عوام گزشتہ 74سال سے لیڈر کی تلاش میں ہے جو اس عوام کو اسلامی فلاحی ریاست بنا کر دے ۔لوگ امن و امان سے رہیں ۔کوئی بھوکا نہ سوئے بھوک سے مرنا تو دور کی بات ہے۔کسی گورے کوکالے پر اور کسی کالے کو گورے پر کو فوقیت حاصل نہ ہو۔عوام جو چاہتی ہے یہ نا ممکن نہیں لیکن پاکستان میں یہ بہت مشکل ہے۔مشکل اس لیے ہے کہ یہاں پر سیاست کمرشل ہو چکی ہے ۔جس سیاستدان کو معاشرے کے لئے رول ماڈل ہونا چاہیے وہ سیاستدان خود بزنس کمیونٹی کو رول ماڈل مانتے ہوئے اس کی تقلیدمیں پاگلوں کی طرح لگے ہوئے ہیں۔ ٹکٹ کے اجراسے الیکشن لڑنے تک پارٹیوں کے چندوں سمیت پورے کا پورا نظام بزنس کمیونٹی کے رحم وکرم ہے ۔ایسے میں عوام کے پاس صرف اور صرف ایک ووٹ کا اختیار ہے جو وہ عام انتخابات میں پوری ایمانداری سے اداکرتی ہے اور ووٹ لیکر برسراقتدار آنے والے سیاستدان عوام سے وعدوں کو ایک طرف سنبھال کر رکھ کر بزنس کمیونٹی کو اپنا آئیڈل بنا کر ناک کی سیدھ پر چل پڑتے ہیں۔بلاشبہ عوام کے پاس ووٹ کا اختیار ہے لیکن پاکستانی تاریخ میں کبھی 80فیصد ووٹ پول نہیں ہوئے کیونکہ سیاستدانوں کے رویوں سے عرصہ 10سال تک پارٹی کے جان دینے والے جیالے ،شیرسبھی تنگ پڑجاتے ہیں جب ان کے اپنے سر ماں باپ اور بیوی و بچوں کی ضروریات کابوجھ پڑتا ہے تو ایسے موقع پر ان کوپارٹی کی جانب سے چند لوگوں کے علاوہ کسی کے لئے کوئی جگہ دکھا ئی نہیں دیتی تو وہ اپنے پیاروں کی ضروریات کے بوجھ کو اچھے انداز میں اٹھانے کے لئے کوئی کام دھندہ کی تلاش شروع کر دیتے ہیں اور پھر مسلسل محنت کے ساتھ کہیں نہ کہیں اپنی جگہ بنا لیتے ہیں۔یہی وہ وقت ہوتا ہے جس میں ان کی اولاد جوان ہو چکی ہوتی ہے اور اپنے بزرگوں سے ناانصافی کے بدلے کے لئے اندر ہی اندر عزم پالتی ہے کہ وہ اپنے والدین سے سیاسی طور پر آگے بڑھ کر دکھائیں گے۔اسی موقع کا فائدہ اٹھا کر بعض مقتدر حلقے ہر 10سے 15سال کے بعد ان نوجوانوں کو ایک نیا لیڈر عنایت کر دیتے ہیں اور وہ ان کو وہ ہی خواب دیکھاتا ہے جو ان سے پہلے ان کے باپ دادا کو دکھائے گئے تھے۔جب ان کے والدین ان کو سمجھاتے ہیں کہ یہ کیا کر رہے ہو اس کا کوئی فائدہ نہیں تو وہ کہتے ہیں ہمارا لیڈر ان کے چوروں جیسا نہیں ہے۔جس کے جواب میں والدین چپ کر جاتے ہیں اور کہتے ہیں اچھا اپنا شوق پورا کرلو۔چونکہ نوجوانوں کے لئے اس کے علاوہ معاشرے میں اور کوئی بہتر موقع نہیں لہذا والدین بھی یہ سوچ کر صبر کا گھونٹ پی لیتے ہیں ۔
یہ سلسلہ کب تک چلے گا؟یہ سوال اکثر لوگ پوچھتے ہیں ۔میرا ان کو یہی جواب ہوتا ہے کہ جب تک عام انتخابات میںپاکستان کی اکثریت ووٹ کے عمل میں حصہ نہیں لیتی تب تک۔پاکستان میںباقی سیاسی سرگرمیوں میں نہ سہی لیکن ووٹ ڈالنے کے لئے لوگوں کی اکثریت کو پولنگ بوتھ تک جانا ہوگا۔سوچیں جب 80فیصد یا اس سے بھی اکثریت ووٹ دیگی تو اقتدار میں آنے والے سیاستدانوں میں جوش میں ووٹ کرنے والی یوتھ کے ساتھ ساتھ سمجھدار لوگوں کا بھی ووٹ شامل ہوگا جن کا سہانے خوابوں میں آنا آسان نہیں ہے۔اس کے علاوہ جو دھاندلی کی جاتی ہے وہ بھی زیادہ سے کم میں تبدیل ہوجائے گی اور عوامی فیصلے کا کچھ نہیں بگاڑ پائے گی۔