ملک کو اس وقت دوہرے نہیں بلکہ تہرے مسائل کا سامنا ہے۔ ایک طرف ملکی سیاست کا درجہ حرارت کم ہونے کا نام نہیں لے رہا ، ملکی معیشت مسائل کا شکار ہے۔ عوام مہنگائی سے چیخ رہے ہیں ، جبکہ بلوچستان ، خیبر پختونخواہ ، جنونی پنجاب اور سندھ کے بیشتر علاقے شدید بارشوں اور سیلاب کی زد میں ہیں۔مون سون کی غیر معمولی بارشوں کی وجہ سے آنے والے سیلاب سے گزشتہ دو ماہ کے دوران پاکستان بھر میں 9 سو زائد افراد ہلاک اور تین لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔14 جون سے، بارش اور سیلاب سے 1.8 ملین لوگ متاثر ہوئے ہیں، اور ان میں سے تین لاکھ سے زائد لوگ اب بھی ملک بھر میں ریلیف کیمپوں میں رہ رہے ہیں۔ صرف اگست کے آغاز سے اب تک 777 میں سے تقریباً 300 اموات ہو چکی ہیں۔ مگر تکلیف دہ بات یہ ہے کہ سیاست دان اور ادارے اس وقت بھی 'گیم آف تھرون' کھیلنے میں لگے ہیں۔ اور میڈیا بھی دن رات دھینگا مشتی کو دکھانے میں زیادہ مصروف ہے۔ سیاست دانوں کے پاس پریس کانفرنسز کرنے کے علاوہ شام 7 بجے سے رات 11 بجے تک ٹی وی شوز میں بیٹھنے کی تو فرصت ہے لیکن بارشوں اور سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں جاکر ریلیف کے کاموں میں شامل ہونے کی فرصت نہیں۔
اور جہاں تک بات رہی ریلیف کی تو حکومت کے پاس اتنے وسائل ہی نہیں کہ وہ عوام کو ریلیف اور دوبار ہ آبادکاری میں مدد کر سکے کیونکہ حکومت نے پہلے ہی ترقیاتی اور رفاہی پروگراموں کو آئی ایم ایف کی خوشنودی کیلئے بند کررکھاہے۔ اس ساری صورتحال میں زیادہ تر مقامی لوگ اپنی مدد آ پکے تحت کوششیں کرتے زیادہ دکھائی دیتے ہیں۔ تباہی اس قدر زیادہ ہے کہ ابھی تک نقصان کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔ سندھ ،بلوچستان اور جنوبی پنجاب کے کچھ علاقے زیادہ متاثرہیں۔ پانچ لاکھ سے زیادہ مویشی ہلاک ہو چکے ہیں جن میں سب سے زیاد نقصان بلوچستان کا ہوا ہے۔ اسکے علاوہ ہزاروں گھر تباہ ہو چکے ہیں۔ تقریباً 3,000 کلومیٹر سڑکوں اور 129 پلوں کو نقصان پہنچنے سے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں نقل و حرکت میں رکاوٹ ہے۔وفاقی حکومت نے ہاتھ کھڑے نہیں کیے بلکہ بین الاقوامی برادی کے آگے ہاتھ پھیلا دیے ہیں کہ آئیں ہماری مدد کریں ہم بے بس ہیں ۔ بالکل ویسے ہی جیسے ہم اپنی معیشت کو سہارا دینے کیلئے کبھی اپنے دوست ممالک اور کبھی مالیاتی اداروں کی طرف کشکول لے کر لپکتے ہیں۔لیکن انٹرنیشنل کمیونٹی بھی کب تک آپ کی مدد کو آتی رہے گی۔ دنیا اب donor fatigue کا شکارہے۔ یہ پہلی دفعہ نہیں کہ ملک کو بڑی سیلابی تباہی کا سامنا ہے۔ ہم 2010 کا سیلاب اب تک نہیں بھولے۔
2010 کے سیلاب نے فصلوں ، مویشیوں، بنیادی انفرا سٹرکچر ، کاروباروں، گھروں کی بڑے پیمانے پر تباہی کی تھی اور 18 ملین افراد کو متاثر کیاتھا۔ ان لوگوں کی اکثریت پہلے ہی انتہائی غربت کی زندگی گزار رہی تھی اور سیلاب نے انہیں مزید غربت میں دھکیل دیا تھا۔ اس وقت حکومت اور عالمی برادری نے ان لوگوں کو ریلیف فراہم کرنے کی بھرپور کوشش کی مگر سیلاب کے اثرات کافی عرصہ تک موجود رہے۔ لیکن جو امر تکلیف دہ ہے وہ یہ کہ جس طرح مرکزی اور صوبائی حکومتیں 2010 ءمیں موسمیاتی جھٹکوں کے خطرات کو کم کرنے کیلئے تیار نہیں تھیں آج بھی ہم وہیں کے وہیں کھڑے ہیں۔اور ایک مرتبہ پھر بین الاقوامی برادری کی طر ف دیکھنے پر مجبور ہیں۔
