اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ+نامہ نگار) اقوام متحدہ کے بچوں کے ادارے یونیسیف نے خبردار کیا ہے کہ پاکستان میں تاریخ کے بدترین سیلاب کی تباہ کاریوں اور ہنگامی حالت کے اعلان کے ایک سال بعد بھی لاکھوں بچے انسانی امداد اور ضروری خدمات تک رسائی کے منتظر ہیں۔ یونیسیف نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا کہ بحالی اور آبادکاری کی کوششوں کو ابھی تک درکار مالی اعانت فراہم نہیں کی جا سکی ہے۔ یونیسیف نے کہا کہ رواں سال مون سون بارشوں کی وجہ سے سیلاب سے متاثرہ آبادیوں کے لیے پہلے سے ہی مشکل حالات مزید بدتر ہو رہے ہیں، جس کے نتیجے میں ملک بھر میں اب تک 87 بچے موت کا شکار ہوچکے ہیں۔ یونیسف کے مطابق اب بھی 80 لاکھ افراد جن میں سے نصف بچے ہیں، سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں صاف پانی تک رسائی سے محروم ہیں۔ مزید کہا گیا ہے کہ سیلاب سے متاثرہ اضلاع میں 15 لاکھ سے زائد بچوں کو زندگی بچانے والی خوراک کی ضرورت ہے، جبکہ یونیسیف کی اپیل میں زندگیاں بچانے کی کوششوں کے لیے مانگی گئی 173.5 ملین امریکی ڈالر کی امداد کا محض 57 فیصد فراہم ہو سکا ہے۔ پاکستان میں یونیسف کے سربراہ عبداللہ فاضل نے کہا کہ سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں رہنے والے خطرات کے شکار بچوں نے ایک سال خوف کے سایے تلے گزارا ہے اور انہوں نے اپنے پیاروں، گھروں اور سکولوں کو کھو یا ہے۔ عبداللہ فاضل نے کہا کہ جیسے ہی مون سون کی بارشیں شروع ہوئی ہیں، موسمیاتی تبدیلی سے ہونے والی تباہیوں کا خدشہ بڑھتا جا رہا ہے۔ بحالی کی کوششیں جاری ہیں، لیکن بہت سے لوگوں تک اب بھی کوئی مدد نہیں پہنچ سکی ہے اور پاکستان کے بچوں کو فراموش کیے جانے کا خطرہ ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کی بدولت آنے والی آفت نے متاثرہ اضلاع میں بچوں اور خاندانوں کو پہلے سے درپیش عدم مساوات کو مزید گہرا کر دیا ہے۔ ایک تہائی بچے سیلاب آنے سے پہلے ہی سکولوں سے باہر تھے جبکہ غذائی قلت ہنگامی سطح تک پہنچ چکی تھی اور پینے کے صاف پانی اور صفائی ستھرائی کی سہولیات تک رسائی تشویش ناک حد تک محدود تھی۔ یونیسیف نے کہا کہ اگست 2022ء سے اب تک یونیسف اور شراکت دار اداروں نے 36 لاکھ افراد کو بنیادی صحت کی دیکھ بھال کی خدمات فراہم کی ہیں۔ یونیسیف کے سربراہ عبداللہ فاضل کا کہنا تھا کہ یونیسیف حکومت پاکستان اور شراکت دار اداروں پر زور دیتا ہے کہ وہ بچوں اور خاندانوں کے لیے بنیادی سماجی خدمات میں اضافی سرمایہ کاری کریں اور ان کی مسلسل فراہمی کو یقینی بنائیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں موسمیاتی تبدیلی کے خلاف پائیدار نظام دوبارہ تعمیر کرنے ہوں گے جو عدم مساوات کو پر کریں اور موسمیاتی تبدیلی سے درپیش خطرات کو کم کریں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم پاکستان کے بچوں کو نہیں بھول سکتے، سیلاب کا پانی اْتر گیا ہے، لیکن اس موسمیاتی تبدیلی کے خطرات سے دوچار علاقے میں ان کی پریشانیاں ابھی برقرار ہیں۔