خالدبہزاد ہاشمی
لاہور میں یوں توسینکڑوں اولیاء کرام آسودہ خواب ہیں لیکن جو عزت اور تکریم حضرت علی ہجویری المعروف داتا گنج بخش کے حصہ میں آئی اس سے دیگر محروم رہے۔ آپ چشم تصور سے ایک ہزار پچیس سال قبل کے لاہور سوچیں کہ ایک گزر گاہ ہونے کے باعث اس شہر میں طوائف الملوکی اور بدامنی کا کیا عالم تھا اور اس خالصتاً ہندو شہر کی آبادی، مذہب، کلچر، ثقافت، زبان اور روایات کیا تھیں۔ اس وقت سلطان محمود غزنوی کا بیٹا سلطان مسعود غزنوی سربراہ مملکت تھا۔ بقول محترم ڈاکٹر ظہر احمد اظہر برعظیم میں اسلام کی تاریخ کی پانچویں صدی ہجری، بلاشبہ مرشد لاہور شیخ ابو الحسن علی بن عثمان الحسنی کے نام ہے اور یہیں سے شہر لاہور بھی داتا کی نگری اور عالم اسلام کا دھکڑتا دل قرار پاتا ہے بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ اس مرحلہ سے اندھیروں میں گم لاہور کو روشن تاریخ نصیب ہوتی ہے جو حضرت داتا صاحب کے ساتھ ساتھ چلنے لگتی ہے اور اب حالت یہ ہوگئی ہے کہ ان دونوں لاہور اور داتا صاحب میں سے کسی ایک کا نام لو تو دوسرے کا نام بھی ذہن کی سکرین پر ابھر آتا ہے۔ بہرحال اس پانچویں صدی کے دور ان میں پورا عالم اسلام، مشرق سے مغرب تک اور شمال سے جنوب تک، حضرت مرشد لاہور کی جولا نگاہ تھی۔ نوخیز سید علی بن عثمان غزنوی کبھی اس وقت کے علوم مروجہ سمیٹنے میں رواں دواں رہے۔ کبھی وہ تصوف عرفان کے موتی چنتے ہوئے سرکردہ دکھائی دیئے اور اسلام کی تعلیم و تبلیغ کی شمعیں روشن کرکے علم توحید سے کفر و شرک اور جہالت کی تاریکیاں مٹاتے ہوئے نظر آئے حتیٰ کہ آخر کار سید ہجویر اسلامی لاہور کی تعمیر کے لیے جم کر یہیں بیٹھ گئے اور یہی داتا کی نگری شہر لاہور ان کی زندگی کا آخری نقش قدم، آخری منزل اور مدفن ٹھہرا اور تاقیامت وہ یہیں آسودہ خواب رہیں گے۔ یہی نہیں بلکہ براعظم میں اسلامی تاریخ کی پانچویں صدی ہجری سید ہجویر کی تاریخ بن گئی اور بقول حضرت مجدد الف ثانی صاحب کشف المحجوب اللہ تعالیٰ کے ولی کامل کے طفیل شہر لاہور برعظیم اشاعت و تبلیغ اسلام کے لیے قطب ارشاد، یعنی ہدایت و رہنمائی کا مرکز و محور بن گیا اور اسلامی تحریکوں کے آغاز کے لیے قوت محرکہ اور روحانی پرائو یا پلیٹ فارم ثابت ہوا۔ چنانچہ حضرت خواجہ اجمیر بھی حصول راحت و رہنمائی کے لیے یہیں آ کر سستائے اور پھر آگے بڑھے تھے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے قیام کی قرارداد بھی یہیں پاس ہوئی اور 1974ء میں بیک وقت پچاس سے زائد اسلامی ملکوں کے سربراہ بھی برعظیم کے قطب ارشاد اسی شہر لاہور میں یہی پیغام دینے کے لئے جمع ہوئے کہ اب ’’برعظیم اسلام کا ہے‘‘
