حضرت داتا صاحب کے عرس پردودھ کی سبلیں، دیگیں، قوالیاں اور عقیدت کے دیگر انداز اپنی جگہ لیکن فرقوں اور گرہوں میں تقسیم لوگوں میں رواداری، برداشت، تحمل ،احسان اور صلح رحمی کے معاملات پیدا کرنے اور پاکستان کو حقیقی معنوں میں امن و آتشی کا گہوراہ بنانے کے لیے ضروری ہے کہ داتا صاحب کی تعلیمات کو عام کیا جائے ،اُن پر عمل کرنے کی کوشش کی جائے۔ اسلام کی دینی،ملّی سماجی اور معاشرتی تاریخ میں اولیائے عظام و صوفیائے کرام کا کردار تاریخ ساز، تعمیری،اصلاحی اور مثالی رہا ہے۔ صوفیا نے اپنے کردار اور علمی و فکری سوچ سے معاشرے کا رخ روحانیت، اصلاح و فلاح اور تعمیر و ترقی کی طرف موڑنے میں زبردست کردار ادا کیا۔ بلاشبہ حضرت علی بن عثمان ہجویری المعروف حضرت داتا گنج بخش ایسے ہی جلیل القدر بزرگ ہیں، جن کی تعلیمات نے ہزار ہا بھٹکے ہوئے لوگوں کو راہ راست دکھائی،آپ کے علم و فضل اور تعلیمات کا فیض آج تک جاری ہے۔ عوام و خواص میں آپ داتا گنج بخش، خزانے بخشنے والا کے لقب سے مشہور ہوئے۔ اپنے مرشد کے حکم سے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے دین کی تبلیغ و اشاعت کیلئے سلطان محمود غزنوی کے بیٹے ناصر الدین مسعود کے زمانے میں لاہور تشریف لائے۔ اور لاہور شہر کے باہر دریائے راوی کے کنارے اپنا مسکن بنایا ۔تبلیغ و اشاعت دین کے سلسلے آپ نے برصغیر کے دوسرے علاقوں کا بھی سفر کیا، لیکن آپ کا مقام و مرکز لاہور ہی رہا۔لاہور میں تبلیغ دین کا کام انجام دینا بے حد مشکل کام تھا کیونکہ یہاں ہندوئوں، برہمنوں اور جوگیوں کا راج تھا ۔ آپ نے تقریباً 34 سال تک لاہور اور پنجاب میں تبلیغ اسلام کیلئے کام کیا۔ لاہور آمد پر آپ نے سب سے پہلے مسجد تعمیرکی ، پھر مریدین کیلئے خانقاہ تعمیر کی اور دعوت حق کا کام شروع کردیا۔داتا گنج بخش کے علم و فضل،حسن سلوک، مذہبی رواداری، خدمت خلق اور سماجی خدمات نے خطے میں ایک انقلاب برپا کیا،لوگ جوق درجوق اسلام میں داخل ہوئے۔آپ کی تبلیغ تاریخ اسلام میں ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے، کیونکہ آپکی آمد سے کثیر تعداد میں نہ صرف پسے ہوئے طبقوں کے لوگ دائرہ اسلام میں داخل ہوئے بلکہ خواص اور ہندو برہمنوں نے بھی کلمہ حق پڑھا۔ آپکے حسن سلوک اور علمی و فکری سوچ نے لوگوں کے ذہنوں پر خوب اثر کیا اور وہ بڑی تعداد میں مسلمان ہونے لگے۔یہ کہنا درست ہوگا کہ ہندوستاں میںآپکی تعلیمات سے اسلام کو فروغ حاصل ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اور حضرت بابا فرید گنج شکر جیسے اولیاء اور قطب المشائخ لاہور آئے اور چلہ کش رہے۔ اس سے حضرت علی ہجویری کا عالی مرتبت ہونا صاف ظاہر ہے۔جب حضرت خواجہ معین الدین چشتی نے اجمیر کو مرکز بنا کر اسلامی تعلیمات کو پھیلانے کا ارادہ کیا تو آپ اجمیر جانے سے پہلے حضرت علی ہجویری کے مزار مبارک سے متصل حجرے میں چالیس روز تک مصروف عبادت و اعتکاف رہے۔ اسکے دوران آپ نے اس قدر روحانی فیض حاصل کیا کہ بوقت رخصت زباں زد خاص و عام یہ شعر کہا:
’’گنج بخش فیض عالم مظہر نور خدا
ناقصاں را پیر کامل، کاملاں را رہنما‘‘
شیخ احمد سرہندی حضرت مجدد الف ثانی اپنے ایک مکتوب میں فرماتے ہیں: ’’فقیر کے نزدیک لاہور ہندوستان کے تمام شہروں میں قطب الارشاد کا درجہ رکھتا ہے، اس کی خیر و برکت تمام بلادِ ہندوستان میں پھیلی ہوئی ہے‘‘۔ حضرت اقبال نے تو یہاں تک فرما دیا:
’’خاکِ پنجاب از دمِ اُو زندہ گشت صبح ما از مہرِ اُو تابندہ گشت‘‘
یعنی آپکے وجودِ کے سبب سرزمین پنجاب کو نئی زندگی عطا ہوئی اور آپ ہی کے آفتابِ وجود سے ہماری ملّت کے اُفق روشن ہوئے۔حضرت داتا گنج بخش علیہ الرحمۃ نے اپنی کتاب کشف المحجوب میں جو قرآنی آیاتِ قرآنیہ، احادیث، عربی اشعار اور اقوال نقل کئے ہیں ان کی مجموعی تعداد کئی ہزار سے زیادہ بیان کی جاتی ہے۔کم و بیش 30مستند علمی کتابوں کے حوالوں کا ذکر ہیں۔ کشف المحجوب کا مطالعہ کرنے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ سید ہجویر تفسیر، حدیث، فقہ، عربی زبان و ادب، منطق، کلام، فلسفہ، تاریخ، تصوف اور دین و شریعت کے اسرارو رموز پر گہری نگاہ رکھتے تھے اور آپ کو ان علوم میں کتنی مہارت اور دسترس حاصل تھی۔ آج کل کے کچھ ظاہر بیں لوگ بڑی شد و مد سے یہ پروپیگنڈہ کرتے ہیں کہ اصحابِ طریقت کا شریعت سے کوئی ربط و تعلق نہیں ہے، یہ سراسر لغو اور بے بنیاد پروپیگنڈہ ہے۔اگر انصاف، علمی دیانت ‘ غیر جانبداری سے صوفیاء کرام کی حیات کو دیکھا جائے اور تصوف کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ صوفیا کے ہاں نہ صرف شرعی حدود کی پابندی ملتی ہے بلکہ اصحاب طریقت کے ہاں شریعت سے ہٹ کر کوئی عمل کرنا،شریعت کے حوالے کے بغیر کوئی بات سننا،کسی ایسی مجلس کا اہتمام کرنا، حد درجہ خطرناک اور مہلک ہے۔ اہل طریقت کے نزدیک جو شخص اپنے علم یا کسی اور رتبے کی وجہ سے غرور کرے ایسا شخص دین سے دور اور شرک کے قریب ہوجاتا ہے۔حضرت داتا گنج بخش علیہ الرحمۃ نے تصوف کے مدعی حضرات کو تین واضح خانوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ فرماتے ہیں۔ صوفی وہ ہے جو خواہشاتِ نفسانیہ کو مار کر حقیقت سے پیوستہ ہو جائے۔ مُتَصَوِّف وہ ہے جو ریاضت و مجاہدے کے ذریعے اس مقام کو طلب کرے اور اسکی طلب حصول مقام میں سچی رہے۔ مُسْتَصْوِفْ وہ ہے جو دنیاوی عزت و منزلت اور مال و دولت کی خاطر خود کو ایسا بنائے اور اُسے مذکورہ منازل و مقامات کی کچھ خبر نہ ہو۔ایسا گر وہ جماعت صوفیاء کے لیے ایک داغ ہے اور مفاد پرست ہے۔