عاشق مدینہ قسور مرزا سعید مرحوم

تحریر۔۔۔ اسحاق جیلانی 
لوگو آف کالم۔۔۔۔ آبروئے قلم 
Ishaq.Jilani@gmail.com
عاشق رسول و عاشق مدینہ، محب اہل بیت اطہار،سابق صدارتی ترجمان ہر دلعزیز شخصیت قسور مرزا سعید مرحوم ایک عہد ساز شخصیت کا نام تھا جو اپنی ذات میں ایک انجمن تھے۔آپ وضع دار اور انتہائی خودار قسم کی شخصیت کے مالک تھے۔سمجھ نہیں آ رہی کالم کی ان چند لائنز میں انکی شخصیت کے کس کس پہلو کو ڈسکس کیا جائے۔ مختصر مگر جامع انداز میں کچھ باتیں اپنے ذاتی تجربات و مشاہدات شئیر کرتا ھوں آپ سیاستدانوں،بیوروکریٹس،ججز ،جرنیل اور صحافیوں سمیت دینی و روحانی طبقات میں یکساں مقبول تھے آرمی چیف کی تبدیلی ھو یا ایوان صدر و وزیراعظم میں کوء اہم ملکی و غیر ملکی وفود کے اعزاز میں تقریب کا انعقاد ھو موصوف ہمیشہ مدعو کئے جاتے رھے۔مدینہ الاولیاء ملتان شریف کی تحصیل شجاع آباد کے ملتانی گیٹ میں پیدا ھونے والے قسور سعید مرزا صاحب زمانہ طالبعلمی میں ہی مستعد اور حب الوطنی سے سرشار جذبات رکھتے تھے۔1983ء کو اپنے کالج کے زمانے میں تحصیل بھر کی بڑی کرکٹ ٹیم کے کپتان تھے اس حوالے سے انہوں نے علاقہ میں کافی شہرت پائی اس کے بعد وہ سیاسی میدان میں اترے اور انہوں نے پیپلز پارٹی جوائن کی اور خوب محنت کرتے ھو? ڈیرہ غازیخان سے تعلق رکھنے والے فاروق احمد خان لغاری مرحوم کے قریبی ساتھیوں میں شمار ھونے لگے۔بعد ازاں جب فاروق لغاری مرحوم صدر پاکستان منتخب ھوئے تو جناب الحاج قسور سعید مرزا مرحوم انکے صدارتی ترجمان چنے گئے اس عہدے کے ساتھ آپ نے خوب انصاف کیا بالخصوص ضلع ملتان اور بالعموم جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے سیاستدان قسور مرحوم کی پوزیشن سے بڑا استفادہ کرنے میں کامیاب ھو۔ آپ ہمیشہ بانی پاکستان پیپلز پارٹی ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی سیاسی بصیرت،لیڈر شپ خوبیوں کے معترف اور انکی عدالتی شہادت پر ایک ناقد کے طور پر پہچانے جاتے تھے۔خبریں گروپ کے بانی ضیائشاہد مرحوم کے ساتھ انکا فیملی تعلق قائم ھوا جس کے نتیجے میں روزنامہ خبریں میں کالم لکھنے کا سلسلہ شروع کیا جو تادم مرگ جاری رہا آپ نے خود کو مروّجہ صحافت سے دور رکھا اور حقائق پر لکھتے چلے گئے تقریباً پندرہ سال سے زائد عرصہ تک آپ کا کالم ہفتہ وار خبریں کے ایڈیٹوریل پیج کی زینت بنتا رہا، بیوروکریٹس میں بہت سے نام ہیں جن سے انکے گہرے مراسم تھے ان میں سرفہرست سابق وفاقی سیکریٹری پوسٹل سروسز جاوید اقبال اعوان صاحب 1983ء کے اوائل میں اسسٹنٹ کمشنر تحصیل شجاع آباد پوسٹ ھو? تو ان سے ایسا بھائی چارے اور فیملی تعلق قائم ھوا کہ بڑے اور چھوٹے بھائی کے درجے میں ڈھل گیا اعوان صاحب کمشنر بہاولپور،سیکریٹری محکمہ اوقاف،سیکریٹری محکمہ زراعت پنجاب رھے وہ اپنی ایماندارانہ اور میرٹ پالیسیز کی بدولت بیوروکریسی میں ایک دبنگ آفیسر کے طور پر پہچانے جاتے تھے جبکہ سیاستدانوں کو ناقابل قبول تھے یہی وجہ تھی کہ شہباز شریف کی وزارتِ اعلیٰ میں انہیں بلوچستان روانہ کرادیا گیا اس کے بعد آپ کی خدمات وفاق پاکستان کے سپرد ھوئیں جہاں آپ نے محکمہ پروڈکشن کے معاملات کچھ عرصہ دیکھے اور پھر نیشنل ہائی وے کے چیئرمین بنے واضح رہے کہ اسی دوران سی پیک کا منصوبہ بھی فائنل ھوا اس طرح کچھ سال پوسٹل سروسز کے محکمہ میں بطور وفاقی سیکریٹری کام کرتے ھوئے ریٹائرمنٹ لے لی۔سیاستدانوں میں سابق چیئرمین سینیٹ و نگران وزیراعظم پاکستان سابق وفاقی وزیر جناب محمد میاں سومرو سے آپ کے فیملی اور مثالی تعلقات تھے۔2007ء   میں سومرو صاحب نگران وزیراعظم چنے گئے جنرل پرویز مشرف مرحوم صدر پاکستان تھے راقم الحروف قسور مرزا مرحوم کے ہمراہ شجاع آباد انکی رہائش گاہ پر موجود تھے کہ سومرو صاحب آپ سے کء امور پر طویل مشاورت کرتے رھے ان موضوعات میں سے ایک موضوع محترمہ بینظیر شہید مرحومہ کے پے درپے جلسے بھی تھے کہ مرحومہ شہید بڑی تیز انتخابی مہم چلا رہی تھیں ایک دن سندھ جلسہ اور اگلے دن پنجاب اور پھر خیبرپختونخواہ بڑے بڑے جلسوں سے مخاطب تھیں۔