پاکستان پون صدی بعد : ایک تنقیدی تجزیہ

Aug 26, 2024

سکندر خان بلوچ

اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم ِ رسولِ ہاشمی
 معلوم نہیں ڈاکٹر صاحب نے کن مسلمانوں اور اُنکی کونسی عادات اور کونسے خصائل سے متاثر ہو کر یہ شعر لکھا؟ یہ بھی نہیں پتہ کہ وہ کونسی خصوصیات ہیں جن کی وجہ سے مسلمان خاص کر اس خطے کہ مسلمان اہلِ مغرب سے مختلف ہیں۔ظاہری طور پر تو یہی احساس ہوتا ہے بلکہ دکھ ہوتا ہے کہ کاش ہم بھی اہلِ مغرب کے ہم پلہ ہوتے تو یوں آج دنیا کی چھوٹی چھوٹی قومیں ہم پر حکمرانی نہ کرتیں۔لاہور شہر سے بھی کم آبادی والا ملک اسرائیل آج فلسطینیوں کی اتنی تباہی نہ لاتا۔تمام مسلمان مل کر بھی اس ملک کا کچھ نہیں بگاڑ سکے۔ اگر ہم کسی قابل ہوتے تو یوں کشمیریوں پر اتنے ظلم نہ ہوتے۔ یوں پاکستان اس ظالمانہ انداز میں دو لخت نہ ہوتا۔یوں ہم پر نہ قرضے کے پہاڑ چڑھتے نہ ہماری معیشت ڈوبتی اور نہ ہمارے لوگ یوں خود کشیوں پر مجبور ہوتے۔ بلکہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ کاش ہم میں بھی اہلِ مغرب والی خصوصیات پیدا ہوتیں اور اپنے آپ کو ایک خوددار،باعزت اور ترقی یافتہ ملک بناتے۔یوں ہمارا مرتبہ بھکاریوں والا نہ ہوتا۔ کم از کم مغرب کی تحقیق کی عادت، سائنسی ترقی ، تعلیم اور طبی نظام ، روز مرہ کے معمولاتِ زندگی اور ناپ تول میں ایمانداری، کھانے والی چیزیں بغیر ملاوٹ کے علاوہ اور بھی ایسی بہت سی خوبیاںہیں جن کی اگر ہم تقلید کریں تو ہماری قسمت بدل سکتی ہے۔
معزز قارئین وطن کی مثال جنم دینے اور پرورش کرنے والی ماں کی طرح ہے جو ہر دکھ سہہ کر بھی اولاد کی تکلیف برداشت نہیں کر سکتی۔ خود بھوکی رہ کر بھی بچوں کو بھوکا نہیں سونے دیتی۔دنیا کی سب سے مقدس ہستی ’’ماں‘‘ ہی ہے۔ اگر کسی انسان کو سجدہ جائز ہوتا تو یہ یقینا سب سے پہلے ماں کو ہوتا۔ یہی تعلق ہمارا وطن سے ہے۔ہمارے لئے وطن سے زیادہ مقدس چیز کوئی نہیں۔یہ پیارا وطن ہی ہے جس میں ماں اور باپ والی تمام خوبیاں موجود ہیں۔ میرا ایمان ہے کہ میراوطن سب سے زیادہ پیارا ہے اور اس کی حفاظت اور خدمت کے لئے جان کی قربانی دینا عبادت سے کم نہیں۔ میرے وطن اور میرے وطن کے لوگوں میں بہت سی خوبیاں ہیں جو کسی اور ملک میں سننے یا دیکھنے کو نہیں ملتیں۔ہماری منفرد روایات، معمولات زندگی، سیاسی ، عدالتی، تعلیمی اور طبی نظام سب قابلِ تعریف ہیں۔ آئیں ذرا جائزہ لیتے ہیں۔
