔وہ کردار و گفتار کے وہ غازی تھے جو اقبال کی شاعری کا حْسن۔ اور اللہ کے مومن کی معراج ہے۔ جو خود کو’’خادم اسلام‘‘ کہے اور مسلم سٹوڈنٹس کو یہ پیغام دے کہ ’’4ہمارے پاس رہنمائی اور روشنی حاصل کرنے کیلئے قرآن حکیم کی صورت میں عظیم پیغام موجود ہے‘‘۔ اْس کا اتنی بڑی اسلامی مملکت کا بنانا دشمنِ اسلام کے نزدیک بھی ناگزیر تھا۔ آج جتنی بھی سیاسی پارٹیاں ہیں اگر اْن کے سربراہ قائدِ اعظم محمد علی جناح جیسے عظیم رہنما کی ایک ایک خوبی بھی اپنے اندر پیدا کر لیں! کہ جیسے۔ پیپلز پارٹی منافقت سے مبرا ہو جائے۔ تحریکِ انصاف راست گفتار ہو جائے۔ ایم کیوایم قائدِ اعظم کی فہم و فراست لے لے۔مسلم لیگ کردارکی غازی ہو جائے تو یقین کریںنہ قائدِ اعظم کا نہ اقبال کا۔ نہ ہماری آزادیِ وطن کے وقت بے دریغ و بے حساب قربانیاں دینے والوں کا۔ نہ سرحدوں پر منفی درجہ حرارت میں رات رات بھر کھڑے ہو کر جان دینے والی افواج کا۔ نہ دہشت گردی میں روئی کی طرح اْچھالے جانے والے بے گناہ و معصوم جسموں کا۔اندرونی اور بیرونی خانہ جنگی و انتشار کا شکار ہونیوالا پاکستان کبھی ہرزہ سرائی اور ہدف کا نشانہ نہ بنے اور کوئی بھی طاقت اْس کو زوال پذیر نہ کر سکے۔دنیا کی کوئی سیاست بھی اپنے مذہب اور نظریے سے الگ ہو کر نہیں پنپ ستی۔ اور جہاں پر لیڈر یہ کہے کہ اسوقت تک کوئی بھی فرد باضابطہ طور پر اپنے عہدے نہیں سنبھال سکتا جب تک کہ وہ یہ اقرار نہ کر لے کہ ’ ’میں اسلامی نظریے کے تحفظ کیلئے اپنی انتہائی کوشش کروں گا جو پاکستان کی بنیاد ہے اور پاکستان کا ریاستی دین اسلام ہے تو پھر ہم کیسے کہہ سکتے ہیں کہ نظریہ پاکستان اور کلمہ دو الگ باتیں ہیں‘‘ جس نے قرآن میں بیان کردہ دو قومیں ’’مومن اور کافر‘‘کی نکالیںاور دو قومی نظریے کی بنیاد پر تحریکِ پاکستان کا آغاز کیا اْس کی کیفیت کردار دیکھیے کہ سب گواہی پہ بضد ہیں اور انگشتِ شہادت سمت آسمان ہے کہ تو نے مدافعت ِ اسلام کا حق یوںادا کیا ہے جیسے ایک مجاہد وردی کاحق خود کو سیف اللہ بنا کر کرتا ہے۔ مگر وہ مملکت اسلامیہ کا بانی فکر مند تھا کہ’’دمِ آخریں میرا اپنا دل، ایمان اور ضمیر گواہی دے کہ جناح تم نے واقعی مدافعتِ اسلام کا حق ادا کر دیا اور میرا اللہ یہ کہے کہ بے شک تم مسلمان پیدا ہوئے اور کفر کی طاقتوں کے غلبہ میں اسلام کے عَلَم کو بلند رکھتے ہوئے مسلمان مرے‘‘کیا قابلِ تحسین نہیں وہ قوم جس کا لیڈراور بانی’’جناح‘‘ تھے مگر ایسے لیڈر کی کرپشن میں دھنسی ہوئی قوم،دہشت گردی کی تنظیموں سے ملکر خاک و خون کی ندیاں بہانے والی قوم، ناقابل معافی جرم تفرقہ میں پڑ کر اسلامی مملکت کے بٹوارے کرنیوالی قوم نے۔کتنا المناک کر دیا رْخِ تصویر کو کہ۔!ملک دشمن خردِ ناقص نہیں، سربرآوردہ رہنما نہیں، سیاست کا میدان نہیں اور قانون بالا نہیں بلکہ رویے ہیں۔ تعصبانہ رویہ، بد عنوانی کا رویہ،چوربازاری کا رویہ اور بغل میں چھری منہ میں رام رام کرنے کا رویہ۔ راقمہ نہیں سمجھتی کہ ہمارے دانشور، مبلغِ دین،جذب و انہماک سے اتباعِ رسول کرنیوالے مسلمان اِن رویوں کو نظریہ پاکستان کی کسوٹی پر نہ پرکھ سکیں۔ دورِ حاضر کا انسان ارتقائے حیات سے لیکر بقائے حیات کیلئے جدو جہد مسلسل کا حامل ہے۔ بشر عظیم ہونے کے ناطے سے اس قحط الرجال کے دور سے نبرد آزما ہونے کیلئے ۔ صرف اسلام کا فرزندِ عظیم، ،مومن ہی سینہ سپر ہو سکتا ہے۔

مزیدخبریں