بارش رحمت بھی اور زحمت بھی 

اللہ تعالی نے ہمیں ان گنت نعمتوں سے نوازا ہے جن کا نہ ہم شمار کر سکتے ہیں اور نہ ہی شکر ادا کر سکتے ہیں ان نعمتوںمیںسب سے اہم صحت و تندرستی اور جسم کے تمام اعضائ￿  کا صحیح کام کرنا ہے اس کے علاوہ مختلف موسم اور ہر موسم کے اپنے پھل اور سبزیاں ہیں جن کی اہمیت اور افادیت سے کسی بھی طرح منہ نہیں موڑا جا سکتا ۔ہم بہت خوش قسمت ہیں کیوں کہ اللہ تعالی نے ہمیں گرمی' سردی ' بہار اور خزاں کے علاوہ برسات کے موسم سے بھی نوازا ہے ،کتنی خوبصورت بات ہے کہ ایک ننھا سا بیج زمین میں بویا جاتا ہے جو مختلف پودوں' بیلوں اور تن آور درختوںمیں بدل  جاتا ہے پھر اس پر رنگ برنگے اور دل کو لبھانے والی خوشبو کے حامل پھول اور پھل و سبزیاں اگتی ہیں جن میں ہمارے لئے کئی فوائد چھپے ہوئے ہیں ان پودوں' پھلوں اور سبزیوں کو پروان چڑھنے یا پکنے کے لئے تیز دھوپ اور کبھی بارش کے پانی کی ضرورت پڑتی ہے برسات کاپانی ان کی افزائش کے لئے بہت اہمیت رکھتا ہے ۔اللہ تعالٰی قرآن مجید میں فرماتے ہیں کہ : 
"تم اپنے پروردگار کی کون کون سی نعمت کو جھٹلاؤ گے " جس قدر اللہ تعالٰی نے ہمیں نعمتیں عطا کی ہیں ہم انسان اسی قدر زیادہ نا شکرے ثابت ہوئے ہیں۔ زندگی بہت خوبصورت ہے اور درپیش مسائل اس کی خوبصورتی میں اضافہ کرتے ہیں ہمیں سوچنے اور محنت کرنے پر اکساتے ہیں اگر یہ مسائل نہ ہوں تو ہماری زندگی یکسانیت کی وجہ سے بوریت کا شکار ہو جائے گی ۔اب ان مسائل کوہم کیسے حل کرتے ہیں یا ان کو اپنے لئے چیلنجز یا مواقع میں کیسے تبدیل کرتے ہیں یہ ہم پر اور ہماری سوچ پر منحصر ہے ۔قدرت ہمیں لطف اندوز ہونے کے مواقع فراہم کرتی ہے لیکن ہم محدود وسائل کی بدولت ان سے استفادہ نہیں اٹھا سکتے ۔پانی کی قلت اور خشک سالی کے ستائے لوگوں کی دعائیں رنگ لے آئیں اور بارشوں کا سلسلہ شروع ہو گیا لیکن کچھ اداروں  اور افسروں کی نا اہلی کی وجہ سے اس برستے پانی سے فائدہ نہ اٹھایا جا سکا ۔سالوںسال سے یہی سلسلہ چلتا آ رہا ہے لیکن ہم کوئی تدبیر نہیں کر پاتے کہ اس پانی کو ذخیرہ کر لیں ۔ایک زمانہ تھا کہ برسات کے موسم سے خوب لطف اٹھایا جاتا تھا ۔کھانے پینے کا خاص اہتمام ہوا کرتا تھالیکن اب بارش رحمت سے زیادہ زحمت بن گئی ہے ۔ پورے ملک کا ایک ہی حال ہے اسکے پیچھے ہماری نا اہلی' ناقص اقدامات اور نامناسب حکمتِ عملی ہے کہ پل ' سڑکیں ' سوسائیٹیاں بناتے وقت نکاسی آب کا خیال نہیں رکھا جاتا  جیسا پہلے کے دور میں خاص طور پر رکھا جاتا تھا تفریح گاہوں ' گلی کوچوں اورسڑکوں پرپھینکاگیاکچرابھی پانی کے بہاؤ میں رکاوٹ بنتا ہے اور یہ کچرا بھی ہم ہی پھینکتے ہیں جس پر ہمیں کوئی شرمندگی نہیں ہوتی ۔اس کے علاوہ اب آبادی میں ہوشربا اضافے کی وجہ سے زمین پانی جزب نہیں کر پاتی کیوں کہ ہر طرف بلند و بالا عمارتیں تعمیر کر دی گئی ہیں حتیٰ کہ گندے پانی کے نالے کھلے پڑے ہیں جو برسات میں بھر جاتے ہیں اوران کا گندہ ' آلودہ پانی سڑکوں ' گلیوں میں بہتا ہوا مستیاں کرتا ہوا نظر آتا ہے جس کو نکالنے کا کوئی انتظام نہیں جوکئی مضرِ صحت بیماریوں کو جنم دیتا ہے
 یہی نہیں بلکہ یہ گندہ پانی لوگوں کے گھروں میں بھی داخل ہو جاتا ہے اب یہ بتائیں کہ ایسے میں ایک عام آدمی کیسے موسموں سے یا بارش جیسی رحمت سے لطف اندوز ہو سکتا ہے ۔ہر سال کی طرح محکمہ موسمیات تنبیہہ کرتا ہے کہ بارشیں تباہی لا سکتی ہیں لیکن محکمے اور ادراے جن کواپنے مفاد کے آگے کچھ نظر نہیں آتا یا فرق نہیں پڑتا


