بلاول بھٹو زرداری نے کہا ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام بحالی کیلئے کوششوں کے مثبت نتائج برامد ہوئے۔

بلاول بھٹو زرداری جن کوششوں کے مثبت نتائج بیان کر رہے ہیں‘ انکے ثمرات عوام کو کیوں نظر نہیں آرہے۔ انہیں یہ ضرور بتانا چاہیے تھا کہ یہ مثبت نتائج ملک و قوم کیلئے سامنے آئے ہیں یا حکمران طبقات کیلئے۔ اس وقت قوم کی جو حالت زار ہے‘ اس کو لکھتے ہوئے قلم کی سیاہی بھی خون کے آنسو بن گئی ہے۔ کہا جارہا ہے کہ حکمرانوں نے ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچا لیا‘ ممکن ہے‘ ملک دیوالیہ ہونے سے بچ گیا ہو‘ مگر عوام تو عملاً دیوالیہ ہو چکے ہیں۔ کسی قوم کی خوشحالی یا دیوالیہ پن اس ملک کی اصل تصویر ہوتی ہے۔ جو تصویر آج ہمارا ملک پیش کر رہا ہے وہ کسی طرح بھی تسلی بخش نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آئی ایم ایف سے ملنے والا اب تک کا قرضہ اور دوست ممالک سے ملنے والی مالی معاونت کا ذرہ برابر بھی فائدہ عوام کو نہیں پہنچایا گیا۔ ان پر روزانہ کی بنیاد پر بدترین مہنگائی مسلط کی جارہی ہے۔ اتنا قرض ملنے کے باوجود عوام کیلئے دو وقت کی روٹی کا حصول آسان نہ ہو سکا۔ لوگ خودکشیوں پر مجبور ہو رہے ہیں‘ کوئی اپنے جگر گوشوں کو فروخت کر رہا ہے‘ کوئی جسم فروشی پر مجبور ہے۔ کوئی گھر کا سامان بیچ رہا ہے‘۔ ہرسو پھیلے بے روزگاری کے عفریب دیکھ کر نوجوان نسل بے راہ روی کا شکار ہو رہی ہے۔ اب تو تقریباً ہر گھر میں بھوک نے ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں ‘ یہی وجہ ہے کہ چوری ڈاکے عام ہو گئے ہیں۔ کیا یہی قرض بحالی کی کوششوں کے مثبت نتائج ہیں۔ کسی سیاست دان نے کبھی اپنے بچوں کی کفالت کیلئے گھر کی کوئی چیز بیچی؟ کسی کے گھر میں بھوک کا ننگا ناچ دکھائی دیا؟ کسی نے اپنے لخت جگر پر برائے فروخت کا لیبل لگایا ہے؟ ہرگز نہیں‘ یہ سارے دکھ درد صرف غریب کے حصے میں آئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ مثبت نتائج صرف اشرافیہ طبقات کیلئے ہی خوشی کی نوید لائے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک کا بچہ بچہ لاکھوں کا مقروض ہو چکا ہے جبکہ حکمرانوں کا بچہ بچہ ارب سے کھرب پتی بن چکا ہے۔آئی ایم ایف سے قرض حکمران لے رہے ہیں‘ اتارنا قوم کو پڑرہا ہے۔ جس دن اس قرض کا ایک فیصد بھی قوم پر لگنا شروع ہو جائیگا‘ یقین جانیے اس قوم کی حالت بہتر ہونا شروع ہو جائیگی۔ 
٭…٭…٭
برٹش پاکستانی طالبہ ماہ نور کا او لیول میں عالمی ریکارڈ۔ آئی کیو لیول آئن سٹائن سے بھی زیادہ۔ 
