”سیاستدانوں کو سپردِ سیلاب کردینا چاہئے“

تاریخی شواہد بتاتے ہیں کہ جب خالق ِ کائنات کسی قوم سے ناراض ہوتا ہے تو اُس پر اپنا کوئی عذاب نازل کردیتا ہے ، یہ عذاب بعض اوقات کوئی وبا بھی ہوتی ہے مگر انسان نے آج تک اِ ن عذابوں سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ابھی کچھ عرصہ پہلے بلکہ ابھی تک وبا کی صورت میں کرونا کے ایک حقیر جرثومے نے لاکھوں انسانوں کو کھا لیا ہے ، مگر انسان نے اپنی سائنسی چالاکی سے اُس جرثومے کو مصالحے دار تکہ بوٹی کی طرح کھا لیا ہے اور ڈکارتے ہوئے پھر میدانِ حیات میں برسرکار ہو گیا ہے۔ میرا ملک آج کل سیلاب کے عذاب میں گرفتار ہے مگر پھر بھی سیاستدان حُبِ حکومت میں اِس طرح گرفتار ہے کہ اگر اِس سیلاب میں کرسیوں کے ماتھے پر وزارتوں کے لیبل لگا دئیے جائیں تو یہ سیاستدان ٹھاٹھیں مارتے اِس سیلاب میں کُود پڑیں گے اَور اپنی اپنی کرسی پر براجمان ہوکر سوئمنگ کا لطف اُٹھائیں گے۔
 حضرت ابراہیم علیہ السلام جب آتش ِ نمرود میں بے خطر کود گئے تھے تو اُنہیں پیغمبری مل گئی تھی۔ اِ ن کیلئے پیغمبری (نعوذ باللہ) نہ سہی حکومتی صلہ تو ہے۔ ایک محاورہ ہے کہ جب روم جل رہا تھا تو وہاں کا حاکم نیروبانسری بجانے میں مصروف تھا ۔ میرے ملک کے لوگ اپنے ہی ملک میں ہرقسم کے عذاب میں جل رہے ہیں اور سیاستدان اپنے ایئر کنڈیشنڈ کمروں میں ٹھنڈے ٹھار ہوکر آرام کررہے ہیں ویسے تو دُنیا بھر کے سیاستدانوں کے اجزائے ترکیبی میں بدی اور بداعمالی کا موٹا عنصر شامل ہے۔ مگر ہمارے سیاستدانوں میں یہ عنصر کچھ زیادہ ہی گندھ گیا ہے۔یہ جو سب سیاستدان ایک دوسرے کومارکُٹ رہے ہیں، تو کیا یہ عوام کو اُن کی محرومیوں اَور دُکھوں کی مارکُٹ سے بچانے کیلئے ایسا کررہے ہیں یا ایک دوسرے کی عزت کے کپڑے اُتار رہے ہیں تو یہ عوام کو پہنانے کیلئے یہ مشقت کررہے ہیں؟ 
یہ سیاستدان سب کچھ اپنے لئے کررہے ہیں اپنے اَور اپنی نسلوں کو حکومتی پوشاکیں پہنانے اور فرشی سلاموں کی خاطر ۔ پاکستان اِس وقت War of Succusion کے میدان میں اسلحہ بدست سیاستدان جرنیلوں کے گھیرے میں ہے۔ میرے ملک کے سارے نااہل سیاستدان اپنی اپنی جسمانی نااہلیوں (بیماریوں) کے باوجود اپنے آپ کو اہل ثابت کرنے کیلئے بیٹھک میں جمع ہو جاتے ہیں ایک دن ٹی وی پر اِن کی بیٹھک دیکھی عوام کے غم میں گِرتے پڑتے جمع ہورہے تھے۔ 
