رات گئے تک کالم نگار ہارون الرشید سے فون پر لمبی گپ شپ ہوتی رہی۔ کیا شاندار آدمی ہیں،اپنی ہی ڈھب کے انوکھے آدمی۔ کہنے لگے۔ بھٹو کی مقبولیت 37فیصد تھی۔ عمران خان کی مقبولیت 70فیصد سے بھی بڑھ چکی ہے۔ اس سلسلہ میں وہ کسی ادارے کا حوالہ بھی دے رہے تھے۔ عمران خان کی شخصیت کی تراش خراش اور پروجیکشن میں ان کے قلم کا بھی بڑا حصہ ہے۔ اک زمانہ تک ان کا کوئی کالم بھی عمران خان کے ذکر اذکارسے خالی نہیں ہوتا تھا۔ اسی زمانہ میں کالم نگار نے اپنے ایک کالم میں لکھا تھا۔ اب کالم نگار ہارون الرشید، عمران خان کے خدو خال سے ہوتے ہوئے بنی غالہ میں ان کے گھر کے درو دیوار، محراب و طاق کے نقش و نگار تک پہنچ گئے ہیں۔ ان دنوں ان کے کالم ان کی حسن و خوبی سے بھرے پڑے ہوتے ہیں۔ ہارون الرشید بھی بادشاہ آدمی ہیں، دوسری جانب عمران خان ہیں ہی بادشاہ۔ سو ان دونوں کے تعلقات میں گرمی سردی، تلخی نرمی آتی رہتی ہے۔ ان کی یاری دوستی ایک سی کبھی بھی نہیں رہی۔ کبھی گرمجوشی، کبھی سرد مہری اور کبھی تلخی تو تکرار۔
جہاں تک عمران خان کی مقبولیت کا تعلق ہے وہ 70فیصد بھی غلط نہیں۔ لیکن پاکستان میں اقتدار حاصل کرنے کے لئے عوامی مقبولیت کے ساتھ ساتھ اسٹیبلشمنٹ کی قبولیت بھی اشد ضروری ہے۔ عمران خان نے اس حقیقت کو یوں ننگا کر دیا کہ کسی کٹھ پتلی حکومت کی بجائے فوجی قیادت سے مذاکرات ان کی ترجیح ہے۔ 8فروری کے انتخاب نے ان کی مقبولیت اور واضح کر دی۔ ووٹروں نے مختلف انتخابی نشانات تلے عمران خان کے امیدواروں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر ووٹ ڈالے۔ لیکن قبولیت نہ ہونے کے باعث ان کی جماعت ابھی تک اقتدار سے باہر ہے۔
عمران خان مدت ہوئی کرکٹ چھوڑ چکے ہیں۔ لیکن اب وہ سیاست کے میدان میں کبھی کبھی چھکے ضرور لگاتے رہتے ہیں۔ ان کا تازہ چھکا برطانوی یونیورسٹی آکسفورڈ کے چانسلر کے انتخاب میں حصہ لینا ہے۔ قبل ازیں عمران خان 2005سے 2014تک ایک دوسری برطانوی یونیورسٹی بریڈ فورڈیونیورسٹی کے چانسلر رہ چکے ہیں۔ یونیورسٹی کی ویب سائٹ کے مطابق اپنی چانسلر شپ کے دوران انہوں نے یونیورسٹی میں کینسر سے متعلقہ ایک نئے انسٹیٹیوٹ کی بنیاد رکھی۔ اس کے بعد اس انسٹیٹیوٹ اور عمران خان کے شوکت خانم میموریل کینسر ہسپتال اینڈ ریسرچ سنٹر میں قریبی روابط رہے ہیں۔ عمران خان جب اس عہدے سے ہٹے تو اس وقت یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر برائن کنٹر نے ان کی خدمت کو سراہتے ہوئے کہا تھا کہ وہ یونیورسٹی کیلئے ایک ممتاز سفیر اور ہمارے طلباء کیلئے زبردست رول ماڈل رہے ہیں۔
عمران خان نے آکسفورڈ یونیورسٹی کے کیبل کالج سے 1972ء میں معاشیات، فلسفہ اور سیاست میں گریجوایشن کی۔ وہ 1974ء میں آکسفورڈ کی کرکٹ ٹیم کے کپتان بھی رہے۔ اسی دوران بینظیر بھٹو بھی آکسفورڈ سے تعلیم حاصل کر رہی تھیں۔ عمران خان کے مطابق ان کے درمیان دوستی بھی تھی۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کو انگریزی بولنے والے ممالک میں سب سے پرانی درسگاہ سمجھا
