ایک کالم تین خبریں

Aug 26, 2024

اظہر سلیم مجوکہ

یوں تو آئے روز سوشل میڈیا اور اخبارات میں دل دھلانے اور غمزدہ کرنے والی نت نئی خبریں نظر سے گزرتی رہتی ہیں لیکن آج کل جو چند خبریں ٹاک آف دی ڈاؤن اور ہاٹ نیوز بنی ہوئی ہیں ان میں سے آج ان تین خبروں کے حوالے سے کچھ کہنا مقصود ہے پہلی خبر ہمارے جنوبی پنجاب کے علاقے رحیم یار خان کی ہے جہاں گزشتہ دنوں کچے کے ڈاکوؤں نے ہماری پولیس کے 11 سے زائد اہلکاروں کو شہید کر دیا ہے یہ ان 11 نوجوانوں یا اہلکاروں کی شہادت نہیں بلکہ یہ گیارہ خاندانوں کا قتل ہے نہ جانے غم روزگار میں مبتلا رہنے والے ان اہلکاروں کی آنکھوں میں کتنے خواب تھے اور ابھی کتنے خوابوں کی تعبیریں باقی تھی کتنے ہی آنکھیں اس المناک سانحے پہ نم ہوئی ہیں کتنے ہی خاندان اچانک اجڑے ہیں کتنے ہی خواب ٹوٹ کے بکھرے ہیں اور کتنی سہاگنوں کی امنگیں کچی چوڑیوں کی طرح کرچی کرچی ہوئی ہیں حیرت کی بات یہ ہے کہ ایک طرف ہم ریاست میں ریاست کی مخالفت کرتے ہوئے ان عناصر کو ختم کرنے کے دعوے کرتے ہیں جن لوگوں نے ریاست کے اندر ریاست بنا رکھی ہے لیکن ایک عرصے سے ہم ان کچے کے ڈاکوؤں کا کچھ نہیں کر سکے حکومت کی طرف سے ان کے سروں کی قیمتیں لگائی جاتی ہیں اور اب بھی کچے کے 10 ڈاکوؤں کے سر کی قیمتیں 10 لاکھ سے بڑھا کر ایک کروڑ کر دی گئیں ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ آخر یہ لوگ کون ہیں جو نہ تو ریاست کی رٹ کو مانتے ہیں نہ ہی قانون ساز اداروں کو کچھ سمجھتے ہیں اور نہ ہی قانون نافذ کرنے والے ادارے ان پر اپنے رٹ قائم کر سکتے ہیں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ایک عرصے سے کچے کے علاقے میں یہ موجود ڈاکو توبہ تائب ہو کر اپنی عاجزانہ اور شریفانہ زندگیاں گزار رہے ہوتے اور یہاں کے لوگ سکھ چین کا سانس لے رہے ہوتے اس اہم مسئلے میں ایک چیز یہ بھی سامنے آئی ہے کہ ہمارے جو جرائم پیشہ ملک میں لوگ ہیں جو ڈاکو ہیں جو جرائم پیشہ لوگ ہیں وہ بڑے شاطر ذہن ہونے کے ساتھ ساتھ جدید قسم کے اسلحہ سے بھی لیس ہوتے ہیں جبکہ ہمارے ادارے تمام سہولیات ہونے کے باوجود اکثر یہی کہتے ہیں کہ ان کی گاڑیاں خراب تھیں ان کے پاس پرانا اسلحہ تھا ان کا اسلحہ چلتا نہیں تھا حیرت کی بات یہ ہے کہ اب ہماری پولیس کی چوکیوں پر بھی ڈاکو حملے کرتے ہیں اپنے ساتھیوں کو چھڑا کر لے جاتے ہیں اور اس طرح کی صورتحال میں حکومت اور ہمارے ادارے بے بس ہیں پولیس کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا جاتا ہے پولیس اہلکاروں کی شہادت ایک بہت بڑا سانحہ ہے یہ خبر محض ایک خبر نہیں ہے بلکہ لمحہ فکریہ ہے جس پر ہمارے تمام اداروں کو سوچنا چاہیے ہم کچے کے ان ڈاکوئوں کا خاتمہ کیسے کر سکتے ہیں کچے کے ڈاکوؤں کے خاتمے کے لیے کوئی پکا انتظام ہونا چاہیے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کچھ لوگ ان کو اپنے مخصوص مقاصد کے حصول کیلئے زندہ رکھے ہوئے ہیں اور جس کی وجہ سے بہت سے لوگوں کا کاروبار چل رہا ہے حکومت کو اس مسئلے پر سنجیدہ ہونا چاہیے اور ریاست کے اندر اس قسم کی بدمعاشی اور سینہ زوری کرنے والوں کو روکنے کیلئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو زبانی کلامی نہیں بلکہ عملی طور پر ان کے ساتھ آ ہنی ہاتھوں سے نمٹنا چاہیے ہمارے ایک پولیس آفیسر شاعر دوست فاروق سائر نے اس سانحے کا دلگیر نوحہ لکھا ہے :
نوحہ سانحہ ماچھکہ
کبھی تم تپتی صحرا میں کبھی روشن الاؤ میں 
ہمیں تم بھیڑ بکری کیوں سمجھ کر ہانک دیتے ہو 
ہمی ہیں فخر ماؤں کا ہمی ہیں باپ کی ہمت 
ہمی بہنوں کی چادر ہیں ہمی ہیں بازو بھائی کے