16 سالہ ماہ نور چیمہ نے 34 مضامین میں اے سٹار گریڈ حاصل کیا ہے جو پاکستانی قوم کیلئے واقعی باعثِ فخر ہے۔ مگر افسوس یہ ہے کہ اس بچی کا ہمارے ملک میں کوئی مستقبل نہیں ہے‘ یہاں پر ایسی ہونہار بچیوں کا مستقبل صرف گھر گرہستی تک محدود کر دیا جاتا ہے۔ حالانکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ ایسے ذہین و فطین بچوں کی قابلیت سے فائدہ اٹھا کر ملک و قوم کو ترقی کی راہ پر ڈالا جائے مگر ہمارے ہاں ایسی کوئی روایت نہیں پائی جاتی۔ کہا یہی جاتا ہے کہ بچے قوم کا مستقبل ہوتے ہیں‘ مگر شاید وہ ان بچوں کے بارے میں نہیں بلکہ’’ مخصوص ماحول ‘‘میں پرورش پانے والے بچوں کیلئے کہا گیا ہے۔اگر ایسے بچوں کو امور حکومت کی طرف لایا جائے تو شاندار نتائج سامنے آسکتے ہیں۔ مگر ہمارے ہاں تو موروثی سیاست کا رواج ہے‘ باپ کے بعد بیٹا ہی ملک کی باگ ڈور سنبھالنے کا حق رکھتا ہے چاہے وہ کتنا ہی نالائق کیوں نہ ہو۔ اور پھر مزے کی بات یہ کہ گزشتہ کئی دہائیوں سے قوم پر ایسے لوگ مسلط بھی ہوئے چلے آرہے ہیں۔ انہیں ملک کے تمام وسائل پر دسترس حاصل ہے‘ جبکہ ماہ نور جیسے ہونہار بچے ان وسائل سے محروم ہیں۔ ماہ نور کی ذہانت کا فائدہ ہم تو نہیں البتہ امریکہ اور برطانیہ جیسے ملک ضرور اٹھائیں گے جو انکی ترقی میں مزید چار چاند لگائے گی جبکہ اس کا اپنا ملک اس کی قابلیت سے ہمیشہ کی طرح محروم رہے گا۔ یہ سچ ہے کہ جو قومیں ماہ نور جیسے ذہین و فطین بچوں کی قدر نہیں کرتیں‘ وہ زوال کی طرف چلی جاتی ہیں۔ 
٭…٭…٭
امن کا پیغام لے کر پاکستان آنیوالی جرمن نژاد خاتون شورکوٹ پہنچ گئی۔ 
لو جی! کمال ہے۔ جو ملک امن کا گہوارہ ہے‘ جہاں اقلیتوں سمیت ہر کوئی سکون کے ساتھ اپنی زندگی بسر کر رہا ہے‘  یہ خاتون امن کا پیغام لے کر اس ملک میں چلی آئی اور وہ بھی پاکستان کے ایسے شہر میں جہاں ہمیشہ امن ہی امن اور سکون ہی سکون رہتا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو اس خاتون کا یہ دورہ رائیگاں ہی جاتا نظر آرہا ہے۔ اگر اس نے امن کا پیغام لے کر کہیں جانا ہی تھا‘ تو اسے بھارت جانا چاہیے تھا جہاں مسلمانوں سمیت کوئی بھی اقلیت محفوظ نہیں۔ اس وقت بھارت دنیا کا بدترین ملک ہے جہاں انسانی حقوق کی پامالی عروج پر ہے‘ جبکہ مودی سرکار نے مقبوضہ کشمیر میں کشمیری عوام پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے ہوئے ہیں‘ جس پر عالمی ادارے بھی بے حسی کا مظاہرہ کررہے ہیں اور مجرمانہ خاموشی اختیار کئے ہوئے ہیں‘ اس خاتون نے وہاں جانے کی زحمت گوارا کیوں نہیں کی؟ اسکے امن پیغام سے تو یہی تاثر ابھارنے کی کوشش کی گئی ہے کہ پاکستان امن پسند ملک نہیں ہے اس لئے یہاں امن کا پیغام لے جانا ضروری ہے۔ اس خاتون کو وہ ممالک بھی نظر نہیں آئے جنہوں نے مسلمانوں کی دل آزاری کی غرض سے اسلامو فوبیا کو عروج پر پہنچا دیا ہے۔ آئے روز قرآن اور اسلامی شعائر کی بے حرمتی کی جاتی ہے۔ کبھی مسجدوں میں نمازیوں کو گولیوں سے بھون دیا جاتا ہے۔ اس خاتون کو ان ممالک میں جا کر امن کابھاشن دینا چاہیے تھا مگر وہ نہ جانے کس ایجنڈے کے تحت پاکستان چلی آئی جو نہ صرف امن کا داعی ہے بلکہ امن کے فروغ کیلئے نیک نیتی کے ساتھ کوشاں بھی ہے۔ اسکی بہترین مثال افغانستان ہے جہاں امن بحالی کیلئے پاکستان نے اہم کردار ادا کیا‘ اس سے کئی گنا زیادہ طاقتور اسکے دشمن امریکہ کو بھی امن مذاکرات کیلئے رام کیا اور افغانستان سے اسکی فوج کیلئے محفوظ انخلا کی راہ بھی ہموار کی۔ اس خاتون کا پاکستان میں امن کا پیغام لانا دراصل اسکی نیک نامی پر بٹہ لگانے کی سازش ہوسکتی ہے۔ اگر یہ خاتون واقعی امن کی خواہاں ہے اور خطے میں امن چاہتی ہے تو اسے پاکستان کا دورہ فوری منسوخ کرکے بھارت کا رخ کرنا چاہیے جس نے پاکستان سمیت اس پورے خطے کا امن دائو پر لگایا ہوا ہے۔ 
٭…٭…٭
انٹرا بنک میں ڈالر کی ٹرپل سنچری۔
کچھ عرصے سے سوشل میڈیا پر یہ خبریں گردش کر رہی تھیں اور خدشہ بھی ظاہر کیا جارہا تھا کہ ڈالر کے نرخ تین سو تک لے جائے جا سکتے ہیں۔ سو اقتصادی ماہرین نے اس خبر کو عملی جامہ پہنا کر اپنے روپے کو مزیدبے آبرو کر دیا۔ بتائیں جس ڈالر کی اوقات ہمارے روپے کے مقابلے میں 65, 60 روپے ہوا کرتی تھی آج اسکے نرخ اوجِ ثریا تک جا پہنچے ہیں جن کے بڑھنے سے ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر 8 ارب ڈالر سے بھی کم ہو کر رہ گئے ہیں۔ افسوس تو اس بات کا ہے کہ گزشتہ حکومتیں یہ دعویٰ کرتی نہیں تھکتی تھیں کہ انکے پاس بہترین معاشی ٹیمیں ہیں‘ وہ جلد ہی معیشت کو اپنے پیروں پر کھڑا کر دیں گی مگر خدا لگتی کہیے‘ انکی معاشی ٹیموں نے پاکستانی معیشت کے بجائے خود کو ہی اپنے پیروں پر کھڑا کیا ہے۔ پی ٹی آئی کی تو بات ہی نہ کریں‘ اتحادی حکومت اس کا گند صاف کرنے ہی تو اقتدار میں آئی تھی مگر اس نے جو گند پھیلایا ‘ اسکی صفائی ہوتی تو برسوں نظر نہیں آتی۔ نگران سیٹ اپ سے تو بالکل ہی امید نہیں رکھی جا سکتی کیونکہ شنید یہی ہے کہ اسے لایا ہی آئی ایم ایف کو مطمئن کرنے کیلئے گیا ہے۔ اس لئے معاشی سدھار کے ساتھ ساتھ عوام کو ریلیف ملنے کی امیدیں بھی معدوم ہوتی نظر آرہی ہیں کیونکہ نگران حکومت نے آتے ہی پٹرولیم مصنوعات اور بجلی کے نرخوں میں ہوشربا اضافہ کرکے قوم کی ان امیدوں پر پانی پھیر دیا جس کی قوم توقع کررہی تھی کہ اتحادیوں کے بگاڑے معاملات سدھار کر نگران حکومت عوام کی بہتری کی راہ ہموار کریگی۔ ایک کرکٹر ٹرپل سنچری بنا کر ملک و قوم کا نام روشن کرتا ہے‘ جو قابل تعریف ہوتا ہے مگر ڈالر کی ٹرپل سنچری کسی طرح بھی حوصلہ افزاء نہیں‘ بالخصوص ہمارے پاکستان کیلئے۔ ڈالر کی اس ٹرپل سنچری کے قوم پر کیا اثرات مرتب ہونگے‘ یہ تو آنیوالا وقت ہی بتائے گا۔ یہ حقیقت ہے کہ پٹرول‘ گیس‘ بجلی اورڈالر کے نرخ جیسے جیسے جستیں اور اڑان بھر رہے ہیں‘ عوام ویسے ویسے زمین بوس ہو رہے ہیں۔

ای پیپر دی نیشن