 اور وہ ان آفات سے نمٹنے کے لئے کوئی مناسب اقدامات نہیں کرتے۔پانی ذخیرہ نہیںکیاجاتا اور نہ ہی اس کی نکاسی کے انتظامات کئے جاتے ہیں ۔جہاں ٹیکنالوجی نے اتنی ترقی کر لی ہے وہاں ہم آج بھی اپنے بنیادی مسائل میں ہی گھرے ہوئے ہیںاگرہم ترقی یافتہ ممالک کی بات کریں تو بارشیں وہاں بھی ہوتی ہیں لیکن وہ ممالک اپنے بہترین  اور جدید انفرا اسٹرکچڑ کی وجہ سے اس موسم سے باقاعدہ لطف اندوز ہوتے ہیں ۔ متعلقہ حکام کو چاہئیے کہ مندرجہ ذیل کام کریں تاکہ مسائل کو حل کرنے کی طرف جایا جا سکے ٭ تعمیرات کے وقت نکاسی آب کا خاص خیال رکھا جائے ٭
تعمیراتی منصوبوں کو جلد مکمل کیا جائے یا طوالت کا شکار نہ کیا جائے تاکہ کھدائی کی گئی جگہ دیگر مسائل کو جنم نہ دے ٭بارش کے پانی کو زیادہ سے زیادہ ذخیرہ کیا جائے تاکہ مستقبل میں پانی کی کمی کا سامنا نہ کرنا پڑے ٭ندی نالوں' تفریح گاہوں ' گلی کوچوں اور محلوں کی صفائی ستھرائی کا خاص خیال کیا جائے تاکہ برسات میں پانی کے بہاؤ میں مشکل پیش نہ آئے ٭چھوٹے چھوٹے ڈیم بنائے جائیں تاکہ اضافی پانی سمندر میں پھینک کر ضائع ہونے سے بچایا جا سکے ٭برسات کے دنوںمیں تمام  علاقوں میں اسپرے کیا جائے تاکہ کھڑے پانی میں پیدا ہونے والے مچھروں سے نجات حاصل ہو سکے ۔بارش اللہ تعالٰی کی رحمت ہے اس کو زحمت میں تبدیل نہ کیا جائے ۔

ای پیپر دی نیشن