آپ کے سالانہ تین روزہ عرس مبارک کی تقریبات بااہتمام اور شان و شوکت کے ساتھ جاری ہیں، اسے پاکستان کا سب سے بڑا عرس ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔ جب دہشت گردی کے عفریت نے سر نہیں اٹھایا تھا تو حضرت داتا صاحب کے میلے کا لوگ سال بھر انتظار کرتے اور اس کے لئے نئے کپڑے سلواتے، زائرین کی بڑی تعداد ملک کے کونے کونے اور دور دراز سے آتی، شاہ عالمی اور بابا چھتری والے تک دو طرفہ دکانیں سج جاتیں۔ لوگ بڑی تعداد میں خریداری کرتے اور سال بھر کی آمدن جمع کرکے واپس لوٹتے۔ کھیل تماشے، موت کا کنواں، سرکس، ہر جانب تفریح کا سامان آپ کو اپنی جانب متوجہ کرتا پھر پلاننگ اور منصوبہ بندی کے تحت عوام سے تفریح اور کتھارسس کے ذریعے دہشت گردی اور حفاظت کے نام پر چھین لیے گئے اور بزرگان دین کی مقدس درگاہوں کو بھی دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا ہر چند تفریح کے مواقع چھینے گئے لیکن دلوں سے اولیاء کرام کی محبت کو تو ختم نہیں کیا جا سکا اور دہشت گرد ویکھ لیں آج بھی محض تین ایام میں پندرہ پندرہ لاکھ سے زائد زائرین اپنی مرادیں لیکر اور نذرانہ عقیدت پیش کرتے آئے ہیں۔
آپ کی ولادت فاتح سومنات سلطان محمود غزنوی یا سلطان مسعود غزنوی کے عہد میں ہوئی
آپ کی پیدائش فاتح سومنات سلطان محمود غزنوی کے آخری ایام یا سلطان مسعود غزنوی کے ابتدائی دور حکومت میں ہوئی، یعنی سلطنت غزنی ہی آپ کی ولادت باسعادت کا زمانہ ہے۔
غزنی کی بستی ہجویر میں سکونت
مغل شہنشاہ شاہ جہاں کے لخت جگر شہزادہ داراشکوہ قادری کی معروف تصنیف سفینۃ الاولیاء کے مطابق آپ کا ننہال غزنی کی ہجویر نامی بستی میں مقیم تھا اسی نسبت سے آپ کو ہجویری کہا جاتا ہے۔ جبکہ غزنی سے مشرقی سمت ایک کلو میٹر کے فاصلے پر آپ کے والد محترم حضرت عثمان بن علی کا مزار مبارک بھی مرجع خلائق ہے۔
سلسلہ نسب نو واسطوں سے پیارے نبیؐ سے جا ملتا ہے
آپ نجیب الطرفین سید ہیں اور آپ کا شجرہ نسب سات واسطوں سے نواسہ رسولؐ حضرت امام حسینؓ اور پھر حضرت علیؓ شیر خدا سے جبکہ نوواسطوں سے پیارے نبیؐ سے جا ملتا ہے۔
والدہ ماجدہ اور ماموں جان کے مزارات
آپ کی والدہ محترمہ عابدہ، زاہدہ،متقی،پرہیز گار اور اہل علم خانوں اور معروف بزرگ حضرت تاج الاولیاء کی صاحبزادی تھیں، آپ کی والدہ ماجدہ اور آپ کے ماموں محترم تاج الاولیاء کے مزارات غزنی میں ساتھ ساتھ ہیں۔ جہاں عقیدت مند آج بھی حاضر دیتے ہیں۔
عباسی، فاطمی اور سلاجقہ حکمرانوں کا عہد دیکھا
حضرت داتا گنج بخش نے اپنی حیات مبارکہ میں بغداد میں چار عباسی خلفا احمد قادر باللہ، ابو جعفر قائم نے ابوالقاسم مقتدی باللہ، ابوالعباس مستنصر باللہ جبکہ مصر میں قادر باللہ کے دور میں فاطمی حکمران تخت پر فائز تھے سلاجقہ حکمرانوں میں طغرل بک، الپ ارسلان ملک شاہ، ناصر الدین محمود، برکیاروق اور ملک شاہ ثانی کا عہد دیکھا۔
درجنوں ممالک کا سفر لیکن کسی دربار سے منسلک نہ ہوئے
