یوں تو آئے روز سوشل میڈیا اور اخبارات میں دل دھلانے اور غمزدہ کرنے والی نت نئی خبریں نظر سے گزرتی رہتی ہیں لیکن آج کل جو چند خبریں ٹاک آف دی ڈاؤن اور ہاٹ نیوز بنی ہوئی ہیں ان میں سے آج ان تین خبروں کے حوالے سے کچھ کہنا مقصود ہے پہلی خبر ہمارے جنوبی پنجاب کے علاقے رحیم یار خان کی ہے جہاں گزشتہ دنوں کچے کے ڈاکوؤں نے ہماری پولیس کے 11 سے زائد اہلکاروں کو شہید کر دیا ہے یہ ان 11 نوجوانوں یا اہلکاروں کی شہادت نہیں بلکہ یہ گیارہ خاندانوں کا قتل ہے نہ جانے غم روزگار میں مبتلا رہنے والے ان اہلکاروں کی آنکھوں میں کتنے خواب تھے اور ابھی کتنے خوابوں کی تعبیریں باقی تھی کتنے ہی آنکھیں اس المناک سانحے پہ نم ہوئی ہیں کتنے ہی خاندان اچانک اجڑے ہیں کتنے ہی خواب ٹوٹ کے بکھرے ہیں اور کتنی سہاگنوں کی امنگیں کچی چوڑیوں کی طرح کرچی کرچی ہوئی ہیں حیرت کی بات یہ ہے کہ ایک طرف ہم ریاست میں ریاست کی مخالفت کرتے ہوئے ان عناصر کو ختم کرنے کے دعوے کرتے ہیں جن لوگوں نے ریاست کے اندر ریاست بنا رکھی ہے لیکن ایک عرصے سے ہم ان کچے کے ڈاکوؤں کا کچھ نہیں کر سکے حکومت کی طرف سے ان کے سروں کی قیمتیں لگائی جاتی ہیں اور اب بھی کچے کے 10 ڈاکوؤں کے سر کی قیمتیں 10 لاکھ سے بڑھا کر ایک کروڑ کر دی گئیں ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ آخر یہ لوگ کون ہیں جو نہ تو ریاست کی رٹ کو مانتے ہیں نہ ہی قانون ساز اداروں کو کچھ سمجھتے ہیں اور نہ ہی قانون نافذ کرنے والے ادارے ان پر اپنے رٹ قائم کر سکتے ہیں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ایک عرصے سے کچے کے علاقے میں یہ موجود ڈاکو توبہ تائب ہو کر اپنی عاجزانہ اور شریفانہ زندگیاں گزار رہے ہوتے اور یہاں کے لوگ سکھ چین کا سانس لے رہے ہوتے اس اہم مسئلے میں ایک چیز یہ بھی سامنے آئی ہے کہ ہمارے جو جرائم پیشہ ملک میں لوگ ہیں جو ڈاکو ہیں جو جرائم پیشہ لوگ ہیں وہ بڑے شاطر ذہن ہونے کے ساتھ ساتھ جدید قسم کے اسلحہ سے بھی لیس ہوتے ہیں جبکہ ہمارے ادارے تمام سہولیات ہونے کے باوجود اکثر یہی کہتے ہیں کہ ان کی گاڑیاں خراب تھیں ان کے پاس پرانا اسلحہ تھا ان کا اسلحہ چلتا نہیں تھا حیرت کی بات یہ ہے کہ اب ہماری پولیس کی چوکیوں پر بھی ڈاکو حملے کرتے ہیں اپنے ساتھیوں کو چھڑا کر لے جاتے ہیں اور اس طرح کی صورتحال میں حکومت اور ہمارے ادارے بے بس ہیں پولیس کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا جاتا ہے پولیس اہلکاروں کی شہادت ایک بہت بڑا سانحہ ہے یہ خبر محض ایک خبر نہیں ہے بلکہ لمحہ فکریہ ہے جس پر ہمارے تمام اداروں کو سوچنا چاہیے ہم کچے کے ان ڈاکوئوں کا خاتمہ کیسے کر سکتے ہیں کچے کے ڈاکوؤں کے خاتمے کے لیے کوئی پکا انتظام ہونا چاہیے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کچھ لوگ ان کو اپنے مخصوص مقاصد کے حصول کیلئے زندہ رکھے ہوئے ہیں اور جس کی وجہ سے بہت سے لوگوں کا کاروبار چل رہا ہے حکومت کو اس مسئلے پر سنجیدہ ہونا چاہیے اور ریاست کے اندر اس قسم کی بدمعاشی اور سینہ زوری کرنے والوں کو روکنے کیلئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو زبانی کلامی نہیں بلکہ عملی طور پر ان کے ساتھ آ ہنی ہاتھوں سے نمٹنا چاہیے ہمارے ایک پولیس آفیسر شاعر دوست فاروق سائر نے اس سانحے کا دلگیر نوحہ لکھا ہے :
نوحہ سانحہ ماچھکہ
کبھی تم تپتی صحرا میں کبھی روشن الاؤ میں
ہمیں تم بھیڑ بکری کیوں سمجھ کر ہانک دیتے ہو
ہمی ہیں فخر ماؤں کا ہمی ہیں باپ کی ہمت
ہمی بہنوں کی چادر ہیں ہمی ہیں بازو بھائی کے
ہمی اس قوم کے بیٹے ہمی پتر ہیں ماؤں کے
ہمی رکھوالے دھرتی کے ہمی پرچم کے رکھوالے
ہمی ہیں نذر آتش بھی ہمی بارود کے آگے
ہمی بدنام تھے پہلے ہمی گمنام ٹھہرے اب
ہمی پر سانحے اترے ہمی ہیں لاپتہ اب تک
مگر ہر سانحے کے بعد ہر ہر واقعے کے بعد
عیادت کو مذمت کو وفاقی قافلے آئے
سیاسی قافلے آئے مداری قافلے آئے
عیادت کرتے رہنا ہی مذمت کرتے رہنا ہی
یہاں دستور ٹھہرا ہے
عیادت سے مذمت سے کبھی بدلاؤ آیا ہے؟
یہاں ہر سانحے کے بعد
نیا اک سانحہ سائر! یہاں پر روز ہوتا ہے
سنو اے صاحبِ مسند!