سومرو صاحب اور قسور مرحوم انکی سیکیورٹی بارے کافی مضطرب اور پریشان تھے اور یہی مسئلہ زیادہ زیر بحث رہا کافی دیر بعد کال بند ھونے پر قسور مرزا مرحوم نے کہا اللہ رانی بی بی کی حفاظت کرے ایک طرف دہشت گردی اپنے عروج پر ھے تو دوسری طرف مرحومہ کو دیکھنے اور جلسوں میں شرکت کے لیے آنے والے لوگوں کا جم غفیر ھے یہ تعداد روز بروز بڑھتی چلی جا رہی ھے بعد ازاں دو یا تین دن بعد ہی لیاقت باغ راولپنڈی جلسے میں محترمہ کی شہادت ھو جاتی ھے۔سیاستدانوں میں لغاری خاندان سمیت سابق وزیر اعلی سندھ ارباب غلام رحیم اور سابق وفاقی وزیر مذہبی امور پیر ڈاکٹر نور الحق قادری،سابق وفاقی وزیر اعجاز الحق صاحب سمیت متعدد سنیئر سیاستدانوں سے انکے گہرے اور برادرانہ مراسم تھے۔راقم الحروف 2019ء   میں رمضان المبارک کے وسط میں والدہ محترمہ کے ہمراہ ادائیگی عمرہ کے لیے سعودیہ گیا تو مسجد نبوی شریف میں غالباً پرانے باب حضرت عمر فاروق کے پاس برادر مکرم مرشد بحر اللہ ہزاروی مرحوم سابق ڈائریکٹر  حج سعودیہ کی دعوت پر میزبان فرحان عربی صاحب کے دسترخوان پر سابق وفاقی وزیر مذہبی امور پیر ڈاکٹر نور الحق قادری صاحب کے ساتھ روزہ افطار کیا۔ادائیگی نماز مغرب کے بعد قادری صاحب نے کہا باب بلال کے پاس سرکار کے قدموں میں قسور بھائی موجود ہیں ان کے ساتھ نماز عشاء اور تراویح پڑھتے ہیں اور پھر یوں ھوا کہ عشاقان مصطفی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ایسا ڈیرہ سجا کہ گھنٹوں سرکار کے قدموں میں عشقِ مصطفی صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلم کا تذکرہ خیر چلتا رہا اس قافلے میں برادر عمران صدیقی صاحب پریس سیکریٹری اور سپیشل سیکریٹری محترم کلیم ڈار صاحب اور پیر نور الحق قادری صاحب کے بڑے بھائی اور بیٹے اسامہ محی الدین بھی شامل تھے۔قسور مرزا مرحوم کی زندگی میں کچھ سال ایسے بھی آئے کہ دوستوں کو پتہ ہی نہیں چلتا تھا کہ وہ کب پاکستان تھے اور کب مدینہ منورہ سرکار کے قدموں میں موجود۔راقم الحروف کے استاد فخرالسادات زینت السادات پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج کے پرنسپل ڈاکٹر سید محمد قمر علی زیدی صاحب سابق ڈائریکٹر جنرل محکمہ اوقاف نے ایک دفعہ مجھ سے پوچھا کہ قسور سعید مرزا مرحوم کیا کرتے ہیں انکا اکثر فون آتا ھے مسجد نبوی شریف سے اور مختلف عربی عبارات کا ترجمہ اور معانی و مفاہیم پوچھتے ہیں یہ کب کب جاتے ہیں سعودیہ؟ میں نے ڈاکٹر صاحب سے عرض کیا کہ قسور مرزا مرحوم کو سرگودھا کے قریب بھاگٹانوالا میں مدفون ولی کامل حضرت قبلہ یسین بیگ چشتی قادری رحمتہ اللہ علیہ سے خلافت حاصل ہوئی ہے۔ (اس وقت قبلہ پیر صاحب حیات تھے) جس کی بدولت موصوف کی زندگی میں انقلابی تبدیلیاں رونما ھو چکیں ہیں دنیاداری سے کنارہ کشی کرتے ھوئے خوف خدا اور ذکر مصطفیٰ صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم آپکا اوڑھنا بچھونا بن چْکا ھے۔قسور مرزا مرحوم کا دل ہر وقت روضہ رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وبارک وسلم پر حاضری کے لیے دھڑکتا ھے ان چند لائنوں سے آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ آپ کس قدر عالی مرتبہ کی حامل شخصیت تھے۔آپکو دار الفناء  سے دار البقاء کی طرف رحلت کو ایک سال گزر گیا آپکا سالانہ عرس مبارک بڑے تزک و احتشام سے شجاع آباد میں دو اور تین صفر المظفر کو منعقد کیا جا رہا ھے۔اللہ پاک مرحوم کے درجات بلند فرماتے ھوئے اعلیٰ علیین میں جگہ عطاء  فرمائے آمین ثم آمین یارب العالمین۔

ای پیپر دی نیشن