آپ نے اپنی عمر مبارک کا بیشتر حصہ علمی اور روحانی فیوض برکات اور سیر و سیاحت میں بسر کیا، عراق، شام، بغداد، آذربائیجان، قبرستان خوزستان، کرمان، طوس، ماوراء النہر ترکستان اور حجاز مقدس کے سفر کے باوجود کسی بادشاہ کے دربار سے وابستہ نہ ہوئے۔
آپ کے مرشد حضرت ختلی ساٹھ سال پہاڑوں میں گوشہ نشین رہے، ایک ہی لباس چھبیس سال تک زیب تن کیا
حضرت داتا گنج بخش کو اس مقام و مرتبہ تک پہنچانے میں ان کے عظیم مرشد حضرت شیخ ابوالفضل الختلی کا بڑا ہاتھ تھا۔ وہ ایسے مرد کامل تھے کہ ساٹھ سال تک پہاڑوں میں گوشہ نشین راستے ہیں اور خلق خدا سے خود کو پوشیدہ رکھتے ہیں انہوں نے چھبیس سال تک ایک ہی لباس زیب تن کیا اور وہ لباس پہننے کے قابل نہیں رہا تھا لیکن اسی کو بار بار پیوند لگا کر پہنتے یہاں تک کہ اصل کپڑے کا نام و نشان تک باقی نہ رہا۔ حضرت داتا صاحب اپنے ان مرشد کے بارے میں فرماتے ہیں کہ میں نے اس مرد خدا سے زیادہ کسی کو بارعب نہیں پایا۔
چالیس سال سفر میں رہنے کے باوجود کبھی نماز باجماعت قضا نہ کی
حضرت داتاگنج بخش چالیس سال سفر میں رہے، ان کا یقین اللہ تبارک تعالیٰ پر اس قدر پختہ اور محکم تھا کہ جہاں بھی قیام ہوگا وہاں طعام کا انتظام بھی کیا جائے گا، مسلسل چالیس برس تک سفر میں رہنے کے باوجود کبھی نماز باجماعت قضا نہ فرمائی جبکہ نماز جمعہ کی ادائیگی کے لئے کسی قصبہ یا شہر میں قیام فرماتے۔
لاکھوں من دودھ درگاہ کی نذر
گورنر لاہور رائے راجو آپ کی نگاہ کیمیا سے حضرت شیخ ہندی بن گیا
حضرت داتا گنج بخش کے عرس مبارک کے ایام میں لاکھوں من دودھ آپ کے ایصال ثواب کے طور پر زائرین کی تواضع کے لئے عقیدت مندوں، شیر فروش حضرات اور گجر برادری کی جانب سے پیش کیا جاتا ہے۔ آپ تبلیغ اسلام کی خاطر جب غزنی سے لاہور تشریف لائے۔ ان دنوں لاہور اور گرد و نواح کے لوگ اپنے مویشیوں کا ایک وقت کا دودھ ہندو جوگی رائے راجو (کوتوال لاہور شہر) کو دیا کرتے تھے۔ آپ کے قیام کے تیسرے دن ایک بڑھیا دودھ اٹھائے جوگی کو دینے جا رہی تھی تو آپ کے پوچھنے پر بڑھیا نے بتایا کہ میں یہ دودھ پنجاب گورنر رائے راجو جوگی کو دینے جا رہی ہوں، اگر میں نے یہ دودھ اُسے نہ دیا تو اس کے جادو کی وجہ سے میرے جانور دودھ کی بجائے خون دینا شروع کر دیں گے۔ حضرت نے فرمایا یہ دودھ مجھے دے دو تمہارے جانور خون نہیں دیں گے۔ آپ کے اس فرمان پر بڑھیا نے وہ دودھ آپ کو پیش کر دیا۔ جب شام کو بڑھیا نے جانوروں کا دودھ دوہنا شروع کیا تو بجائے خون آنے کے دودھ کی مقدار میں اضافہ ہو گیا۔ اس بات کی خبر بڑھیا نے شہر کے دوسرے لوگوں تک پہنچائی تو انہوں نے بھی حضرت کی خدمت میں دودھ پیش کرنا شروع کیا۔ گورنر رائے راجو کو اس بات کا علم ہوا تو اس نے اپنی شعبدہ بازیوں کے ذریعے حضرت کو تنگ کرنے کی کوشش کی مگر آپ نے اپنے روحانی تصرف سے اُسے زیر کر لیا اور وہ مسلمان ہو گیا۔ آپ نے اُن کا لقب شیخ ہندی رکھا اور انہیں خلافت عطا فرمائی۔ جو آج بھی آپ کے روضہ کے باہر مدفون ہیں اور تمام سجادگان ان کی اولاد ہیں اس واقعہ کے بعد شہر کے لوگ جوق در جوق مسلمان ہونا شروع ہو گئے چونکہ آپ نے سب سے پہلی نذر دودھ کی قبول فرمائی۔ اس لیے پنجاب بھر کی گوجر برادری اور شیرفروش اس روایت کو صدیوں سے زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ سارا سال اور عرس کے موقع پر خصوصاً تین دن دور و نزدیک سے لاکھوں من دودھ حضرت داتا گنج بخش کی خدمت اقدس میں پیش کیا جاتا ہے۔ گزشتہ کئی عشروں سے گوجر برادری اپنی والہانہ عقیدت و احترام کا اظہار کرتے ہوئے باقاعدہ سبیل دودھ کا اہتمام کرتی ہے۔
داتا دربار حرم نبویؐ کی طرز پر کینوپیز سے آراستہ ہوگا
دوسرے مرحلے میںدربار شریف کا رقبہ56 سے80 کنال ہو جائے گا، سید طاہر رضا بخاری
داتا دربار میں حرمِ نبوی کی طرز پر کینوپیز آراستہ ہوں گی، افتتاح عرس کے موقع پر ہوگا، نیسپاک نے فزبیلٹی سٹڈی مکمل کرلی۔ مسجد کے صحن میں 26×26 فٹ کی 20 چھتریاں مکمل طور پر ہائیڈرولک اور آٹو میٹک ہوں گی، جس سے مسجد و دربار شریف کا حْسن دوبالا اور زائرین کو بہتری سہولت کی فراہمی دستیاب ہوگی۔ اس ضمن میں 650 ملین کا پی سی۔I پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ بورڈ کو پیش کیا جائے گا۔ سیکرٹری/چیف ایڈ منسٹریٹر اوقاف پنجاب ڈاکٹر طاہر رضابخاری نے بتایا کہ زائرین کے لیے بہترین سہولیات کی فراہمی اوّلین ترجیح ہے، جس کے لیے گورنمنٹ ہمہ وقت مستعد ہے۔ انہوں نے کہا کہ ماحول کو صاف ستھرا وپاکیزہ رکھنا اور عقیدتمندوں کو سیکیورٹی، حفظا ن صحت کے اصولوں کے مطابق ماحول کی فراہمی کے لیے محکمہ کو شاں ہے۔ واضح رہے کہ موجودہ داتا دربار کمپلیکس1979ء تا1999ء ، بیس سال کے عرصے میں، دو فیزز میں مکمل ہوا، جس میں جامع مسجد، سماع ہال، بیسمنٹ، جس میں تقریباً200 گاڑیوں کی پارکنگ،مدرسہ ہجویریہ، سیمینار ہال، لائبریری، مرکز معارف اولیاء اور میکینکل روم شامل ہے، جس سے یہ ایریا 5 کنال 4 مرلے سے بڑھ کر 58 کنال تک وسعت پاگیا۔ خطّے میں زائرین کی سب سے زیادہ آمدورفت داتا دربار میں ہوتی ہے جو کہ عام دونوں میں تقریباًچالیس ہزار سے ساٹھ ہزار، جس میں جمعرات، جمعہ اور اتوارکے روز مزید اضافہ ہوتا ہے۔مزید یہ کہ دربار شریف کے دو تعمیراتی پراجیکٹس بھی زیر عمل ہیں، ایک مزار شریف کی ڈویلپمنٹ ہے، جو مدینہ فاؤنڈیشن کے تعاون سے جاری ہے۔ جس میں غلام گردش کے مکمل ایریے کی اَپ گریڈیشن اور مزار شریف کا ''سْپرسٹرکچر'' تعمیر ہوگا۔مزید دوسرا منصوبہ، جس میں بطور ِخاص دربار شریف کی توسیع شامل ہے، جس کے بعد موجودہ دربار شریف 56 کنال سے بڑھ کر 80 کنال سے زیادہ ہوجائے گا۔ اس میں دربار شریف کے فرنٹ کی اَپ گریڈ یشن اور لینڈ ایکوزیشن سمیت دیگر امور شامل ہیں۔