ملتان (ظفراقبال سے )دنیا کی تاریخ میں آزاد مملکت کے حصول کے لیے مسلمان مہاجرین نے جو قربانیاں پیش کیں تاریخ میں انکی مثال کم ہی ملتی ہے۔ضلع امر تسر کے گاؤں ٹوٹیاں سے 1947 میں ہجرت کی صعوبتیں برداشت کرکے پاکستان آنیوالے ملتان کے رہائشی محمد یوسف ولد عمردین قوم انصاری کی المناک داستان کسی سے ڈھکی چھپی نہیں وہ ہجرت کی داستان بیان کچھ اس طرح سے کرتے ہیں جب بھی ہندوؤں کے ظلم وستم دیکھتے دل خون کے آنسو روتا ایسی حالت میں آزادی کی امنگ اور بھی بڑھ جاتی۔ قتل وغارت کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ اپنے عروج پر تھاایک شام کو گاؤں کے سب مرد اور جوان چوپال پر موجود تھے تو اچانک شور اس قدر بلند ہوا کہ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی گھروں میں گھس کر انہیں آگ لگادی گئی سب اپنے گھروں کو بھاگے اس دوران بیشتر خواتین خون میں لت پت تھیں۔ اسی دوران بزرگوں نے ہجرت کا فیصلہ کیا تھوڑا بہت پانی اور سامان اٹھایا اور 50 افراد پر مشتمل قافلہ پیدل روانہ ہوا۔ راستہ میں ہندؤوں نے پھر حملہ کیا میرے دادا جی میرے والد کے اوپر لیٹ گئے میرے دادا جی کوتو شہید کردیا گیا مگر میرے اباجی کے بازو پر تلوار کا زخم تھا۔ اس دلخراش حملہ میں میرے خاندان کے 35 افراد شہید ہوئے جسمیں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔ جو 15/20 افراد بچ گئے انہوں نے کماد کے کھیت میں چھپ کر جان بچائی اور رات وہیں بھوکے پیاسے کھیت میں بسر کی۔ قصور بارڈر پر بے سروسامان پہنچے تو کچھ چنے کھاکر اور پانی پی کر جان میں جان آئی۔ انہوں نے کہاانتہائی افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج ہمارے حکمران قائد کے اس فرمان کو بھول گئے۔کیا اسی مقصد کیلیے ہم نے جانوں کے نذرانے پیش کیے تھے۔
محمد یوسف