پاکستان کے آئین کے مطابق صدر پاکستان ریاست کا سربراہ پارلیمنٹ کا حصہ اور افواج پاکستان کا سپریم کمانڈر ہوتا ہے- صدر پاکستان کو سینٹ، صوبائی اسمبلیوں اور قومی اسمبلی کے اراکین منتخب کرتے ہیں- ان کی بطور صدارتی امیدوار نامزدگی پارٹی کے لیڈر کرتے ہیں- پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ صدارتی امیدوار نامزد کرتے وقت عام طور پر میرٹ کا خیال نہیں رکھا جاتا - پارٹی لیڈر کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ ایسا شخص پاکستان کا صدر منتخب ہو جو ریاست سے زیادہ اس کا وفادار ہو- صدر چونکہ پاکستان کا سربراہ ہوتا ہے اس لیے اسے غیر جانبدار ہونا چاہیے اور ایسی ممتاز اور پسندیدہ شخصیت کا حامل ہونا چاہیے کہ تمام سیاسی جماعتوں اور ریاستی اداروں کے افراد اس کا احترام کریں-
صدر آئین اور ریاست کے ساتھ وفاداری کا حلف اٹھاتے ہیں مگر اس کی پاسداری کے حوالے سے قابل رشک روایت نہیں چھوڑتے - ریاستی منصب کے وقار کا تحفظ سب سے بڑھ کر اس شخصیت کی ذمے داری ہوتی ہے جو ریاست کے بڑے منصب پر فائز ہوتا ہے- منصب دار اپنے عمل اور کردار سے خود اپنے وقار میں اضافہ کرتا ہے- اگر اس کا عمل آئین کی روح اور عوام کی تمناوں کے مطابق ہو تو لوگ اس کی دل سے عزت کرتے ہیں- افسوس کی بات ہے کہ صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی اپنے منصب کے وقار کے تحفظ سے قاصر رہے ہیں- ذوالفقار علی بھٹو چونکہ وطن کی محبت سے سرشار تھے اور ملکی تعمیرو ترقی کے لیے بے مثال جذبے کا مظاہرہ کرتے ہوئے 18 گھنٹے روزانہ سرکاری اور دفتری کام کرتے تھے- وہ رات دو بجے تک سرکاری فائلیں پڑھتے اور ان پر اپنے ہاتھ سے نوٹ لکھتے تھے-ایک سرکاری افسر نے ریٹائرمنٹ کے بعد ایک سال کی توسیع لے لی۔ جب ایک سال کی مدت ختم ہوگئی تو خوشامدانہ جملے لکھ کر ایک سال کی مزید توسیع مانگ لی-
بھٹو صاحب نے اس سرکاری افسر کی فائل پر یہ نوٹ لکھا:
Let the Bastard Die in the Chair باسٹرڈ کو کرسی پر ہی مرنے دو-
ڈاکٹر عارف علوی تعلیم یافتہ شخصیت ہیں اور سرکاری فائلوں پر اپنے ہاتھ سے نوٹ لکھ سکتے ہیں مگر افسوس انہوں نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ کے ترمیمی بلوں کے سلسلے میں آئین کے آرٹیکل 75 کے تقاضے پورے نہ کیے- آئین کا یہ آرٹیکل صدر پاکستان کو پابند کرتا ہے کہ وہ دس روز کے اندر بل کی توثیق کریں یا بل کو دوبارہ غور کے لیے واپس بھیجیں- افسوس انہوں نے اہم بلوں کے سلسلے میں غفلت کا مظاہرہ کیا اور بلوں پر کوئی نوٹ نہ لکھا- وقت گزرنے کے بعد جب یہ بل قانون بن گئے تو انہوں نے حلفیہ ٹویٹ جاری کرکے وضاحت کی کہ انہوں نے بلوں کی توثیق نہیں کی۔ ان کے سٹاف نے ان کے حکم پر عملدرآمد نہیں کیا- اسی ٹویٹ میں انہوں نے متاثرین سے معذرت کرکے شک و شبہات پیدا کر دیے- جب ان کو یقین تھا کہ انہوں نے بلوں کی توثیق نہیں کی اور بل قانون نہیں بنے تو انہوں نے معذرت کیوں ضروری سمجھی-