ایک سیاستدان جو اَربوں کے اَثاثوں کے مالک ہیں اپنی دال روٹی کی پوٹلی اُٹھائے تشریف لائے کرونا کے ڈر سے نہیں خالق اور اُس کی مخلوق کے سامنے شرمساری کی وجہ سے ماسک کی صورت میں پورا نقاب ڈالا ہوا تھا۔ ایک اور سیاستدان بیماری اور نقاہت کی وجہ سے اپنی ہی گردن اپنے کندھے پر ڈالے بیٹھے تھے ۔ایک اور صاحب دردِ کمر کی وجہ سے کرسی کی پشت کے ساتھ ایک ٹائر کے سہارے بیٹھے تھے البتہ ایک عالم دین اورنج کوٹ پہنے کندھے پر دسترخوان کی صورت کا روما ل رکھے بہت خوش و خرم بیٹھے تھے۔ کیونکہ دسترخوان اَب بڑے دسترخوان میں تبدیل ہو چکا تھا۔ آج میرا دِل چاہ رہا ہے کہ اِن تمام سیاستدانوں کی ہسٹری شیٹ اِ ن کے نام کے لیبل کے ساتھ پبلک کردوں مگر یہ میرا جرم صرف مارنے پیٹنے تک نہیں ہوسکتا یہ جرم سولی پر لٹکانے کا ہوگا ، میرا ایک شعر ہے؛
انا الحق کہہ کے جو منصورہوا
سولی چڑھنا تو پھر ضروری تھا
مَیں موت سے ہرگز نہیں ڈرتی مگر مَیں فی الحال مرنا نہیں چاہتی میرا اَکلوتا بیٹا بیچارا بالکل تنہا ہے نہ باپ نہ بہن نہ بھائی نہ ابھی بیوی بچے۔ ایک دن بہت خوفزدہ ہو کر کہا ماما آپ کو کچھ ہوگیا تو مَیں کیا کروں گا؟ مَیں نے اُسے نہیں کہا کہ مَیں حتیٰ الوسع پوری ایمانداری سے تعلیمات اَور احکامات خدا پر عمل کرتی ہوں اور اَشرف المخلوق ہونے کا حق بھی رکھتی ہوں اِس لیے مَیں نے پروردگار کے دفتر میں ایک درخواست دائر کررکھی ہے کہ مجھے استثنیٰ کے طور پر طبعی عمر میں کچھ توسیع دی جائے کیونکہ نوح علیہ السلام کو جب پروردگار نے کہا تھا کہ وہ میرے بھیجے ہوئے عذاب سے نیک اَعمال رکھنے والے لوگوں کو بچانے کیلئے ایک کشتی تیار کریں جو آٹھ سو گز چوری اور نو سو گز لمبی ہو تو حضرت نوح نے ڈرتے ڈرتے عرض کی کہ میرے مالک جس کشتی کی ساخت کا آپ حکم فرما رہے ہیں اُس کے بنانے کیلئے تو میری طبعی عمر ناکافی ہوگی تو پروردگار نے کہا تم فکر نہ کرو۔ کُن فیکون، مَیں تمہار ا کام مکمل ہونے تک تمہارے لئے فرشتہ ¿ موت کی خدمات معطل کردوں گا۔ 
میرے ملک کے سیاستدان صرف اپنے لیے جیتے ہیں اور دوسروں کو مارکر جینے کی مرض میں مبتلا ہیں۔ ایک پارٹی کا انتخابی نشان بلا ہے ۔ بلا بیشک مارنے پیٹنے کی ایک علامت ہے یعنی بے جان گیند کو مارتا ہے اور مارنے کے بعد اگر کامیاب بھی ہوجائے تو پھر ملک کا فائدہ ہی فائدہ ہے۔ ایک پارٹی کا انتخابی نشان شیر ہے جوانہوں نے طاقت کی علامت کے طورپر چنا ہے لیکن اُن کو پتہ نہیں ہے کہ شیر خونخوار ی کی علامت ہے جو جانور اور انسان دونوں کو کھا جاتا ہے اور اگر بڑا نوالہ منہ میں آجائے تو اُسے نگلنے کی مشقت میں شیر کے آنسو نکل آتے ہیں بس یہی آنسو وہ آنسو ہیں جو اُس انسان کی محبت میں اُس کی آنکھوں میں آجاتے ہیں جس کو وہ کھا چکا ہوتا ہے ۔ خَس کم جہاں پاک۔

ای پیپر دی نیشن