روشنیوں کا شہر اور حافظ نعیم الرحمان  

سوال یہ ہے کہ دوکروڑ سے زائد آبادی کے حامل شہر کراچی  کی قسمست  کون بدلے گا ؟ کراچی کے لیے کس نے اپنی توائیاں صرف کی ہیںِ کون ہے ٓص حقیقی سیاسی وارث؟ کراچی سے محبت کے دعوے کتنے لوگوں نے کیے اور گرائونڈ پر کون نظر آتا ہے؟ کراچی کو کس نے امن دیا اور کراچی کو چونا کس نے لگایا؟ کراچی جو کبھی روشنیوں کا شہر تھا ۔معاشی حب یعنی جس سے ہماری معیشت کا پہیہ چلتا تھا ، اسے کس کی نظر لگ گئی۔  جب مشہور تھا کہ کہیں کاروبار نہیں چل رہا تو کراچی چلے جائو ، کاروبار بھی ملتا تھا اور سکون بھی ملتا تھا۔ کراچی کے پہناوے اور کھابے دنیا میں ایک منفرد مقام رکھتے تھے۔ مگر اب 3دہائی سے کراچی مسائلستان کا منظر نامہ ہے ۔ گندا پانی ، غلاظت و تعفن، ٹوٹی سڑکیں اور ٹرانسپورٹ کی عدم فراہمی جیسے بڑے اور سنجیدہ مسائل کا شکار ہے۔ کراچی کبھی پورے پاکستان کی میزبانی کرتا تھا اور اسے اپنے اندر سمو لیتا تھا۔ کراچی محبتوں اور آشتیوں کا مینارہ تھا مگر اب کراچی رہنے کے قابل نہیں رہا۔ 150 ممالک سے زیادہ آبادی رکھنے والے شہر کراچی میں تعلیم وصحت کی سہولیات کا انتہائی فقدان ہے۔ تعلیم کے میدا ن میں صرف اور صرف دو جامعات ہیں ۔ کراچی کا تعلیمی بجٹ 300 ارب سے زائد ہے مگر ایسا کوئی سرکار ی سکول نہیں ہے جہاں کوئی مڈل کلاس یا اپر مڈل کلاس اپنا بچہ بھیجنے پر راضی ہو ، شہر کے سنگین  حالات کیسے ہوئے ؟کراچی کا اسٹیک ہولڈرہونے کا دعوے توسبھی کرتے ہیں۔ الطاف حسین کے تلمیذان خواص فاروق ستار، خالد مقبول صدیقی، حیدر عباس رضوی ، وسیم اختر، مصطفی کمال اور ایسے سینکڑوں افراد جو اب بھی موجود ہیں کچھ صاحبان تو سانحہ بلدیہ فیکٹری  کے جرم میں براہ راست ذمہ دار ہیں۔  جہاں تک بات ہے کراچی کی تحریک انصاف کی توحقیقت یہ ہے کہ عمران اسماعیل، علی زیدی، فیصل واوڈا، خرم شیر زمان اور شمیم نقوی کراچی کے مسائل سے کوئی آگاہی نہیں رکھتے۔ دیکھئے !! کراچی نے سب کو آزمایا ہے ۔مگر کراچی میں نعمت اللہ خان دور میں جو ریکارڈ ترقیاتی کام ہوئے وہ اپنی مثال آپ تھے۔ اس میں شک نہیں کہ کراچی میں جتنی قربانیاں جماعت اسلامی نے دیں وہ حق دار ہے کہ اسے کراچی کا نظم و نسق سونپ دیا جائے تاکہ وہ بہترین کراچی کا خواب پورا کر سکے۔ کراچی کے مسئلے پر جماعت اسلامی ایک موثر آواز ہے۔ مخالفین گوا ہ ہیں کہ سابق مئیرکراچی نعمت اللہ خان نے 50 سے زائد بڑی شاہرائیں بنائیں۔ فلائی اوورز بنائے ۔ اورپانی کا سو ملین گیلن کا منصوبہ مکمل کر کے گئے اور آج کراچی پانی کی بوند بوند کو  ترستا ہے ۔ پارکس بھی بنائے ۔ بے شمار ترقیاتی کام کیے۔ مگر بدقسمتی ملاحظہ کریں کہ ایک بہترین بنیاد فراہم کرنے کے باوجود آنے والی حکومتوں نے سب کچھ تباہ و برباد کر کے رکھ دیا ۔ اب کراچی کی کوئی اونر شپ لینے کو تیار نہیں۔ سامعین اب کراچی کو بدلنا ہو گا۔ کراچی میں ایسے شخص کا انتخاب ہونا چاہیے جو عوام میں ہوتا ہو اور عوام کے دکھ دردکا مداوا کرنے والاہو۔ کے الیکٹرک مافیا ہو، ایم کیوایم کی سختیاں ہوں ، پیپلزپارٹی کی غنڈہ گردیا ں ، نسلہ ٹاور کے مکینوں کا مسئلہ ہو یا بحریہ ٹائون کراچی کے لوگوں کے ساتھ کیے جانے والے مظالم…    ہر جگہ حافظ نعیم کھڑا نظرآتاہے۔حافظ نعیم کا چنائو ہی کیوں؟ کیوں کہ انجینئر حافظ نعیم کی یہ پانچ خصوصیات اسے کسی بھی دوسرے میئر کے امیدوار سے ممتاز کرتی ہیں۔ حافظ نعیم ایماندار اور دیانت دار ۔ اُصول پسند اور میرٹ پر بات کرنے والا ،دردِدل رکھنے  والا ، رضاکاروں کی بہترین ٹیم موجود ہے جو کراچی کے لیے حقیقی معنوں میں کچھ کرنے کا جذبہ رکھتی ہے۔ انجینئر حافظ نعیم الرحمان کا پلان بھی بہت زبردست ہے۔ 
جب  مختلف وی لاگرز اور سوشل میڈیا ایکٹیوسٹس نے حافظ نعیم سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ میئر کا انتخاب جیت کر سب سے پہلے شہر کراچی کی بہتری کے لئے 5 کام کریں گے ۔ جن میں کرپشن نہیں ہو گی ۔جو بجٹ ہو گا وہ لگے گا۔ کوالٹی پر سمجھوتہ نہیں ہوگا ۔ چیک اینڈ بیلنس کا بہترین مربوط نظام ہو گا ۔کراچی کے ہر ادارے ، ہر مسئلے اور ہر شہری کو اون کیا جائے گا۔حافظ نعیم الرحمان بتاتے ہیں کہ سب سے پہلے کراچی کا روڈ انفراسٹریکچر بہتر بنانا ہے ۔ دوسرے نمبر پر صفائی کے نظام کو بہتر بنائیں گے کیوں کہ کراچی کی اکثر جگہوں میں گٹر نالیوں اور پینے کے پانی کی لائنیں مل جاتی ہیں۔ گٹر اور غلاظت کے ڈھیروں اور کچری کنڈیوں کو ختم کریں گے اور تین سے چھے ماہ میں صفائی کے نظام کو بہتر بنائیں گے۔تیسرا اور اہم کام ٹرانسپورٹ کا پہیہ چلاناہے۔  چوتھا اہم ترین کام یہ ہے کہ ہم آئی ٹی انڈسٹری بنائیں گے ۔پانچویں نمبر پر ہم دو سے تین سو ایسے مثالی سکول بنائیں گے جن میں کوئی بھی متوسط اور صاحب ثروت فرد اپنے بچے کو داخل کراتے ہوئے فخر محسوس کرے۔ ایسا لگتا ہے کہ جو پیٹرن حافظ نعیم الرحمان ریپلیکٹ کرنا چاہ رہے ہیں یہ ترکی کے صدر طیب رجب اوردگا ن کا ماڈل ہے کہ جب وہ میئر تھے تو ترکی کو آفاق کی بلندیوں پر چلا گیا۔ کاش کہ ہم اس بار حافظ نعیم کو منتخب کرائیں اور کراچی کی تقدیر بدلنے کے لیے انہیں اختیارات بھی دیں۔ 

ای پیپر دی نیشن