ہمیں رقبے نہیں لینے ہمیں تمغے نہیں لینے
ہمیں ڈالر نہیں لینے ہمیں کچھ بھی نہیں لینا
ہمیں بدلہ چکانا ہے
ہمیں آزاد کر دو بس۔۔۔!
دوسری اہم خبر کراچی کارساز علاقے کی ہے جہاں ایک سر پھری خاتون نے نشے میں دھت ہو کر کچھ لوگوں پر گاڑی چڑھا دی اور جس کے نتیجے میں ایک باپ اور بیٹی کچلے گئے وہ بیٹی جس کو اس کے باپ نے محنت مزدوری کر کے پڑھایا لکھایا اور جب وہ اپنے کنبے کی کفیل بنی تو پھر ایک ایسی خاتون کی نااہلی کی نذر ہو گئی جس نے نشے میں دھت ہو کر ان پر کار چڑھا دی اس خبر کا جو المناک پہلو ہے وہ یہ ہے کہ اس خاتون کو یہ کہا گیا کہ اس کا ذہنی توازن صحیح نہیں ہے اور اس کو بچانے کیلئے بہت سے لوگ میدان عمل میں کود پڑے تعلقات اور دباؤ کے ذریعے بالآخر ان طبقات نے وہ نتیجہ حاصل کر لیا جو عام لوگوں کیلئے قابل قبول نہیں ہے خاص لوگ اپنے مطلب کے سارے راستے نکال لیتے ہیں اور قانون بھی ان کیلئے موم کی ناک بن جاتا ہے ضمانت ملنے کے بعد سوشل میڈیا پر اس خاتون کی جو تصویر وائرل ہوئی ہے وہ ہم سب کیلئے بھی ایک لمحہ فکریہ اور ہمارے نظام حکومت پر ایک سوالیہ نشان ہے آج کے کالم کا موضوع بننے والی تیسری خبر سالم انٹر ایکسچینج پر تین قیمتی جانوں کے قتل کی ہے کہ یہاں پر ایک شاپ سے کھانے پینے کی کچھ اشیاء لی گئیں اور ان کے کھانے کے نتیجے میں یہ تین افراد فوڈ پوائزنگ کی وجہ سے جان سے گئے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ یہ ان اشیائے خورد و نوش کی ایکسپائری ڈیٹ تھی۔
حیرت ہے کہ اتنی اہم عوامی جگہوں پر ان اہم انٹر ایکسچینج پر جو لوگ ڈیوٹی پر موجود ہیں وہ کیا چیک کرتے ہیں اور فوڈ کنٹرول کمیٹی والے فوڈ کوالٹی والے جن کے بارے میں اکثر یہ خبریں گرم ہیں کہ وہ بھتہ بھی لیتے ہیں وہ کہاں سوئے ہوئے ہیں جب ہمارے ملک میں اس قسم کے واقعات رونما ہوں گے کوئی کسی سے کسی قسم کی پوچھ گچھ نہیں کریگا نہ وہاں کوئی ایسی جگہوں پر کوئی ریٹ لسٹ ہوتی ہے نہ اس ریٹ لسٹ کے مطابق عمل درامد ہوتا ہے نہ ہی اس کی خلاف ورزی پر کسی سے پوجھا جاتا ہے نہ کسی کے خلاف کاروائی ہوتی ہے تو ایک سانچے کے بعد ایک اور سانحے کے اسباب تو بننے ہوتے ہیں یہ تینوں خبریں محض خبریں نہیں ہیں ہمارے معاشرے کا المیہ ہیں متعلقہ محکموں کی کارکردگی اور نااہلی کی چارج شیٹ ہیں یہ خبریں بھی آنے والے دنوں میں وقت کی گرد میں دب کر رہ جائیں گی احتجاج کرتی آوازیں خاموش ہو جائیں گی جن کے گھرانے اور خاندان تباہ ہوئے ہیں وہ اپنے پیاروں کی برسیاں مناتے رہیں گے اور اپنی آنکھیں نم کرتے رہیں گے کاش ہم زبانی جمع خرچ اخباری بیانات اور زبانی کلامی دعووں کے علاوہ بھی کچھ کر سکتے تو آج ہمارے ملک اور معاشرے کا یہ حال نہ ہوتا ہماری حکومت اور ذمہ دار ادارے محض اخباری اور تشہیری افسوس کے بیانات اور مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچائے کے یک سطری بیانات دے کر اپنے فرائض منصبی سے عہدہ برآ ہو جاتے ہیں اور خلقت شہر کہنے کے لئے پھر کسی نئے سانحے اور فسانے کی منتظر رہتی ہے۔