پاکستان کا سیاسی کلچر شرمناک ہو چکا ہے- ریاست کی عزت اور وقار کا کسی کو کوئی خیال نہیں ہے- اگر ہوتا تو آفیشل سیکرٹ ایکٹ کا گزٹ نوٹیفکیشن جاری کرنے سے پہلے ایوان صدر فون کرکے پرنسپل سیکرٹری سے مذکورہ بلوں کے سٹیٹس کے بارے میں پوچھ لیا جاتا- پاکستان کی پوری دنیا میں جگ ہنسائی نہ ہوتی- ریاستی ادارے پاکستان کو قومی مفاہمت اور حب الوطنی کے جذبے کے ساتھ چلانے کی بجائے معاندانہ طور پر مکر و فن سے چلائے جا رہے ہیں- پاکستان کو آئین اور قانون کی روح پر عمل کرنے کی بجائے قانونی موشگافیوں اور ادارہ جاتی مصلحتوں کے تابع چلایا جا رہا ہے- ریاست کے سربراہ نے اپنے پرنسپل سیکرٹری کو تبدیل کرنے کا حکم جاری کیا ہے اس پر عملدرآمد کرنے کی بجائے رکاوٹیں ڈالی جارہی ہیں-
حیران کن امر یہ ہے کہ مبینہ طور پر پرنسپل سیکرٹری اپنا چارج چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہے اور جس افسر کی صدر پاکستان نے سفارش کی ہے وہ ایوان صدر آنے پر آمادہ نہیں ہے- صدر پاکستان نے چیف الیکشن کمشنر کو انتخابات کی تاریخ کے سلسلے میں مشاورت کے لیے ملاقات کا خط لکھا ہے - چیف الیکشن کمشنر نے جوابی خط لکھ کر ملاقات سے معذوری کا اظہار کر دیا ہے- کیا دنیا کی ایٹمی ریاستیں پاکستان کی طرح حیلے بہانوں اور مکروفن سے چلائی جارہی ہیں - صدر پاکستان کے پاس آبرو مندانہ راستہ یہ ہے کہ وہ اپنے منصب اور ذاتی وقار کو دائو پر لگانے کی بجائے مستعفی ہو جائیں تاکہ تاریخ میں ان کو اچھے الفاظ میں یاد رکھا جائے -
سپریم کورٹ پاکستان کا اہم آئینی ادارہ ہے- چیف جسٹس پاکستان بھی باوقار ریاستی منصب ہے- اگر اس منصب کا وقار قائم نہ رہے تو ریاست کی حکمرانی کمزور پڑنے لگتی ہے- پنجاب اور خیبرپختونخوا میں آئین کے مطابق نوے روز کے اندر انتخابات کرانے کے سلسلے میں جس طرح اتحادی حکومت نے چیف جسٹس پاکستان کو تضحیک کا نشانہ بنایا وہ پاکستان کی تاریخ کا ایک اور شرمناک واقعہ ہے- میاں نواز شریف کے دور حکومت 1997 سے 1999 کے دوران جس طرح سپریم کورٹ پر حملہ کیا گیا اور چیف جسٹس پاکستان اور برادر ججوں نے بھاگ کر اپنی جانیں بچائیں وہ تاریخ کا سیاہ باب ہے-پاکستان کے موجودہ چیف جسٹس کو اپنے آئینی حلف کے مطابق آئین کا دفاع کرنا چاہیے تھا اور آئین توڑنے والوں کو گھر بھیجنا چاہیے تھا۔ اگر وہ یہ ذمے داری پوری کرنے سے قاصر تھے تو خود مستعفی ہو جاتے اور عدل وانصاف کے ادارے کا وقار مجروح نہ ہونے دیتے-
حکمران اشرافیہ 25 کروڑ عوام کے ملک کو جس سنگدلی کے ساتھ چلا رہی ہے اس افسوسناک رویے سے پاکستان کی سلامتی اور آزادی کے چیلنجوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے - پاک فوج کے نوجوان آئے روز شہید ہو رہے ہیں- پاکستان تکنیکی اعتبار سے دیوالیہ ہو چکا ہے- ریاست کے اداروں اور منصب داروں کا بھرم ختم ہوتا جا رہا ہے- حالات کی سنگینی کا تقاضا ہے کہ سٹیک ہولڈرز قومی ڈائیلاگ کر کے مستقبل کی ٹھوس اور پائیدار منصوبہ بندی کریں۔ پاکستان کی تاریخ شاہد ہے کہ جب بڑے منصب دار اپنے عہدے کا آئینی حلف اٹھاتے ہیں تو وہ اکثر اوقات انسانیت کے منصب سے فارغ ہو جاتے ہیں-
٭…٭…٭