شوگر ڈرنکس :  میٹھا زہر

موٹاپا صحت کا ایک عالمی صحت کے مسئلہ بن گیا ہے ڈبلیو ایچ او کے اندازوں کے مطابق، دنیا بھر میں 1.6 ارب بالغ افراد کا وزن زیادہ ہے اور کم از کم 400 ملین موٹے ہے۔ماہرینِ صحت کے مطابق زیادہ وزن اور موٹاپا  دل اور اس سے متعلقہ  بیماریوں،  ہائی بلڈ پریشر، ٹائپ 2 ذیابیطس گردوں اور کینسر کی کچھ اقسام کی ایک بڑی وجہ ہے۔ پاکستان کے حالات اس سے بھی بدتر ہیں۔  پاکستان میں 41.3 فیصد بالغ افراد موٹے یا زیادہ وزن اور 37 فیصد ہائی بلڈ پریشر کے شکار ہیں۔  تولیدی عمر کی خواتین میں زیادہ وزن اور موٹاپا 2011 سے 2018 تک 28 فیصد سے بڑھ کر 38 فیصد ہو گیا ہے۔ اس عرصے میں 5 سال سے کم عمر بچوں میں موٹاپے کی شرع دوگنا ہو گئی ہے جو ٹائپ 2 ذیابیطس کی ایک بڑی وجہ ہے۔ انٹرنیشنل ز یابیطس فیڈریشن کی رپورٹ برائے 2021 تشویشناک اعداد و شمار ظاہر کرتی ہے کہ پاکستان  3 کرڑ 30 لاکھ  سے زیادہ کیسز کے ساتھ دنیا بھر میں ٹائپ 2 ذیابیطس کا تیسرا  ملک بن گیا ہے اور صرف دو سال میں یہ تعداد  1کروڑ 92 لاکھ سے 3 کروڑ 30 لاکھ تک پہنچی ہے۔جس تیزی سے اس مرض  میں اضافہ ہوا ہے اس کے مطابق پاکستان  سب سے زیادہ تیزی سے زیابیطس میں  اضافہ ہونے والا  دنیا کا پہلا ملک بن گیا ہے۔  ڈبلیو ایچ او کے مطابق نان کمیونیکیبل ڈیزیز  کی وجہ سے پاکستان میں 2016 میں 8لاکھ سے زیادہ اموات ہوئیں اور ان میں 4 لاکھ سے زیادہ ا موات کی وجہ ذیابیطس اور اس کی پیچیدگیاں ہیں۔ ذیابیطس کی وجہ سے روزانہ 1100 جانیں ضائع ہوتی ہیں۔ اگر ان بیماریوں پر ہونے والے اخراجات کا تخمینہ لگایا جائے تو2015 میں موٹاپے کی لاگت کا تخمینہ 428 ارب پاکستانی روپے تھااور
 2021میں ذیابیطس پر ہونے والے اخراجات 2640 ملین امریکی ڈالر سے  زیادہ تھے۔
ہمم کیوں کہتے ہیں شوگری ڈرنکس  ایک میٹھا زہر ہیں۔ ماہرین صحت کے مطابق موٹاپے، زیابیطس،دل  گردوں اور کئی قسم کے کینسر کی ایک بڑی وجہ میٹھے کا زیادہ استعمال ہے اور میٹھے کا سب سے زیادہ استعمال میٹھے مشروبات کی صورت میں ہوتا ہے کیونکہ میٹھے مشروبات کی 250ملی لیٹر کی  ایک بوتل میں 7سے 9 چمچ چینی موجود ہوتی ہے۔یہ چینی جسم کو 150 کیلوریز فراہم کرتی ہیں لیکن ان میں کوئی غذائی اجزاء نہیں ہوتے۔اس کے استعمال کے بعد آپ پیٹ بھرا ہوا محسوس نہیں کرتے جیسے آپ ٹھوس غذا کے بعد محسوس کرتے ہیں۔ اس سے وزن بڑھنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے اور ساتھ ساتھ ٹائپ ٹو ذیابیطس، امراض قلب، ہائی بلڈ پریشر اور دیگر امراض کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ مزید برآں، میٹھے مشروبات کا زیادہ استعمال قبل از وقت موت کے  خطرے کو بڑھا دیتا ہے۔ پاکستان میں گزشتہ 15 سال میں چینی والے مشروبات کے گھریلو استعمال میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ یہ آنکھیں کھول دینے والے  تشویشناک حقائق اور اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ہم انتہائی گھمبیر بحران جیسی صورتحال سے دوچار ہیں اوران حالات سے نمٹنے کے لیے ہمیں  جنگی بنیادوں پر کام کرکرنا ہو گا ورنہ ہمارا صحت عامہ کا نظام تباہ ہو جائے گا۔ہمیں دیکھنا ہو گا کہ دنیا نے اس خطرے کا مقابلہ کیسے کیا اور ہم کس طرح دنیا کے تجربات سے فائدہ اٹھا کر  اپنے ملک کو اس بحرانی صورت حال سے بچا سکتے ہیں۔ دنیا نے جن طریقوں سے ان مشروبات کے استعمال میں کمی لا کر اپنے ملک میں بیماریوں میں کمی لائی ان میں چند آزمودہ طریقوں میں سب سے پہلا اور موئثر ہتھیار ان پر ٹیکس میں اضافہ ہے۔  اس کے ساتھ ساتھ ان پر مارکیٹنگ پر پابندی، سکول فوڈ پالیسی اور front of pack labelling شامل ہیں۔ اگر صرف ٹیکس کی بات کی جائے تو دنیا کے 50 سے زیادہ ممالک نے میٹھے مشروبات پر ٹیکس میں اضافہ کر کے ان کے استعمال میں کمی  لائی جس سے نہ صرف وہاں ان بیماریوں میں کمی آئی بلکہ اضافی ٹیکس سے ان کے ریوینیو میں بھی اضافہ ہوا۔  سعودی عرب خلیج کا پہلا ملک تھا جس نے 2017 میں میٹھے مشروبات پر 50فیصد اور انرجی ڈرنکس پر  100فیصد  ٹیکس میں اضافہ کیا اور 2018 میں ان پر 5فیصد وہلیو ایڈڈ ٹیکس لگایا تو  2016 کے مقابلے میں 2018 میں  انرجی ڈرنکس کی ? ?فروخت میں 58فیصد اور سوڈا کی فروخت میں 41فیصد  کمی واقع  ہوئی۔ فلپائن نے میٹھے مشروبات پر ٹیکس بڑھا کر نہ صرف بیماریاں کم کی بلکہ 40 ملین ڈالر اضافی ریوینو  بھی حاصل کیا جسے صحت عامہ کے پروگراموں پر خرچ کیا گیا۔