سب سے پہلی چیز جس سے میں بہت متاثر ہوں اور یقینا بیرونی دنیا بھی وہ ہیں ہمارے ٹی۔وی اشتہارات۔ٹی۔وی اشتہارات آج کل قومی کلچر کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔ ہم خود کریں یا نہ کریں لیکن بیرونی دنیا یقینا ہمارے ٹی۔وی پروگرام اور ٹی۔وی اشتہارات سے ہمارے کلچر اور طرزِ زندگی کا اندازہ لگاتی ہے۔ ہمارے لوگ اتنے اچھے اور قناعت پسند ہیں کہ چھوٹی چھوٹی چیزوں سے خوش ہو جاتے ہیں۔ ایک بوتل کوک ملنے ،گھر کو پینٹ کرانے سے، خواتین کے لئے برتن دھونے کا صابن دیکھ کر ، کسی نئی کمپنی کی سرخی یا میک اپ کا سامان دیکھ کر اور اسی طرح کی چھوٹی موٹی چیزیں دیکھ کر مردو خواتین خوشی سے ڈانس کر نا اور گانے گانا شروع کر دیتے ہیں جیسے انہیں کوئی نایا ب خزانہ مل گیا ہو۔اچھی بھلی معقول شخصیات ٹوٹھ پیسٹ کی ٹیوب دیکھ کر جب ڈانس کرتی ہیں اور وہ بھی بے ہودہ انداز میں تو بڑا عجیب محسوس ہوتا ہے۔ سمجھ نہیں آتی کہ ایسے اشتہارات پر افسوس کیا جائے یا خوشی منائی جائے۔ بیرونی دنیا میں یہی تاثرجاتا ہے کہ ہم پاکستانیوں کی یہی کچھ وقعت ہے۔میڈیا نے تو آج کل پوری دنیا کو ایک’’ گلوبل ویلج‘‘ میں تبدیل کر دیا ہے۔ بہت سے ملکوں کے ٹی۔وی پروگرام دیکھنے کو ملتے ہیںلیکن کسی ملک کے بھی ایسے ’’فنی‘‘قسم کے اشتہارات دیکھنے کو نہیں ملتے۔ایک امریکن سینٹر نے ٹھیک ہی کہا تھا کہ پاکستانی دنیا میں سب سے سستے اور چھوٹی سوچ والے لوگ ہیں۔اگر انہیں امریکہ کے ویزے یا کسی بچے کو امریکن سکول میں داخلے کا لالچ دے دیا جائے تو یہ لوگ ہمارے لئے ہر کام کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔
ہماری دوسری بڑی روایت یہ ہے کہ ہم پیدائشی طور پر جنگجو ہیں۔ کسی نے کہا تھا کہ ’’خواتین خصوصاً بیویوں کو لڑنے کے لئے کسی خاص وجہ کی ضرورت نہیں ہوتی۔‘‘ یہی حالت ہماری قوم کی ہے۔ تقسیم ہند سے پہلے ہندو مسلم فسادات ہوتے تھے اب ہندوؤں کے چلے جانے سے ہمارے آپس کے فسادات ختم نہیں ہوتے۔ شیعہ ، سنی ، بریلوی، وھابی، مرزائی وغیرہ سب آپس میں گتھم گتھا ہیں۔ پھر آگے چل کر سبز پگڑی، کالی پگڑی، سفید پگڑی، یہ بلوچی ہے، یہ پختون ہے، یہ پنجابی ہے، یہ سندھی ہے، یہ کشمیری ہے وغیرہ ہر بات اور ہر چیز وجہ عناد ہے۔ہم عبادت سمجھ کر ایک دوسرے کا خون بہانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ ہم نے آپس میں لڑ لڑ کر آدھا ملک گنوا دیا ۔ اپنی معیشت کا بھٹہ بٹھادیا ۔ ہم ہندو اور سکھوں کیساتھ تو رہنے کو تیار ہیں مگر آپس میں مل کر رہنے کو تیار نہیں۔ہم دنیا کی واحد عظیم قوم ہیں جس نے آزادی (77سال ) سے لیکر آج تک کوئی ترقی نہیں کی۔ دنیا میں سب سے زیادہ مقروض ہیں۔ بقول ایک مشہور بھارتی تجزیہ نگار کے ہمارے محب وطن لیڈروں نے نہ صرف قومی وسائل ہڑپ کئے ہیں بلکہ عوام کی ہڈیوں کا گودا تک نکال کر کھا گئے ہیں۔ہمارے ساتھ یا ہم سے بہت بعد میں آزاد ہونے والی اقوام ترقی میں ہم سے بہت زیادہ آگے نکل چکی ہیں لیکن خوشی کی بات یہ ہے کہ ہمارے کچھ عظیم لیڈرز دنیا کی امیر ترین شخصیات میں شمار ہونے لگے ہیں۔ خدا انہیں خوش رکھے۔ آمین!