اس کے برعکس 40فیصد ووٹ پول ہونے کا نتیجہ آپ لوگوں کے سامنے ہے اس کا واضح اور صاف مطلب یہ ہے کہ اس 40فیصد ووٹر کو انتخابات میں حصہ لینے والی تمام پارٹیوں کے ووٹرز پر تقسیم کرلیں توان پارٹیوں کے حصے میں آنے والے ووٹروں کی تعداد سامنے آجائیگی اور ان کے سب سے بڑی جماعت ہونے کی قلعی بھی کھل جاتی ہے۔کبھی کسی نے سوچا ہے کہ جن ممالک میں جمہوریت ہے وہ سب کے سب ترقی یافتہ کیوں ہوتے جا رہے ہیں اور پاکستان ہے کہ ترقی پذیری سے آگے ہی نہیں بڑھ پا رہا ہے۔کیونکہ یہاں جمہوریت کمزور ہے اور اس کی کمزور ی کی بنیادی وجہ لوگوں میں پھیلی ہوئی مایوسی ہے۔یہی مایوسی انہیںاپنی زنجیروں میں جکڑے ہوئے کوئی ایسا فیصلہ نہیں لینے دیتی جس سے جمہوریت مضبوط ہو۔سب اکثریت میں موجود شریف النفس لوگ یہ کہہ کر کہ ووٹ ڈالنا فضول کام ہے اور ان کے ایک ووٹ سے کیا ہوجائے گا اپنا ووٹ ضائع کر دیتے ہیں ۔جن سے ایک تو پارٹیوں میں موجودنوسربازوں کو اپنے تعلق والوں کا خاموشی سے جعلی ووٹ ڈلوانے کا موقع مل جاتا ہے۔دوسرااسی سوچ کی بدولت وہ اکثریت ہوتے ہوئے بھی اقلیت کا شکار ہوجاتے ہیں۔جس کے نتیجے میں پالستان باگ دوڑبیرونی عناصر کے ایجنٹوں کے ہاتھوں میںآجاتی ہے اور پھر اداروں کو بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اس تناظر میں پاکستان کا سب سے بڑا مجرم ؟وہ پاکستانی ہے جو انتخابات والے دن پولنگ میں حصہ نہیں لیتا اور اس کوفضول سمجھتا ہے ۔حالانکہ اسے چاہیے کہ اس حوالے سے مزید لوگوں کو آگاہی دے اورشریف آدمی کو ووٹ دینے پر قائل کرے۔چاہیے کوئی آزاد ہی کیوں نہ کھڑا ہو۔جس دن ایسے لوگوں نے خاموشی سے کسی شریف اور ایسے آدمی کو دل سے ووٹ دینا شروع کردیاکہ جس کے پاس پوسٹر چھپانے کے بھی پیسے نہ ہوں اس دن بہت شریف لوگوں کی اکثریت کو حوصلہ ہوگا کہ عوام ان کے ساتھ ہے اور ان پر مشتمل اکثریت ایوان میں آکر ریاست کے لیے حب الوطنی سے سرشار ہوکر اقدامات اٹھائے تو ہوسکتاہے ہم ترقی پذیری سے نکل کر ترقی یافتہ کی لائن میں کھڑے ہوجائیں۔اگر ایسا نہیں کرنا تو پھر محمود غزنوی کو مسلمانوں اپنا ہیرو ماننا چھوڑ دو۔کیونکہ اس نے تو ایک دو حملوں کے بعد ہار نہیں مانی اور مسلسل سترہ حملے کیے اور جیت کو اپنے عزم اورمقصد کو یقینی کامیاب بنانے تک ہار نہیں مانی۔اس جیت کے لئے اس کو اٹھارواں اور اس سے بھی زیادہ حملے کرنے پڑتے تو وہ یقینا کرتا۔ان حملوں کا حوصلہ اس نے ایک چیونٹی سے لیا تھا۔جی ہاں جن دوستوں کو معلوم نہیں تو ان کو بتاتا چلوں کہ مسلسل تیسرے حملے میں ناکامی کے بعد محمود غزنوی بہت پریشان اور مایوس ہوکر ایک جگہ بیٹھا ہوا تھا کہ اتنے میں اس کی نظر ایک چیونٹی پر پڑی جو دیوار پر چڑھتے ہوئے بار بار گر رہی تھی ۔دیوار پر چڑھنے کی کوشش میں وہ بار بار نیچے گرتی لیکن پھر کوشش کرتی یہ کوشش اس نے کوئی 20مرتبہ کی تو کامیاب ہوگئی۔محمود غزنوی نے سوچا کہ اگر چیونٹی ہمت نہ ہار کر بار بار کوشش کرکے کامیاب ہو سکتی ہے تو میں کیوں نہیں ؟میں تو انسان ہوں۔
محمود غزنوی نے سوچا تھاکہ…!
Aug 26, 2022