 پاکستان میں ان مشروبات پر ٹیکس کی شرع علاقے کے دیگر ممالک سے بہت کم ہے۔ ہندوستان میں ان پر  40 فیصد  ٹیکس ہے۔ مالدیپ میں ایک لیٹر مشروب پر ہیلتھ لیوی 2.18 ڈالر ہے جو پاکستانی روپوؤں میں 335 روپے بنتی ہے۔ اسی طرح قطر  اور بحرین نے انرجی ڈرنکس پر  100 فیصد اور سوڈا پر 50 فیصد ٹیکس میں اضافہ کیا جس سے ان کے استعمال میں نمایاں کمی آئی جبکہ پاکستان میں کاربونیٹڈ واٹر  پر  صرف    13 فیصدفیڈرل ایکسایز ڈیوٹی ( ایف ای ڈی )  اور 17 فیصد سیلز ٹیکس ہے جبکہ جوسز پر ( ایف ای ڈی ) بلکل نہیں ہے۔ ان مضر صحت چیزوں پر ٹیکس لگا کر پاکستان  ان سے پیدا ہونے والی بیماریوں میں نمایاں کمی کے سا تھ ساتھ سالانہ اضافی ریوینو بھی حاصل کر سکتا ہے جسے صحت عامہ کے پروگراموں پر خرچ کیا جاسکتا ہے۔ اس طرح یہ ایک ون ون والی صورت حال ہے یعنی بیماریوں میں بھی کمی اورحکومت کے ریونیو میں بھی اضافہ۔  حکومت سے درخواست ہے کہ ضروریات زندگی پر ٹیکس لگانے کے بجائے ان مضر صحت چیزوں پر ٹیکس بڑھایا جاء اور انڈسٹری کے مفادات کی بجائے  عوام کی صحت کا خیال کیا جائے

ای پیپر دی نیشن