کہنے کو تو ہم ایک جمہوری ملک ہیںلیکن ہماری جمہوریت پوری دنیا میں ’’وکھری ‘‘قسم کی ہے بلکہ بہت سی نئی جمہوری روایات کے ہم صرف موجد ہی نہیں بلکہ امین بھی ہیں۔ ہمارے ہاں فوجی جمہوریت ، آمرانہ جمہوریت، فوجی سیاسی جمہوریت، سیاسی آمرانہ جمہوریت اور مارشل لائی جمہوریت وغیرہ سب اپنی ایجاد کردہ ہیں لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ طرزِ جمہوریت کوئی بھی ہوعوام کی بہتری کبھی نہیں ہوئی۔الیکشن جیسے بھی ہوں اقتدارکے حقدار صرف دوہی خاندان قرار پاتے ہیں ۔ہماری جمہوریت فیصل آباد کا گھنٹہ گھر بن چکی ہے ۔ہماری ہر سیاسی پارٹی یا سیاسی شخصیت اپنے علاوہ باقی سب کو غیر جمہوری اور بعض حالات میں وطن دشمن قرار دیتی ہے۔ ہر صاحبِ اقتدار پارٹی اپنے مخالفین کو جیلوں میں ڈالنا ان پر مقدمات بنانا اور انہیں تنگ کرنا اپنا فرض سمجھتی ہے۔ اقتدار سے باہر ہو کر ایک دوسرے کے خلاف زور دار بیانات دیتے ہیں بلکہ بد زبانی تک سے پرہیز نہیں کرتے لیکن اقتدار کی جھلک نظر آتے ہی سب کچھ بھول کر ایک ہی میز پر بیٹھ کر کھانے لگتے ہیں۔ایک دوسرے کی کرپشن کو تحفظ دیتے ہیں اور یہ عین اسلامی تعلیم کے مطابق ہے کیونکہ تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں۔
میرے پیارے وطن کے سیاستدان بہت سمجھ دار، ذہین اور محب الوطن لوگ ہیں مگر صرف الیکشن سے پہلے۔ عوام کو ایسے ایسے سبز باغ دکھاتے ہیں کہ انہیں سلیوٹ کرنے کو دل کرتا ہے مگر افسوس کہ اقتدار میں آکر سب وعدے’’ ماضی ‘‘بن جاتے ہیں۔ان لوگوں نے حواریوںکے ایسے ایسے گروپس پیدا کر رکھے ہیں جو چوبیس گھنٹے ان کی تعریف میں لگے رہتے ہیں۔ ان کی کارکردگی اور عظمت کی تعریفیں کر کر کے انہیں (نعوذبااللہ ) پیغمبرانہ درجے تک لے جاتے ہیں۔ ان عظیم لیڈروں کی اعلیٰ کارکردگی کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ وطن عزیز پچھلے 77سالوں سے ایک مفلوک الحال اور مقروض ملک چلا رہا ہے۔ بہرحال ان تمام خوبیوں اور خامیوں کے باوجود ہمارا پیارا وطن ہمارے لئے جنت سے کم نہیں۔ دعا ہے اے پیارے وطن تو ہمیشہ سلامت رہے تا قیامت رہے۔ آمین! پاکستان زندہ باد!

مزیدخبریں