اصغر علی شاد
امراجالا
واضح رہے کہ نریندرمودی کی برکس سربراہ اجلاس میں شرکت کے موقع پر جنوبی افریقہ کے شہروں میں کشمیریوں پر ہونے والے مظالم اور ہندوتوا انتہا پسندوں کے ہاتھوں اقلیتوں پر ظلم و ستم کی مذمت کے لئے بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے کیے گئے، مظاہرین نے بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر کشمیر کو آزاد کرو، یاسین ملک کو رہا کرو اور مودی گجرات کا قصائی ہے جیسے نعرے درج تھے۔23اگست کو جوہانسبرگ میں برکس سربراہی اجلاس کے مقام کے قریب ایک احتجاجی مظاہرہ کیا گیا جس میں جنوبی ایشیا کے انسانی حقوق کے کارکنوں اور میڈیا سے وابستہ افراد کی بڑی تعداد نے شرکت کی، انہوں نے مودی مخالف پلے کارڈز اور کشمیر کے جھنڈے اٹھا رکھے تھے اور مودی کی فاشزم کی مذمت کرتے ہوئے نعرے لگائے۔ اسی تناظر میں یہ بات اہم ہے کہ 22اگست کو بھی جوہانسبرگ میں مودی کے خلاف احتجاج کے لیے ایک اور احتجاجی ریلی نکالی گئی گئی۔ شرکائ نے کشمیر کے جھنڈے اور مودی مخالف پلے کارڈز اٹھا رکھے تھے جس کی بین الاقوامی میڈیا نے کور یج کی اور مظاہرین کے انٹرویو بھی ریکارڈ کیے گئے۔ تفصیل اس معاملے کی کچھ یوں ہے کہ انسانی حقوق کے کارکنوں نے ڈربن میں بھارتی قونصل خانے کے قریب بھی احتجاجی مظاہرہ کیا جس میں کارکنوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔انہوں نے پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جن پر ’’بھارت اقوام متحدہ کی کشمیر پر قراردادوں پر عمل درآمد کرے‘‘، ’’بھارت اقلیتوں کا قتل بند کرو‘‘، کشمیر سے فلسطین تک قبضہ جرم ہے اور ’’مودی انسانیت کا قاتل‘‘ کے نعرے درج تھے۔
اس تمام صورتحال کا جائزہ لیتے مبصرین نے رائے ظاہر کی ہے کہ سبھی جانتے ہیں کہ برکس نامی تنظیم کا حالیہ سربراہ اجلاس جب منعقد ہوا تو اس میں کشمیر کی آزادی اور بھارتی مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں پر ہونے والے مظالم کی جانب بڑے پیمانے پر عالمی توجہ دلائی۔یاد رہے کہ اس تنظیم کے رکن ممالک میں چین،روس،بھارت جنوبی افریقہ اور برازیل شامل ہیں۔مبصرین کے مطابق ایسے میں یہ امر خاصا حوصلہ افزا ہے کہ اتنے بڑے پلیٹ فارم پر کشمیر کی آزادی کے لیے موثر ڈھنگ سے بات کی گئی۔
اس ضمن میں یہ امر بھی قابلِ توجہ ہے کہ کشمیر کا مسئلہ اقوامِ متحدہ میں خود بھارت لے کر گیا تھا اور اس متفقہ قرار دار کے ذریعے اس نے اقوامِ عالم سے عہد کیا تھا کہ وہ کشمیریوں کو رائے شماری کا حق دے گا۔ ابتدائی برسوں میں اس وقت کے بھارتی وزیرِ اعظم ’’جواہر لعل نہرو‘‘ اپنے اس وعدے پر کسی حد تک قائم بھی رہے مگر وقت گزرنے کے ساتھ دہلی سرکار اس ضمن میں تمام وعدوں سے منحرف ہو گئی اور اس نے یہ راگ الاپنا شروع کر دیا کہ کشمیر بھارت کاایک اٹوٹ انگ ہے۔
کشمیر کے بے گناہ مگر غیور عوام نے ابتدائ میں تو کئی سال اس امید میں گزارے کہ شاید بھارتی حکمران اپنے وعدوں کا پاس کرلیں اور عالمی برادری بھارت کو سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمد کرانے پر مجبور کرے مگر جب انھیں کہیں تو انصاف نہ ملا تو انھوں نے 1988 میں بھارت سے آزادی کی نسبتاً زیادہ فعال تحریک شروع کی تو قابض بھارتی فوج نے کشمیریوں کے خلاف ریاستی دہشتگردی کا بد ترین سلسلہ شروع کر دیا۔یہ امر بھی اہم ہے کہ یورپی یونین سمیت عالمی برادری کے کئی حلقوں نے ماضی قریب میں ایک سے زیادہ مرتبہ بھارت پر زور دیا کہ وہ مقبوضہ ریاست میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بند کرے اور اس مسئلے کا کوئی ایسا حل نکالا جائے جو تمام فریقین کے لئے قابلِ قبول ہو۔جیسے کہ یکم جنوری 2014 کو یورپی یونین کے اس وقت کے پرنسپل ایڈوائزر برائے خارجہ امور ’’فیڈرو سرانو‘‘ نے یورپی یونین کے صدر کے حوالے سے ایک بیان میں کہا تھا کہ یورپی یونین کو مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کے بارے میں پورا علم ہے کہ وہاں کیا ہو رہا ہے اور یورپی یونین کے وفد نے ریاست جموں کشمیر کے دورے کے دوران اس بات کو شدت کے ساتھ محسوس کیا کہ بھارتی پولیس،فوج اور پیراملٹری فورسز انسانی حقوق کی پامالیوں میں ملوث ہیں اور یورپی یونین چاہتی ہے کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا یہ سلسلہ فوراً روکا جائے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ دنیا بھر کے تمام انصاف پسند حلقے تنازعہ کشمیر کو اقوامِ متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق حل کرانے میں اپنا ٹھوس کردار زیادہ فعال ڈھنگ سے ادا کریں تا کہ اس دیرینہ تنازے کو کشمیری عوام کی خواہشات کے مطابق حل کیاجا سکے۔انسان دوست حلقوں کے مطابق اس صورتحال پر محض افسوس ہی ظاہر کیا جا سکتا ہے کہ عالمی قوتیں اپنے سطحی اور وقتی مفادات کے حصول میں جْٹی ہوئی ہیں اور انسانی حقوق کے تحفظ کی باتیں کرنے کے علاوہ کوئی کام نہیں کیا جا رہا۔ قابض بھارتی افواج کی جانب سے بھارتی غیر قانونی زیر قبضہ کشمیر میں ریاستی دہشتگردی اور مظالم ہر آنے والے دن کیساتھ بڑھتے جا رہے ہیں۔ امید کی جانی چاہیے کہ دنیا بھر کے انسان دوست سنجیدہ حلقے نہتے کشمیریوں کی حالت زار کی جانب فعال ڈھنگ سے توجہ دیں گے۔مبصرین کے مطابق توقع رکھنی چاہیے کہ تقریبا ایک ماہ بعد ہونیوالے جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس میں اس حوالے سے ٹھوس پیش رفت سامنے آئے گی اور یاسین ملک اور دیگر حریت رہنماوں کیخلاف جاری غیر انسانی بھارتی رویہ ختم ہوگا اورتوقع رہے کہ تمام سول سوسائٹی اس حوالے سے مثبت کردار ادا کرئے گی۔