ہمی اس قوم کے بیٹے ہمی پتر ہیں ماؤں کے 
ہمی رکھوالے دھرتی کے ہمی پرچم کے رکھوالے
ہمی ہیں نذر آتش بھی ہمی بارود کے آگے 
ہمی بدنام تھے پہلے ہمی گمنام ٹھہرے اب
ہمی پر سانحے اترے ہمی ہیں لاپتہ اب تک
مگر ہر سانحے کے بعد ہر ہر واقعے کے بعد 
عیادت کو مذمت کو وفاقی قافلے آئے
سیاسی قافلے آئے مداری قافلے آئے
عیادت کرتے رہنا ہی مذمت کرتے رہنا ہی 
یہاں دستور ٹھہرا ہے
عیادت سے مذمت سے کبھی بدلاؤ آیا ہے؟ 
یہاں ہر سانحے کے بعد 
نیا اک سانحہ سائر! یہاں پر روز ہوتا ہے
سنو اے صاحبِ مسند!
ہمیں رقبے نہیں لینے ہمیں تمغے نہیں لینے 
ہمیں ڈالر نہیں لینے ہمیں کچھ بھی نہیں لینا
ہمیں بدلہ چکانا ہے
ہمیں آزاد کر دو بس۔۔۔!
دوسری اہم خبر کراچی کارساز علاقے کی ہے جہاں ایک سر پھری خاتون نے نشے میں دھت ہو کر کچھ لوگوں پر گاڑی چڑھا دی اور جس کے نتیجے میں ایک باپ اور بیٹی کچلے گئے وہ بیٹی جس کو اس کے باپ نے محنت مزدوری کر کے پڑھایا لکھایا اور جب وہ اپنے کنبے کی کفیل بنی تو پھر ایک ایسی خاتون کی نااہلی کی نذر ہو گئی جس نے نشے میں دھت ہو کر ان پر کار چڑھا دی اس خبر کا جو المناک پہلو ہے وہ یہ ہے کہ اس خاتون کو یہ کہا گیا کہ اس کا ذہنی توازن صحیح نہیں ہے اور اس کو بچانے کیلئے بہت سے لوگ میدان عمل میں کود پڑے تعلقات اور دباؤ کے ذریعے بالآخر ان طبقات نے وہ نتیجہ حاصل کر لیا جو عام لوگوں کیلئے قابل قبول نہیں ہے خاص لوگ اپنے مطلب کے سارے راستے نکال لیتے ہیں اور قانون بھی ان کیلئے موم کی ناک بن جاتا ہے ضمانت ملنے کے بعد سوشل میڈیا پر اس خاتون کی جو تصویر وائرل ہوئی ہے وہ ہم سب کیلئے بھی ایک لمحہ فکریہ اور ہمارے نظام حکومت پر ایک سوالیہ نشان ہے آج کے کالم کا موضوع بننے والی تیسری خبر سالم انٹر ایکسچینج پر تین قیمتی جانوں کے قتل کی ہے کہ یہاں پر ایک شاپ سے کھانے پینے کی کچھ اشیاء لی گئیں اور ان کے کھانے کے نتیجے میں یہ تین افراد فوڈ پوائزنگ کی وجہ سے جان سے گئے یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ یہ ان اشیائے خورد و نوش کی ایکسپائری ڈیٹ تھی۔
 حیرت ہے کہ اتنی اہم عوامی جگہوں پر ان اہم انٹر ایکسچینج پر جو لوگ ڈیوٹی پر موجود ہیں وہ کیا چیک کرتے ہیں اور فوڈ کنٹرول کمیٹی والے فوڈ کوالٹی والے جن کے بارے میں اکثر یہ خبریں گرم ہیں کہ وہ بھتہ بھی لیتے ہیں وہ کہاں سوئے ہوئے ہیں جب ہمارے ملک میں اس قسم کے واقعات رونما ہوں گے کوئی کسی سے کسی قسم کی پوچھ گچھ نہیں کریگا نہ وہاں کوئی ایسی جگہوں پر کوئی ریٹ لسٹ ہوتی ہے نہ اس ریٹ لسٹ کے مطابق عمل درامد ہوتا ہے نہ ہی اس کی خلاف ورزی پر کسی سے پوجھا جاتا ہے نہ کسی کے خلاف کاروائی ہوتی ہے تو ایک سانچے کے بعد ایک اور سانحے کے اسباب تو بننے ہوتے ہیں یہ تینوں خبریں محض خبریں نہیں ہیں ہمارے معاشرے کا المیہ ہیں متعلقہ محکموں کی کارکردگی اور نااہلی کی چارج شیٹ ہیں یہ خبریں بھی آنے والے دنوں میں وقت کی گرد میں دب کر رہ جائیں گی احتجاج کرتی آوازیں خاموش ہو جائیں گی جن کے گھرانے اور خاندان تباہ ہوئے ہیں وہ اپنے پیاروں کی برسیاں مناتے رہیں گے اور اپنی آنکھیں نم کرتے رہیں گے کاش ہم زبانی جمع خرچ اخباری بیانات اور زبانی کلامی دعووں کے علاوہ بھی کچھ کر سکتے تو آج ہمارے ملک اور معاشرے کا یہ حال نہ ہوتا ہماری حکومت اور ذمہ دار ادارے محض اخباری اور تشہیری افسوس کے بیانات اور مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچائے کے یک سطری بیانات دے کر اپنے فرائض منصبی سے عہدہ برآ ہو جاتے ہیں اور خلقت شہر کہنے کے لئے پھر کسی نئے سانحے اور فسانے کی منتظر رہتی ہے۔

مزیدخبریں