جاتا ہے۔ برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی اتنی پرانی ہے کہ اس کی بنیاد کی درست تاریخ معلوم نہیں۔ البتہ یہاں درس و تدریس کا 1096میں آغاز ہو گیا تھا۔1167میں ہینری دوئم کے برطانوی طلباء کے پیرس یونیورسٹی میں جانے پر پابندی کے بعد بہت سے طلباء کے ادھر رجوع کرنے سے اس یونیورسٹی نے بڑی تیزی سے ترقی کی۔ عمران خان پاکستان کی ان پانچ شخصیات میں شامل ہیں جن کا ذکر یونیورسٹی نے اپنے پانچ معروف پاکستانی سابق طالب علموں کی فہرست میں بڑے فخر سے کیا ہے۔ دیگر چار شخصیات میں پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خاں ِ، سابق وزیر اعظم ذو الفقار علی بھٹو اور ان کی بیٹی سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو اور سابق صدر پاکستان سردار فاروق احمد لغاری ہیں۔ایک فہرست میں ان مشہورعالمی شخصیات کے نام شامل ہیں جنہوں نے یہاں سے گریجوایشن کی یا درس دیا۔ اس فہرست میں برطانیہ کے 28وزیر اعظم، کم سے کم 30کے قریب عالمی سطح کے مختلف ممالک سے سیاستدان، 55نوبل انعام یافتگان اور 120اولمپک میڈل جیتنے والے کھلاڑی شامل ہیں۔
اگرچہ یہ خبر ایک عرصہ سے گرم تھی کہ عمران خان آکسفورڈ یونیورسٹی کے چانسلر کے انتخاب میں حصہ لینے والے ہیں لیکن اس خبر کی تصدیق ان کی جانب سے بطور امیدوار درخواست جمع کروانے سے ہوئی۔ 18اگست بطور امیدوار درخواست جمع کروانے کا آخری دن تھا۔ اس عہدے پر کامیاب امیدوار کی تقرری 10سال کے لئے ہوگی۔ یہ ایک اعزازی عہدہ ہے۔ اس پر کوئی انتظامی ذمہ داری نہیں ہوتی۔ تاہم یونیورسٹی کے وائس چانسلر کی تقرری، اہم تقریبات کی صدارت، فنڈ جمع کرنے، مقامی اور بین الاقوامی سطح پر یونیورسٹی کی نمائندگی میں چانسلر کا کردار بہت اہم ہے۔ وہ ایک طرح سے یونیورسٹی کا سفیر ہوتا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ آکسفورڈ یونیورسٹی کے چانسلر کا برطانیہ میں رہنا ضروری نہیں۔ البتہ تمام اہم تقریبات میں اس کی شرکت لازمی ہے۔ چانسلر کے انتخاب کے لئے یونیورسٹی کی کونسل چانسلر الیکشن کمیٹی تشکیل دیتی ہے۔ جس کا کام قواعد و ضوابط کے مطابق انتخابی عمل کا انعقاد اور نگرانی ہوتا ہے۔ یونیورسٹی کے مطابق دنیا بھر سے اڑھائی لاکھ سے زیادہ اہل ووٹر چانسلر کے انتخاب میں حصہ لے سکیں گے۔ یونیورسٹی کے تمام فارغ التحصیل طلباء ، عملے موجودہ اور سابق ارکان ووٹروں کی لسٹ میں شامل ہیں۔ انتخاب میں حصہ لینے والے امیدواروں کی حتمی فہرست اکتوبر میں شائع کی جائیگی۔ ووٹنگ کا عمل 28اکتوبر سے شروع ہوگا۔ عمران خان کے لئے اس انتخاب میں حصہ لینا ووٹنگ سسٹم میں کی گئی ایک حالیہ تقریب سے ممکن ہوا ہے۔ ووٹروں کو آن لائن بھی اپنا ووٹ کاسٹ کرنے کی اجازت دے دی گئی ہے اور امیدواروں کی کاغذات نامزدگی پیش کرتے ہوئے اور الیکشن کے موقع پر ذاتی طور پر حاضری کی ضرورت نہیں رہی۔ چانسلر کرسٹوفر فرانس پیٹن 2003سے اس عہدہ پر فائز تھے۔ انہوں نے 21جولائی کو استعفیٰ دیا ہے۔ 80سالہ پیٹن ہانگ کانگ کے آخری گورنر اور برطانوی کنزرویٹو پارٹی کے چیئرمین رہ چکے ہیں۔اس چانسلری کے انتخاب میں حصہ لینے والو ں میں اسکاٹ لینڈ کی وکیل لیڈی ایلش برطانیہ کے سابق وزیر خارجہ ولیم بیگ، برطانیہ کے سابق وزیر اعظم بورس جانسن اور ٹریزائے شامل ہیں۔
اخبار نویس عمران ریاض خان نے پاکستانیوں کے سامنے ایک سوال اٹھایا ہے۔ ’’جن کو آپ عمران خان کے مقابلے میں لانا چاہتے ہیں وہ آکسفورڈ یونیورسٹی میں میرٹ پر داخلہ کے حقدار بھی نہیں اور عمران خان وہاں چانسلر کا انتخاب لڑ رہا ہے‘‘۔ بہر حال عمران خان چانسلری کے الیکشن میں جیتے یا ہارے۔ وہ محض الیکشن میں حصہ لے کر ہی سیاست کے میدان میں چھکا مار چکا ہے۔