ہم آج بھی وہی باتیں دہرا رہے ہیں کہ نیشنل ، صوبائی اور ڈسٹرکٹ ڈیزاسٹر مینجمنٹ کو حقیقی معنوں میں فعال ہونےکی ضرورت ہے۔ لوگوں ، فصلوں اور مویشیوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے بروقت اور فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ اور قدرتی آفات سے نمٹنے کیلئے تیاری کو قومی ترجیح بنانے کی ضرورت ہے وغیرہ وغیرہ۔ بدقسمتی سے جب تک پانی ہمارے سر سے گزر نہ جائے ہم نہ تو جاگتے ہیں اور نہ ہی کوئی اقدامات اٹھاتے ہیں۔ دنیا بھر میں سیلاب آتے ہیں ، مغربی ممالک میں بھی سیلاب آتے ہیں نقصان بھی ہوتا ہے لیکن انکے پہلے اور جلدی رسپانس کی وجہ سے انسانی جانوں اور جانوروں کے نقصانات کو کم سے کم کیا جاتاہے۔ اور پھر اسکے بعد ریلیف اور تعمیری عمل بھی اتنی تیزی سے شروع ہوتاہے کہ حالات نارمل ہونے میں دیر نہیں لگتی۔
چین میں بھی بہت زیادہ سیلاب آتے ہیں لیکن وہاں بھی رسپانس اور ریلیف سسٹم بہت زبر دست ہے۔ عوام کو اس سے غر ض نہیں کہ ملک میں جمہوریت ہے ، یا پھر سوشلسٹ نظام ہے یا آمریت۔ لوگوں کو دو وقت کی روٹی چاہیے ، تعلیم چاہیے ، صحت چاہیے۔ ریلیف چاہیے۔ اور آگے بڑھنے کے مواقع چاہئیں۔
رہی بات جمہوریت کی تو ایسی جمہوریت کس کام کی جس سے جمہور کو کوئی فائدہ نہ ہو۔ جونمائندے پارلیمنٹ میں جاتے ہیں وہ جمہور کی بجائے اپنے مفادات کا تحفظ کرتے نظر آتے ہیں۔ ہم آج بھی وہیں کے وہیں کھڑے ہیں جہاں سے ہم نے آغاز کیاتھا۔ سیاست ہو، معیشت ہو یا پھر یہ قدرتی آفات سے نمٹنے کے معاملات ہمیں زیرو سے شروع کرنے کی عادت ہو چکی ہے۔موجودہ بارشوں اور سیلاب کے دروران جو چیز اچھی ہوئی ہے وہ یہ کہ مقامی لوگوں اور نوجوانوں نے سوشل میڈیا کے ذریعے آگاہی بھی حاصل ہے ، ریلیف کے کاموں میں بھی آگے آئے ہیں اور سیاست دانوں کو بھی بے نقاب کیا ہے۔ اب وقت آگیاہے کہ مقامی لوگ ان لوگوں کو آگے لائیں جو واقعی اس لائق ہیں جو ان کی مدد کرسکیں اور ملک کو آگے لے جا سکیں۔ روائیتی سیاست سے نکل کر انہیں نئی سیاست کا آغازکرنا پڑے گا۔ اپنے حقیقی نمائندوں کو سامنے لانا پڑےگا جو عوام کے مسائل بھی سمجھتے ہوں اور انہیں حل کرنا بھی جانتے ہوں۔ ہمیں اس نظام کو بھی بدلنا پڑے گا جس میں بغیر پیسوں کے کوئی سیاست میں نہیں آسکتا۔ ایم این اے اور ایم پی اے کا الیکشن تو دور کی بات یہاں تو ایک کونسلر کا الیکشن جیتے بھی کروڑوں چاہیے۔ اور پھر جو پیسہ لگا کر سیاست میں آتے ہیں وہ پہلے پیسہ بنائیں گے نہ کہ عوام کی خدمت کرینگے ۔ یہاں سیاست ایک کاروبار بن چکاہے جس پر جمہوریت کی لیپا پوتی کردی گئی ہے۔
جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا کہ انٹرنیشنل کمیونٹی اب آپ کو امداد اور خیرات نہیں دے گی۔ وہ آپ سے تھک چکے ہیں۔ اور جو قومیں ہر وقت امداد کے انتظار میں رہتی ہیں۔ وہ کبھی ترقی نہیں کرتیں۔